جسم بس اسی کا ہے



جسم۔ کیا جسم۔ کس کا جسم!

جسم میرا ہے اور نہ تیرا۔ یہ اس تخلیق کار کا ہے، جس نے لفظ کن کے ذریعہ اس کو عدم سے وجود بخشا ہے، اس کا مالک وہی ہے جس نے اس کو حسن و جمال کی دلکشی و رعنائی بخشی ہے۔

یہ مٹی کا بدن نہ تیرا ہے نہ میرا، بلکہ اسی کمہار کا ہے جس نے چاک مشیت پر رکھ کر اسے زور سے گھمایا، نوک و پلک درست کر کے اسے خوب سنوارا سجایا، اور پھر اس مشت خاکی کو اشرفیت کا بیش بہا تحفہ عطا فرمایا۔

خاص طور سے اس نے عورت کی پیدائش میں گوناگوں اوصاف کے ساتھ ساتھ نزاکت کی بھی لاجواب ادا رکھی ہے، تو وہیں دوسری طرف مرد کو سخت جان بنایا ہے، اور پھر دونوں کے درمیان حسین رشتہ رکھا، ایک دوجے کے ملن کی خاطر خوبصورت مقدس بندھن رکھا۔

دراصل عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں، عورت زندگی کی آگ کی خازن ہوتی، وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے، اور اس آگ کی تپش سے انسانیت ارتقائی منزلیں طے کرتی ہے، عورت کو خلوت کی ضروت ہوتی ہے، اور مرد کو جلوت کی۔

مگر صد افسوس، اس دور کو جلوت کی ہوس نے لے ڈبویا ہے، حسن و جمال کی منظر کشائی نے رسوا کر ڈالا ہے، ہماری نگاہوں کو روشن تو ضرور کیا ہے مگر خانہ دل کے صاف شفاف آئینے کو مکدر بھی کر ڈالا ہے۔

یہ جسم کسی بشر کا نہیں ہے، یہ اسی خالق حقیقی کی ملکیت ہے، جس نے اسے وجود بخشا ہے تو ملکیت اسی کی چلے گی، قانون اسی کے لاگو ہوں گے، اور اصول تو اسی کے ہی نافذ ہوں گے، اور ہاں یہ بھی یاد رکھیے یہ اس کے قانون فطرت کے مخالف نہیں، بلکہ عین مطابق ہیں۔

آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments