دہشت گردی اور ہمارے غلط فیصلے


\"\"غلط فیصلوں کے نتائج کبھی بہتر نہیں ہوتے اور ہمارے وزیراعظم سمیت قومی سیاسی جماعتوں کے غلط فیصلوں کے نتائج اس قوم نے جس بہادری سے جھیلے ہیں اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ دو مارچ دوہزارچودہ کو حکومت پاکستان نے طالبان سے مذاکرات کے لیے جب جنگ بندی کاایک احمقانہ اعلان کیا تومجھے یاد ہے کہ طالبان ترجمان شاہداللہ شاہد اور عمر خراسانی نے بھی جنگ بندی کے اس حکومتی فیصلے کو خوش ائند قرار دیتے ہوئے پیس زون کے قیام کا مطالبہ کیا تھا جہاں وہ بلاخوف و خطر حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر سکیں۔ جنگ بندی کو ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ شدت پسندوں نے اسلام آباد کچہری پر خودکش حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں گیارہ افراد شہید ہوئے۔ اس حملے سے تحریک طالبان نے نہ صرف لاتعلقی کا ایک بلند اعلان کیا بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر اس کی مذمت بھی کر ڈالی۔ بدقسمتی سے اس حملے کے بعد جنگ بندی کے حکومتی فیصلے پر قومی سیاسی قیادت نے کسی قسم کے خدشات کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اسلام آباد کچہری پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی شدت پسند جماعت احرار الہند ایک نیا نام تھا جس سے طالبان نے نہ صرف مکمل لاتعلقی کا اعلان کر دیا بلکہ حکومت کو شاطرانہ پیشکش بھی کر ڈالی کہ وہ احرارالہند تک رسائی میں مدد بھی کر سکتے ہیں۔ طالبان کے اس اعلان پر میرے لیے نہایت قابل احترام سینیٹر پرویز رشید بہت خوش تھے۔ اس دن انہوں نے یہ بیان داغ دیا کہ اب پاکستان بدل رہا ہے کیوں کے طالبان بھی عوام پر حملوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ میری اس بات کا اقرار پرویز رشید بھی کر سکتے ہیں کہ حکومت سے مذاکرات کے نام پر طالبان نے جو کھیل کھیلا وہ بہت بھیانک تھا دراصل احرارالہند عمر خراسانی کی تخلیق کردہ نئی شدت پسند جماعت تھی اور اس وقت عمر خراسانی ایک طرف نئی شدت پسند جماعت کے ساتھ دھشت گردی کی کارروائیاں کرتا اور دوسری طرف طالبان کے پرچم تلے جنگ بندی اور امن مذاکرات کی باتیں بھی کر رہا تھا۔ چار مارچ کو ہی عمر خراسانی نے ایک بار پھر پیس زون کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے مکین، لدھا یا بنوں ہوائی \"\"  اڈے پربراہ راست حکومتی مذاکراتی ٹیم سے مذاکرات کے لیے آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ عرفان صدیقی جو اس وقت حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ تھے بہت پرامید تھے کہ اب سب کچھ بہتر ہو جائے گا جب کہ دوسری جانب طالبان کے مرکزی استاد سمیع الحق طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ تھے، سمیع الحق بیک وقت طالبان اور چودھری نثار سے مکمل رابطے میں تھے۔ جمیعت علماءاسلام ( س ) کے صوبائی صدر یوسف شاہ اور جماعت اسلامی کے صوبائی امیر پروفیسر ابراہیم بھی طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن تھے۔ طالبان کے اس سارے شاطرانہ کھیل کو پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت بہتر وقت پر نہیں سمجھ سکی اور پھر ہم سب نے بلاآخر وہ سیاہ دن بھی دیکھ لیا جب سولہ دسمبرکو طالبان نے آرمی پبلک سکول پشاورمیں تاریخ کی بدترین درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بچوں سے انکی زندگیاں چھین لی۔ طالبان کی یہ سفاکیت حکومت پاکستان اور کل جماعتی کانفرس کے بدترین فیصلوں کا ہی نتیجہ تھی۔ ساٹھ ہزار پاکستانیوں کے قاتلوں سے مذاکرات کرنے کے فیصلے کا نامراد نتیجہ پوری قوم نے بے بسی کے ساتھ ہی دیکھا ہو گا۔\"\"

سانحہ پشاور کے زخم کبھی ختم نہیں ہو سکتے مگر ہم اپنی غلطیاں تو دیکھ سکتے ہیں، صرف دیکھ ہی نہیں سکتے بلکہ اگر چاہیں تو اپنی غلطیاں ختم بھی کر سکتے ہیں مگر دکھ کی بات ہے کے اب بھی ہم کسی نہ کسی طرح عجیب غلطیاں کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ قومی دشمنوں کے ساتھ جس رویے سے پیش آ رہے ہیں اس سے مزید سوالات جنم لے رہے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد نیشنل ایکشن پلان کو مایوس قوم نے بہت امید کے ساتھ سے دیکھا تھا مگر اس نیشنل ایکشن پلان کو جس طرح متنازعہ بنایا گیا اس کی مثال بھی نہیں ملتی۔ شدت پسند بہت سے نئے ناموں کے ساتھ اپنے پرانے مکرہ عزائم کی تکمیل میں مگن ہیں مگر وزیرداخلہ کالعدم تنظیموں کو اسلام آباد میں جلسوں کی اجازت بھی جاری کر رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دھشت گردوں سے سختی سے پیش آنے پر ضرور متفق ہیں مگر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر عوام کا حکومت اور اپوزیشن دونوں پر پر عدم اعتماد کرتے ہوئے شدت پسندسوچ کی حامل جماعت کے امیدوار کو بھاری اکثریت سے منتحب کرنا بھی تشویش ناک ہے۔ بلاول بھٹوزرداری شدت پسند جماعت کے امیدوار کی کامیابی کو نیشنل ایکشن پلان کی ناکامی قرار دے \"\"رہے ہیں مگر ان سے کوئی پوچھے کہ ان کی سیاسی جماعت کی اس الیکشن میں ناکامی کی وجہ کیا تھی۔ بلاول سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ان وجوہات پر غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے عوام نے ان پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ووٹ کی پرچی مسرور نواز کے حق میں استعمال کی۔ قومی قیادت کی منافقانہ پالیساں ہمیشہ عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔ کیا ہم یہ بھول جائیں کہ الیکشن دوہزار آٹھ میں سیکولر جماعت پیپلز پارٹی کے چوبیس ارکان قومی اسمبلی جن میں نوید قمر،شاہ محمود قریشی اور موجودہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تک نے کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کی حمایت حاصل کی۔ کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں کلعدم تنظیموں کے ساتھ بلاول کی روشن پسند جماعت کا اتحاد منافقت کی بدترین مثال کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ادھر پنجاب کے وزیر قانون کا کلعدم سپاہ صحابہ کے ساتھ گٹھ جوڑ سب نے کھلی انکھوں سے دیکھا تھا۔ اس سب کے بعد بھی اگر ہم اپنی غلطیاں ختم نہیں کر سکتے تو ہمیں مزید بھیانک حادثات کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ اور اب اس جھوٹ کی ذرا بھی جگہ نہیں ہونی چایئے کہ ہم تاریخ کے نازک دورسے گزر رہے ہیں۔ ہمیں اس سچ کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم اپنی غلطیوں کی وجہ سے ایک عرصہ سے تاریخ کے نازک ترین موڑ پر رکے کھڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments