دہشت گردی مخالف جنگ میں مغرب کی غلط حکمت عملی


\"\"یورپ بھر میں اور کسی حد تک پوری دنیا میں آج علی الصبح میلان میں انیس عامری کی ہلاکت پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔   اٹلی کے وزیر داخلہ نے فخر اور مسرت سے اخبار نویسوں کو یہ اطلاع دی کہ دو پولیس افسروں نے میلان ریلوے اسٹیشن کے باہر برلن سانحہ کے مشتبہ انیس عامری کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس گرمجوشی میں انسانی حقوق کی کوئی تنظیم یہ سوال اٹھانے کی کوشش نہیں کرے گی کہ ایسے دہشت گرد کو ہلاک کرنے کی بجائے گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ پولیس کا بیان سادہ اور عام فہم ہے کہ جب گشت پر موجود دو پولیس افسروں نے ایک نوجوان سے شناخت کروانے کےلئے کہا تو اس نے فائرنگ شروع کر دی۔ اس واقعہ میں ملوث ایک پولیس افسر معمولی زخمی ہوا اور ’’حملہ آور‘‘ مارا گیا۔ موقع پر موجود تین افراد میں سے ایک ہلاک ہو چکا اور دو پولیس والے بتا رہے ہیں کہ ان پر پہلے حملہ کیا گیا تھا۔ انیس عامری کو منگل سے پورے یورپ میں تلاش کیا جا رہا تھا۔ اس پر سوموار کی شام برلن میں ایک کرسمس مارکیٹ پر ٹرک چڑھا کر 12 افراد کو روند کر ہلاک اور 48 کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔ پولیس نے ایک ’’ہوشیار اور جرات مند‘‘ شہری کی اطلاع پر تھوڑی دیر بعد ہی قریبی پارک سے ایک پاکستانی نوید بلوچ کو حملہ آور سمجھتے ہوئے گرفتار کر لیا تھا۔ تاہم 24 گھنٹے کے اندر اسے رہا کر دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ٹرک سے انیس عامری کا شناختی کارڈ اور انگلیوں کے نشان ملے ہیں۔ حیرت ہے دہشتگردی کے خطرناک نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والا حملہ آور پولیس کی سہولت کےلئے شناختی کارڈ جائے واردات پر ہی چھوڑ گیا تھا۔ اس کے باوجود پولیس نے پہلے اس عینی شاہد پر بھروسہ کرنا ضروری سمجھا جس نے ٹرک سے اتر کر بھاگتے ہوئے نوید کا پیچھا کیا اور پولیس کے ساتھ فون پر رابطہ قائم رکھا۔

برلن کا سانحہ دہشتگردی کے کسی بھی واقعہ کی طرح قابل مذمت ہے۔ بدنصیبی سے اسی روز چند گھنٹے پہلے انقرہ میں آرٹ کی ایک نمائش میں ایک ترک پولیس افسر نے روسی سفیر کو سفاکی سے قتل کر دیا تھا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے دو حملوں کی وجہ سے مغربی دنیا میں سنسنی دوڑ گئی تھی۔ جرمنی میں چانسلر انجیلا مرکل کے مخالفین فوری طور پر میدان میں نکل آئے اور گزشتہ برس کے دوران 9 لاکھ کے قریب شامی پناہ گزینوں کو جرمنی آنے کی اجازت دینے کے فیصلہ پر تنقید شروع کر دی گئی۔ یہ تبصرے بھی ہونے لگے کہ آئندہ برس انتخابات کے موقع پر انجیلا مرکل کو اس سانحہ کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اندیشے درست ثابت ہو رہے ہیں کہ پناہ گزینوں میں داعش کے دہشت گرد بھی چھپے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ گویا ایک فرد یا چند افراد کے گروہ کی وجہ سے لاکھوں پناہ گزین اور دنیا بھر میں آباد کروڑوں مسلمان فوری طور پر ’’مشتبہ‘‘ کی حیثیت اختیار کرگئے۔ اس کی تصدیق امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلوریڈا میں اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے کر دی کہ: ’’میں تو پہلے ہی جانتا تھا۔ میرا اندازہ سو فیصد درست تھا۔ جو ہو رہا ہے وہ شرمناک ہے‘‘۔ برلن میں حملہ کے بارے میں ایک بیان میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا :’’داعش اور دیگر انتہا پسند مسلسل عیسائیوں کو ان کے گھروں اور عبادت گاہوں میں ہلاک کر رہے ہیں۔ یہ گلوبل جہاد کا حصہ ہے‘‘۔ جب ایک صحافی نے دریافت کیا کہ یہ عسائیوں پر حملہ کیسے ہے تو دنیا کا سب سے طاقتور عہدہ سنبھالنے کے منتظر شخص نے کہا :’’یہ انسانیت پر حملہ ہے اور اسے روکنا ہوگا‘‘۔ جب ایسی سطحی سوچ کے لوگ دنیا کے معاملات چلائیں گے تو افہام و تفہیم کی توقع عبث ہوگی۔

ڈونلڈ ٹرمپ منہ پھٹ اور غیر سیاسی گفتگو کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی باتیں یورپ اور امریکہ میں پروان چڑھنے والے تعصب \"\"اور نفرت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ میلان میں ایک سانحہ میں مطلوب شخص کو ہلاک کرنا اسی مزاج کی وجہ سے ایک قابل تعریف اقدام کہلاتا ہے اور ایک نامعلوم گواہ کی بات پر یقین کرتے ہوئے اسی لئے ایک مختلف دکھائی دینے والے شخص کو گرفتار کرکے اطمینان کا سانس لیا جاتا ہے کہ ’’مجرم‘‘ ہاتھ آ گیا ہے۔ تاہم جب اس کا جائے وقوعہ سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا تو غلطی تسلیم کرنے کی بجائے یہ کہہ کر اسے رہا کیا جاتا ہے کہ اس کے خلاف کارروائی کے لئے کافی شواہد موجود نہیں تھے۔ یعنی پولیس نے یہ اقرار نہیں کیا کہ اس نے غلط آدمی کو پکڑا تھا بلکہ یہ کہا کہ اس کے خلاف ثبوت موجود نہیں تھے۔ گویا شبہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک ایسے شخص کا شناختی کارڈ اور انگلیوں کے نشان تلاش کرلئے جاتے ہیں جس کے بارے میں حملہ میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ اور اٹلی کی پولیس بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موقع ملتے ہی اس شخص کو ہلاک کرکے اپنا فریضہ سرانجام دیتی ہے اور عالمی تحسین کی مستحق قرار پاتی ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ کی صورتحال ہے اور اس میں بنیادی حقوق جیسے لایعنی تکلفات نہیں برتے جا سکتے۔ اس طرح یورپ اور امریکہ کے لیڈر اس براعظم میں آباد مسلمانوں کو ’’اجتماعی مشکوک‘‘ سمجھنے کے جس رجحان کو تقویت دے رہے ہیں، وہ بتدریج انہیں ’’انسانیت‘‘ کی سطح سے نیچے گرا رہا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بعض دہشت گرد گروہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کےلئے اپنے ہرکاروں کے ذریعے یورپ میں حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہیں، معصوم جانیں لیتے ہیں اور معاشروں میں تفریق اور انتشار پیدا کرنے کا مقصد پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جو مقصد یہ دہشت گرد گروہ دھماکوں اور حملوں کے ذریعے حاصل کرنے کی جہدوجہد کر رہے ہیں، وہی صورتحال ٹرمپ اور ان جیسے خیالات رکھنے والے سیاسی لیڈر اپنی سطحی سوچ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعے پیدا کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ بلاشبہ اس وقت متعدد دہشت گرد گروہ اسلام کے نام پر انسانوں کو قتل کر رہے ہیں لیکن ان سیاستدانوں کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر یورپ اور امریکہ میں ایسے قوم و نسل پرست انتہا پسند گروہوں کی فصل کاشت کی جا رہی ہے جو بالکل اسی طریقے سے مسلمانوں کا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں۔ جب تک انتہا پسندی کے رجحان کو مذہب اور عقیدہ سے علیحدہ کرکے اس کے سیاسی ، سماجی اور معاشی عوامل کے ذریعے سمجھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی ۔۔۔۔۔۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔

برلن حملہ کے بعد ایک نارویجئن مبصر نے اپنے تبصرے میں اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے جمہوریت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ یعنی اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جمہوری اقدار اور رویوں کو براہ راست خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ جب ایسی سوچ خوف اور بے یقینی کی علامت بننے لگے تو یورپ کے دانشوروں اور سیاستدانوں کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی کم ہمتی اور بے صبری سے دہشتگردوں کےلئے منزل کو آسان بنا تے رہیں گے یا جمہوریت کو مستحکم کرکے، اقلیتوں کا تحفظ کرکے، انہیں سماج میں بہتر مقام دلا کر اور ان کی صلاحیتوں کو شبہ کا نشانہ بنانے کی بجائے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف استعمال کرکے، انتہا پسند گروہوں کے عزائم کو ناکام بنانا ہے جو مذہب کو خوف اور دہشت پیدا کرنے کےلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی لڑائی عیسائیوں یا غیر مسلموں سے نہیں ہے۔ وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مسلمانوں کا خون ارزاں ہوا ہے۔ دہشت گردوں نے بھی انہیں نشانہ بنایا ہے اور دہشت گردی کے خلاف بننے والے اتحاد کا عتاب بھی مسلمان آبادیوں پر ہی نازل ہو رہا ہے۔ اس فرق کو سمجھے بغیر اور صورتحال کا درست ادراک کئے بغیر مغرب میں بے یقینی اور خوف میں اضافہ ہی ہوگا۔ مسلمان معتوب ہوں گے لیکن معاشرے غیر محفوظ ہوں گے۔ دہشت گرد یہی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اہل مغرب کو طے کرنا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

برلن میں ہونے والے حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے لیکن جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ اس بات کے شواہد موجود نہیں ہیں کہ داعش\"\" کرسمس مارکیٹ پر حملہ میں براہ راست ملوث تھی۔ داعش عراق اور شام میں پیدا ہونے والا ایک دہشت گرد گروہ ہے جسے اب عراقی اور شامی افواج کا بیک وقت سامنا ہے۔ دونوں ممالک داعش کو ختم کرنے کے دعویدار ہیں لیکن ایک کو روس کی حمایت حاصل ہے اور دوسرے ملک کو امریکہ اور اس کے اتحادی فضائیہ کی مدد اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ دونوں ایک ہی مقصد کے لئے مختلف طریقے سے جنگ لڑ رہے ہیں اور ایک دوسرے پر انسان دشمنی کے الزامات بھی عائد کر رہے ہیں۔ اس کا مظاہرہ حلب کی جنگ میں کھل کر کیا گیا ہے۔ امریکہ کی اعانت میں قائم ہونے والے باغی گروہ 5 برس اس شہر کے مشرقی حصہ پر قابض رہے۔ تب وہاں ہونے والی خوں ریزی سے انسانیت کو خطرہ لاحق نہیں ہوا لیکن جب روس کی مدد سے شامی افواج نے ان باغیوں کو پسپا کر دیا تو انسانیت سوز مظالم کی داستانوں سے یورپ اور امریکہ کے سیاستدانوں ، مبصروں اور اینکرز کی آنکھیں اشکبار ہی نہیں خوں آشام ہو رہی ہیں۔

اسی تصویر کا ایک بدنما پہلو یہ ہے کہ انقرہ میں روسی سفیر کو ہلاک کرنے والے ترک قاتل نے مرنے سے پہلے یہ عربی نعرہ بلند کیا تھا :’’ہم محمدؐ کے ماننے والے ہیں اور جہاد ہمارا شعار ہے‘‘۔ اس شخص نے حلب میں روسی مداخلت کی وجہ سے ترکی میں روس کے سفیر کو ہلاک کیا تھا۔ اس نے جو نعرہ بلند کیا تھا وہ النصرہ فرنٹ کا نعرہ ہے۔ یہ گروہ عراق اور شام میں القاعدہ کی شاخ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اگر حلب میں شامی فوج نے امریکہ نواز بشار الاسد کے باغیوں کے خلاف جنگ کی تھی تو النصرہ فرنٹ کے حامی کو اس پر برگشتہ ہو کر روس کے سفیر کو قتل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ شامی حکومت کے جمہوریت نواز باغی بھی اپنی جنگ میں اسلامی دہشت گرد گروہوں کو استعمال کررہے ہیں اور امریکہ کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ امریکی اور یورپی مبصر اس پہلو پر غو کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ جب دہشت گرد گروہ ان علاقائی مقاصد کےلئے جنگ کرتے ہیں جو امریکی و یورپی مفادات کے قریب ہوتے ہیں تو انہیں نظر انداز کرنے اور کسی حد تک قبول کرنے کا رویہ کیوں اختیار کیا جاتا ہے۔ کیا ایسی صورت میں دہشت گردوں کی بندوقیں اور بم پھول برسانے لگتی ہیں یا ان کے ہتھکنڈے بدل جاتے ہیں۔ اس ایک مثال سے دہشت گردی کی پیچیدہ صورتحال اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی وجہ سے صورتحال پر مرتب ہونے والے اثرات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی صرف اسی وقت مہلک نہیں ہوتی جب دھماکہ یورپ میں ہو یا امریکہ میں لوگ مارے جائیں۔ یہ اس وقت بھی انسان دشمن ہے جب شام ، عراق یا پاکستان میں لوگوں کو بے دریغ ہلاک کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی کا کوئی عقیدہ ، کوئی وطن اور کوئی حد فاصل نہیں ہے۔ اس کے خلاف جنگ میں کامیابی کےلئے لوگوں کے درمیان اٹھائی جانے والی دیواریں گرانا ضروری ہے۔ دوسرے ملکوں میں جنگ کی آگ بھڑکانے والی بڑی طاقتوں کو جان لینا چاہئے کہ دوسرے ملکوں میں تنازعات کو فروغ دے کر وہ اپنا آنگن بھی محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ دنیا میں امن کے لئے ہر خطہ اور سب لوگوں کو امن فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments