پرویز خٹک نے کس کا پیغام کس کو پہنچایا؟


وزیر دفاع پرویز خٹک نے گزشتہ روز نوشہرہ میں اپنے گاؤں میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جو تقریر کی تھی، اس کے سامعین ضرور مانکی شریف کے باشندے تھے لیکن اس میں چھپا پیغام اسلام آباد میں بعض سیاسی حلقوں تک پہنچانا مقصود تھا۔ شاید وصول کنندہ نے وزیر موصوف کو رسید بھی روانہ کردی ہو۔ البتہ اگر اس کے مخاطب وزیر اعظم عمران خان تھے تو انہوں نے اعداد و شمار کے ذریعے ملک میں قیمتوں پر قابو پانے کی نوید دے کر عوام کو خوش و مطمئن کردیا ہے۔ یوں شاید اس شبہ کو بھی مسترد کیا گیا ہو کہ اگر کوئی غلطی سے یہ سمجھے کہ پرویز خٹک انہیں کوئی ’دھمکی یا پیغام‘ پہنچا رہے ہیں تو وہ اس غلط فہمی کو دور کرلے۔

پرویز خٹک ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ طویل سیاسی سفر میں انہوں نے کئی پارٹیوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ کہے ہوئے لفظ کی طاقت و تاثیر سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ کراچی کے فیصل واڈا نہیں ہیں جو ٹاک شو میں میز پر فوجی بوٹ بھی رکھ سکتا ہے اور ایسا کوئی بھی بیان دے سکتا ہے جس پر اسے کبھی بھی پشیمان ہونے یا معافی مانگنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لئے وضاحتی ٹویٹ کے باوجود یہ قیاس کرنا ممکن نہیں کہ پرویز خٹک جب یہ ’بڑھک‘ لگا رہے تھے کہ عمران خان کی حکومت ان کی مرضی و تعاون کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی اور یہ کہ وہ کسی کو اگر آسمان پر پہنچا سکتے ہیں تو اسے زیرو کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، تو انہیں بہت اچھی طرح علم ہوگا کہ انہیں کن الفاظ میں کون سا پیغام کس کو پہنچانا ہے۔ یہ جاننا بھی سود مند ہوسکتا ہے کہ اوج ثریا پر پہنچانے یا زیرو کرنے کا دعویٰ پرویز خٹک کا ہی تھا یا وہ کسی دوسرے کی صلاحیت و حیثیت کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔

پاکستانی سیاست میں چونکہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھانے اور کھانے کے دانت الگ الگ ہوتے ہیں، اس لئے پیغام رسانی کے طریقے اور پیغام رسانوں کی شناخت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ کبھی یہ پیغام بظاہر دھمکی آمیز تقریر کے ذریعے دیا جاتا ہے اور کبھی اظہار وفاداری اور خلوص کا یقین دلاتے ہوئے کوئی بات منزل مقصود تک پہنچا دی جاتی ہے۔ اس بالواسطہ پیغام رسانی میں اگرچہ پیغام رساں ہمیشہ دیانت داری سے مافی الضمیر بالکل درست حالت میں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بالواسطہ مواصلت کی مشکلات اپنی جگہ موجود رہتی ہیں۔ یعنی یہ عین ممکن ہوتا ہے کہ پیغام ’ب ‘ کے لئے ہو اور اسے ’الف ‘ خود کو دی جانے والی دھمکی سے تعبیر کرتے ہوئے غرانے لگے۔

بہر حال جدید طریقہ ہائے مواصلت، مثال کے طور پر ٹوئٹر نے فوری وضاحت جاری کرنے کی سہولت فراہم کر کے اس مشکل کو کسی حد تک آسان کردیا ہے۔ یعنی بے آبرو کرنے والے بیان کو اچانک عہد وفاداری سے تبدیل کر کے اپنی پوزیشن واضح کی جا سکتی ہے۔ پرویز خٹک نے بھی بالکل وہی کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ پرویز خٹک عمران خان کے وفادار ہیں لیکن اب یہ بھی پتہ چلا کہ وہ ان کے احسان مند بھی ہیں۔ اسی لئے اصل تقریر کے علاوہ وضاحتی ٹوئٹ میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ اس احسان مندی کی وجہ سے وہ عمران خان کے ساتھ پرخلوص رہیں گے۔ صحافی نے آج تک تو یہی سنا اور پڑھا تھا کہ سیاست اصولوں کے لئے کی جاتی ہے اور ہر سیاسی پارٹی کسی منشور کے تحت سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ خاص طور سے اصول پسند عمران خان کی نگرانی میں 22 سالہ جد و جہد کے بعد منزل مقصود تک پہنچنے والی پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں تو پرویز خٹک کی تقریر سے پہلے پورے وثوق سے کہا جا سکتا تھا کہ اس کا چئیرمین دوستی یا مراسم کی بنیاد پر بندے اکٹھے نہیں کرتا بلکہ صرف ہم خیال دیانت دار لوگوں کا ہاتھ تھامتا ہے۔ اب ماضی میں وہ لوگ کیا کارنامے انجام دیتے رہے ہیں، اس کی ذمہ داری تو شفاف اور دیانت دار لیڈر پر عائد نہیں ہوتی۔

البتہ اب گرگ باراں دیدہ پرویز خٹک نے عمران خان کا ساتھ دینے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ ان کے ’احسان مند‘ ہیں۔ پاکستان میں جیسے مالی بدعنوانی کی گرفت کرنے کے لئے احتساب بیورو نام کا ایک خود مختار طاقت ور ادارہ موجود ہے، اسی طرح اگر سیاسی و سماجی اخلاقیات کو کنٹرول کرنے والا کوئی نگران ادارہ ہوتا تو وہ ضرور پرویز خٹک کے خلاف ریفرنس دائر کرتا کہ صاحب آئیے اور جواب دیجئے کہ اپنے ذاتی احسان برابر کرنے کے لئے سیاسی وفاداریوں کی سودے بازی کیسے کر سکتے ہیں۔ تاہم ابھی نئے پاکستان کی جدید مدینہ ریاست ابتدائی مراحل میں ہے اور وزیر اعظم بار بار یہ بتا چکے ہیں کہ مدینہ ریاست ایک آدھ سال یا ایک آدھ دور حکومت میں تشکیل نہیں پاتی، اس کے لئے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اسی لئے عمران خان اشاروں کنایوں میں یہ بتاتے رہتے ہیں کہ یہ پانچ سال بعد انتخاب اور نیا لیڈر چننے کا فرسودہ طریقہ ملک کے مسائل حل نہیں کرسکتا بلکہ اسی نظام کی وجہ سے دراصل پاکستان میں طویل المدت منصوبہ بندی نہیں ہوسکی اور ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ ابھی تو عمران خان کی حکومت نے اڑھائی برس یعنی نصف مدت ہی پوری کی ہے اور ابھی سینیٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا مرحلہ باقی ہے۔ اس مشکل سے نمٹنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ اس فوری مسئلہ کا بھی کوئی حل نکال لیا جائے تاکہ مدینہ ریاست جدید کی تشکیل کا باقی ماندہ کام محض انتخابی ’عیاشی‘ کی وجہ سے ادھورا نہ رہ جائے۔ شاعر ملت تو پہلے ہی کہہ گئے ہیں کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔

 پرویز خٹک کی احسان مندی اور عمران خان سے خلوص کا بھانڈا جس طرح بیچ چوراہے پھوڑا گیا ہے، ضرور اس میں بھی کوئی حکمت ہی پوشیدہ ہوگی۔ ایک تو پرویز خٹک احسان مند اور پر خلوص، دوسرے اپوزیشن سے احترام کا رشتہ رکھنے والے معتبر سیاست دان۔ اس پر مستزاد وزارت دفاع کے ذمہ دار عہدے پر سرفراز۔ ان کی باتیں تہہ دار بھی ہوں گی اور ان کے الفاظ میں معانی کا دریا بھی پوشیدہ ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وضاحتی ٹویٹ میں بھی پرویز خٹک نے صرف احسان مندی اور خلوص کا ذکر کیا ہے۔ نہ تو وفاداری کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی اپنے اس دعوے سے انحراف کیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو عمران خان کی حکومت ایک دن بھی باقی نہیں رہ سکتی۔ وضاحتی ٹویٹ میں عمران خان کے لئے صرف ایک نوید ہے کہ وہ آج رات اطمینان سے سوئیں، ابھی پرویز خٹک کی احسان مندی کا حساب بے باق نہیں ہؤا۔ تقریر اور ٹویٹ میں یہ اعتراف موجود نہیں ہے کہ عمران خان کے احسانات کا بدلہ پورا کرنے کے بعد پرویز خٹک کیا کریں گے۔ یا پھر بھی ان کے خلوص کا راہوار اپنی سمت اور چال تبدیل نہیں کرسکتا۔

یہیں سے یہ بات پراسرار ہوجاتی ہے کہ پرویز خٹک کی تقریر میں چھپا پیغام اپنے محسن اور وزیر اعظم کے لئے تھا یا متحدہ قومی تحریک کی قیادت کے لئے جس نے عمران خان کے استعفیٰ کے لئے 31جنوری کی تاریخ مقرر کی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری نے آج اس حقیقت کو نوٹ کیا ہے کہ عمران خان نے اپوزیشن کا ’مطالبہ‘ پورا نہیں کیا۔ اب اپوزیشن بھی وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کے لئے ہر ’قانونی‘ راستہ اختیار کرے گی۔ اس لئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ استعفیٰ کی ڈیڈ لائن گزرنے سے ایک روز پہلے بذریعہ پرویز خٹک بھیجا گیا پیغام کیا پی ڈی ایم کی قیادت کے لئے تھا؟ کہ حوصلہ نہ ہاریں، دباؤ جاری رکھیں۔ ہم بھی کوشش کرتے ہیں آپ بھی کریں۔ پرخلوص لوگوں کا تعاون حاصل رہا تو اللہ بہتری کرے گا۔

بالواسطہ پیغام رسانی کے لئے اگرچہ مواصلت کے جدید طریقے استعمال ہونے لگے ہیں لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ یہ طریقہ دراصل ایک دیرینہ روایت پر استوار ہے۔ اس لئے اس میں اشارے ہوں گے تو اسرار بھی ہوگا۔ پیغام تو ہو گا لیکن اس کی تفہیم کے لئے سیاسی روایت کا پرانا قاعدہ ہی کارآمد ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali