پاکستانی جمہوریت میں قرآن اور کیمرے کا کردار


مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز شریف کے بیان ’’آئین میں سینیٹ الیکشن کے لئے خفیہ ووٹنگ کی اجازت ہے، خفیہ کیمروں کی نہیں‘‘ سے پتہ چلا کہ سینیٹ چیئرمین کے الیکشن کے لئے مبینہ خفیہ کیمرے نصب کیے گیے تھے تاکہ ارکان سینیٹ کو خوف رہے کہ ہم نے ووٹ ادھر ادھر نہیں کرنا۔

مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ یہ ہمارے ایوان بالا کے ممبران ہیں جو مبینہ طور پر پہلے ٹکٹ خریدنے کے لئے کروڑوں روپے پارٹی فنڈ کے طور پر رشوت دیتے ہیں، پھر سینیٹ الیکشن میں کامیابی کے لئے قومی اسمبلی کے ممبران کو مبینہ رشوت دیتے ہیں، ضرورت پڑے تو کچھ لے دے اور کچھ وعدے وعید کے بعد وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ دے ڈالتے ہیں اور پھر چیئرمین سینیٹ کے لئے ایک بار پھر سے قرآن پاک پر حلف اٹھانے کے باوجود ان پر خفیہ کیمروں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

بظاہر یہ کیمرے حکومت کی جانب سے نصب کیے گئے ہیں یعنی حکومت اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے انہیں اپنے حق میں استعمال کرتی ہے، تو کون کہہ سکتا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے لئے مقابلے کا یکساں میدان ہے، یہ تو الگ الگ میدان ہوئے، الگ الگ اصول، یعنی ’میں نہ مانوں‘ والی صورتحال۔

جمہوریت کا لفظ درحقیقت انگریزی لفظ ”democracy“ کا ترجمہ ہے، انگریزی میں یہ لفظ یونانی زبان سے منتقل ہو کر آیا ہے۔ یونانی زبان میں ”demo“ عوام کو، اور ”cracy“ حاکمیت کو کہتے ہیں۔ عربی میں اس کا ترجمہ دیمقراطیہ کیا گیا ہے۔ جمہوریت کی اصطلاحی تعریف (آزاد دائرۃ المعارف، ویکی پیڈیا) کے مطابق : ”حکومت کی ایک ایسی حالت جس میں لوگ یا لوگوں کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے“ سے کی گئی ہے۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس ”hearodotus“ نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ: ”جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے، جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں“ ۔

سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے :
”عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ، عوام پر“ ۔

ہمارے ہاں جمہوریت کی تعریف ابھی تک متنازع ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نہ کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔ مگر بدقسمتی سے ہماری جمہوریت میں عوام اور عوام کے لئے پالیسیاں دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔

جمہوریت کا سراغ سب سے پہلے ہندوستان میں ملتا ہے، سو سال قبل مسیح اور بدھا کی پیدائش سے قبل ہند میں جمہوری ریاستیں موجود تھیں اور ان کو جاناپداس ”janapadas“ کہا جاتا تھا۔ یونان میں بھی جمہوریت موجود رہی ہے، لیکن وہاں جمہوریت کا تصور سادہ بھی تھا اور محدود بھی۔ سادہ اس معنی میں کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں، وہ شہری ریاست کہلاتی تھیں، یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں، چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل، ایک شہر ایک مستقل حکومت ہوا کرتا تھا، دوسرا شہر دوسری حکومت اور تیسرا شہر تیسری حکومت۔

شہر بھی بڑے نہیں ہوتے تھے ، یونان کا سب سے بڑا شہر ایتھنز (Athens) تھا اور اس کی آبادی زیادہ سے زیادہ دس ہزار افراد پر مشتمل تھی، چھوٹی سی حکومت، چھوٹا سا ملک تھوڑی سی آبادی، لہٰذا وہاں جمہوریت کا تصور یہ تھا کہ بادشاہ خاص خاص اور بڑے فیصلوں میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے ساری آبادی کو اکٹھا کر لیتا تھا، اور یہ اسی جگہ ممکن ہے جہاں چھوٹا سا ملک اور مختصر سی آبادی ہو، چنانچہ جو بڑے بڑے ملک قائم ہوئے جیسے روم کی سلطنت تو وہاں یہ صورت ممکن نہیں تھی، لہٰذا وہاں جمہوریت کا تصور اس حد تک محدود ہو گیا کہ بادشاہ اپنے مشورے کے لیے کوئی کونسل یا مجلس شوریٰ بنا لیتا تھا، اس کا نتیجہ رفتہ رفتہ یہ نکلا جمہوریت کا حقیقی تصور ( عوام کو پالیسیوں میں حصہ دار بنایا جائے ) عملاً مفقود ہوتا گیا، اور اس کی جگہ مطلق العنان بادشاہت وغیرہ نے لے لی، اور چھوٹی چھوٹی بادشاہت کے قیام کے بعد جمہوریت کا تصور ختم ہو گیا۔

قیام پاکستان کے وقت قائداعظم نے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے جمہوری نظام ہی کو بہتر سمجھا۔ قانون کی حکمرانی، آزادی رائے، سماجی انصاف اور تمام شہریوں کے لیے یکساں مواقع ان کی میراث کے جوہر ہیں، ایک ایسی میراث جو وہ چاہتے تھے کہ تمام پاکستانی مستقبل میں بھی تھام کر رکھیں، جو کہ آج تک محض خواب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments