تحریک آزادی کشمیر اور روح کلام اقبال


آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
کہہ رہا ہے داستاں بیدردی ایام کی
کوہ کے دامن میں وہ غم خانۂ دہقان پیر

اگر ہم تاریخ کے اوراق پر نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی ابتدا تو اسی وقت ہو گئی جب ڈوگرہ خاندان کے مطلق العنان مہاراجوں کی حکمرانی کے باعث کرۂ ارض پر یہ جنت نظیر خطہ ظلم و ستم کی تاریک گھٹاوٴں میں ڈوب گیا۔ یہ خطہ جسے زمین پر فردوس بریں کے نام سے پکارا جاتا ہے، دراصل کئی ریاستوں پر مشتمل تھا کہ جو نام نہاد حکمرانوں کے جبر کے آہنی پنجے تلے لہو رنگ ہو کر محکوم و مجبور ہو گیا۔ تحریک آزادی کشمیر کے کئی مد و جزر ہیں، کہ جہاں اسے شیخ عبداللہ اور بخشی غلام محمد جیسے عظیم حریت راہنما میسر آئے جنہوں نے خطے کی آزادی کے لئے اپنا تن، من اور دھن قربان کر دیا۔ وہیں اس تحریک کو مہاراجہ گلاب سنگھ اور ہری سنگھ جیسے ظالموں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے رام راج کا خواب دیکھتے ہوئے اسے بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کے تحت 75 لاکھ نانک سکوں کے عوض خرید لیا۔ اور اس سانحے کا ذکر اقبال نے کچھ اس طرح کیا:

باد صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی
حرفی زما بہ مجلس اقوام باز گوئے
دہقان وکشت و جوئے خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند!

(باد صبا، اگر جنیوا کی طرف تیرا گزر ہو تو مجلس اقوام تک ہماری یہ بات پہنچا دینا۔ دہقان، اس کی کھیتی، ندیاں، پھولوں کی کیاریاں سب کو فروخت کر دیا، ساری قوم کو فروخت کر دیا اور کس قدر ارزاں فروخت کیا۔ )

علامہ محمد اقبال تحریک آزادی کشمیر کے ایک سرگرم رکن اور راہنما تھے۔ آپ کا وطن مالوف کشمیر تھا اور آپ کے آبا و اجداد انیسویں صدی کے اوائل میں ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے تھے۔ علاوہ ازیں یہ کہ آپ کشمیر کی سیاسی حساسیت اور وہاں ہونے والے مظالم سے بخوبی آگاہ تھے۔ اور انہی وجوہات کی بنا پر علامہ کی کشمیر کے ساتھ بے پناہ جذباتی و روحانی وابستگی تھی جس کا ذکر آپ کے کلام، خطوط اور خطبات میں بارہا ملتا ہے۔ بقول اقبال:

تنم گلی ز خیانان جنت کشمیر
دل از حریم حجاز و نواز شیراز است
(میرا تن جنت کشمیر کے گلزار کا ایک گل ہے۔ جبکہ میرا دل حریم حجاز سے، اور میری نوا شیراز سے ہے۔ )

1921 ء میں جب آپ کو چند مقدمات کی پیروی کے لیے کشمیر (سری نگر) جانا پڑا، تو آپ پر کشمیریوں کی مظلومیت کا باب پوری طرح آشکار ہو گیا۔ اور وہاں کے مزدور جو دستکاری کا کام کرتے تھے مگر اس کی مکمل اجرت نہ پاتے تھے، کا ذکر آپ نے اس طرح کیا:

بریشم قبا خواجہ ازمحنت او
نصیب تنش جامۂ تار تارے
(اس کی محنت کے نتیجے میں سرمایہ دار ریشمی قبا پہنے ہوئے ہے، مگر کشمیری کے تن پر لباس تارتار ہے۔ )

روح کلام اقبال کی روشنی میں اہل کشمیر کے حوالے سے کئی زاویے قائم ہوتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک سطحی طور پر ایک زاویہ یہ ہے کہ یہ قوم اپنا مقام اور خودی کی دولت کھو بیٹھی ہے اور غلامی پر آمادہ ہو گئی ہے جس کے باعث انھیں اس طرح کے مصائب کا سامنا ہے۔ اس کا ذکر آپ نے کچھ اس طرح فرمایا:

کشیری کہ با بندگی خو گرفتہ
بتی می تراشد ز سنگ مزاری
ضمیرش تہی از خیال بلندی
خودی ناشناسی ز خود شرمساری
بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامۂ تارتاری
نہ در دیدۂ او فروغ نگاہی
نہ در سینۂ او دل بیقراری

(کشمیری جو غلامی کا عادی ہو کر سنگ مزار سے بت تراشتا ہے، اس کا ذہن افکار بلند سے خالی ہے۔ وہ خودی سے محروم اور اپنے آپ سے شرمندہ ہے۔ نہ اس کی آنکھ میں بصیرت کی چمک ہے اور نہ اس کے سینے میں امنگوں بھرا دل۔ )

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اقبال نے یہ بھی کہا:
جس خاک کے ضمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاک ارجمند

اور کلام اقبال کی روشنی میں کشمیریوں کو درپیش تمام مسائل جن میں ظلم و ستم، سیاسی بے اختیاری، حق خودارادیت کا چھن جانا وغیرہ کا حل فلسفۂ خودی میں مضمر ہے۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جب کرۂ ارض کے تمام مسلمان اجتماعی طور پر اپنی اصلیت اور اپنی طاقت سے آگاہ ہو جائیں گے اور یہ جان جائیں گے کہ حقیقت میں اصل جانباز، بہادر، غالب اور دلیر وہ خود ہیں تو پھر یہ نام نہاد اتحاد ممالک حقیقتاً اتحاد آدم و اتحاد عالم کی صورت اختیار کر لے گا۔

نتیجتاً یہ ظلم و ستم اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی اور یہ اتحاد ہی وہ آفتاب عالم تاب ثابت ہوگا جو ظلمات کے ان اندھیروں کو ختم کر سکے گا۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ”چیست جاں دادن“ کی حقیقت عالم پر آشکار ہو۔ مصور پاکستان کا خواب یہی تھا کہ یہ خفتہ قوم اتحاد عالم اور خودی کے ذریعے فولاد کی سی صورت اختیار کر لے گی۔ جس کا ذکر آپ نے کچھ اس طرح فرمایا:

گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہان چار سوے و رنگ و بو
پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے انساں کا ضمیر
کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغ آرزو
ضربت پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بت سنگیں دل و آئینہ رو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).