پہلے گلاس اور لوٹے تو سنبھالو


میرے ایک دوست بلکہ چھوٹے بھائیوں جیسے دوست اور نوجوان جذبوں کے توانا شاعر فضل الرحمان فطرت نے ایک پوسٹ شیئر کیا ہے۔ یہ منظر کسی یورپی ملک کا ہے، کسی سروس روڑ کے موڑ پر ایک بچی لٹل فری لائبریری کے سامنے بیٹھی ہوئی ہے اور اپنی پسند کی کتاب بڑی انہماک سے پڑھ رہی ہے۔ اور میرے دوست نے اس پر کمنٹس لکھے ہیں کہ ہمیں اس پوزیشن یا نہج پر پہنچنے میں کتنے زمانے لگیں گے؟ جس پر یار دوستوں نے مختلف نوع کے کمنٹس کیے ہیں لیکن ایک اور ہمارے دوست شاعر اور جرنلسٹ وصال خٹک نے اس پر سوال اٹھایا کہ کیا ہم جگہ جگہ لگے موبائل چارجرز بوتھ رکھنے کے سلیقے کے روادار ہو چکے ہیں؟

بظاہر یہ دونوں کمنٹس تھے تو بہت مختصر اور معمولی نوعیت کے لیکن تہذیبی لحاظ سے بہت گہرے اور وسیع ہیں ۔  آئے دن ہم عام استعمال کی ایسی اشیا دیکھتے ہیں جو زنجیر سے بندھی ہوئی ہوتی ہیں،  اگر ہم کسی جگہ حتٰی کہ مسجد میں پانی پینے جاتے ہیں تو ہمارا واسطہ  ایک زنجیر سے بندھے گلاس سے پڑتا ہے۔

جب ہم کسی بینک میں جاتے ہیں تو دس روپے مالیت کا پیانو بال پوائنٹ پین ربڑ کی رسی سے نتھی کیا ہوا ملتا ہے۔اسی طرح مختلف مقامات پر چارجرز بوتھ کے ساتھ بندھے چارجر کیبل کی جب ضرورت پڑتی ہے تو موقع پر پہنچ کر خالی بوتھ کا دیدار نصیب ہوتا ہے اور کام  کے الات کوئی اور ”ضرورت مند” اپنے ساتھ لے کر جا چکا ہوتا ہے۔

مسجد میں جوتے زیادہ تر لوگ اپنی سجدہ گاہ کے سامنے رکھ کر محفوظ سمجھتے ہیں گو کہ کچھ لوگ دھیمے لہجے بول رہے ہوتے ہیں کہ یوں نماز نہیں ہوتی پر نمازی کا استدلال ہوتا ہے کہ پیچھے جوتے رکھنے سے پھر جوتے نہیں ہوتے۔ ہم تاریکی کو پسند کرنے والے لوگ ہیں، اکثر گلی کوچوں میں سٹریٹ لائٹس کو طویل مدت تک صحیح سلامت رکھنے کے روادار نہیں ہوتے ہیں۔ بس سٹینڈ پر بنے مسافر خانوں کو آلودہ کھنڈر بنانا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔

بنے بنائے روڈ کے بیچوں بیچ گڑھا کھودنا اور پھر اس کو اسی حالت میں چھوڑ دینا ہماری سیاسی اور محکمہ جاتی ثقافت ہے۔ بیچ گلی اور مین روڈ پر سپیڈ بریکر کے نام لمبا پر قبرنما ‘کار بریکر’ تو جیسے ہمارا ٹریڈ مارک بن گیا ہو۔ ہر وہ جگہ جہاں صفائی درکار ہوتی ہے وہاں غلاظت کے ڈھیر لگانا ہماری عادت بن چکی ہے ۔ گھروں کی صفائی کا گندا پانی باہر گلی میں بہانا تو ہمارے  لیے  معمولی کی کارروائی ہے ۔

گٹروں کو سیاسی بلیک میلنگ کے لیے پتھروں اور بوریوں سے بند کرانا ایک الگ وتیرہ ہے۔ اسی طرح کتابوں کو پرانے یا کباڑ کا مال سمجھ کر زمین پر پھیلا کر بیچنا اور ملکی لائبریریوں کو ویران کرانا بھی ہمارا معمول ہے ۔

جب صرف پیسہ ہی بڑا بننے کے لیے کافی ہو تو ایسی صورت حال میں زمبابوے کے صدر موگابے کا قول ہی صادق آتا ہے کہ اس معاشرے میں آپ کسی کو اس بات پر قائل نہیں کر سکتے کہ تعلیم اچھی یا بنیادی چیز ہے جہاں پر کم پڑھا لکھا یا ان پڑھ شخص پیسے کے بل بوتے پر وزیر مشیر بنتا ہو، لگژری گاڑیوں میں گھومتا ہو اور بڑی بڑی عمارتوں میں پرتعیش زندگی گزارتا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).