بھس بھرے سر کی قیمت


میں یہ نہیں کہتا کہ میرے مہربانوں نے، میرے دوستوں نے مجھے چار دیواری میں چن دیا ہے۔ میرے مہربانوں نے، میرے دوستوں نے مجھے چار دیواری میں چادر دے کر بٹھا دیا ہے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا ہے کہ موت میرا پیچھا کررہی ہے۔ میں کبھی بھی کرائے کے قاتل کے ہاتھوں قتل ہوسکتا ہوں۔ سُپاری دینے والے نے کھلے عام اعلان کیا ہے کہ تیرا سر قلم کرنے والے کو وہ پچاس لاکھ روپے دے گا۔

رام لیلا سن کر مجھے تعجب ہوا۔ میں نے دوستوں سے کہا۔ ’’میں دو دمڑی کا آدمی ہوں۔ بھلا مجھے قتل کرنے کے لئے کوئی ہوشمند پچاس لاکھ روپے قاتل کو کیوں دے گا؟‘‘’’بحث مت کر‘‘۔ دوستوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’’ہم سب نے اس آدمی کو تجھے قتل کرنے کے لئے سُپاری دینے کی پیشکش کرتے ہوئے سنا ہے۔ دیکھا ہے‘‘۔میں نے کہا۔ ’’وہ آدمی مجھے کھسکا ہوا لگتا ہے‘‘۔’’وہ کھسکا ہوا ہےیا کھسکا ہوا نہیں ہے، یہ اہم نہیں ہے‘‘۔ دوستوں نے کہا۔ ’’اہم یہ ہے کہ اس نے سُپاری دے دی ہے۔ ذرا سی غفلت کی وجہ سے تو کبھی بھی کرائے کے قاتل کے ہاتھوں قتل ہوسکتا ہے۔ تیرے جیسے بونگے دوست کا زندہ رہنا ہمارے لئے ضروری ہے‘‘۔

میں نے مہربانوں سے کہا۔ ’’مجھے ایسی جگہ بتلائو جہاں موت نہیں آتی؟‘‘’’سقراط کا ڈائیلاگ مارنے سے تم سقراط نہیں بن سکتے‘‘۔ دوستوں نے کہا۔ ’’تیرا سر قلم کرنے کے لئے پچاس لاکھ کی کھلم کھلا سُپاری دے دی گئی ہے۔ ہر لحاظ سے یہ محفوظ جگہ ہے۔ ہم نے دوچار ٹارزن اطراف میں ڈیوٹی پر لگا دئیے ہیں۔ وہ کرائے کے قاتل کو تم تک پہنچنے نہیں دیں گے‘‘۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے کب تک اس محفوظ جگہ رہنا ہے۔ مجھے کھڑکی سے باہر جھانکنے کی اجازت نہیں ہے۔ پندرہ دن سے میں نے دھرتی دیکھی ہے نہ آسماں دیکھا ہے۔ میں نہیں جانتا، میرے اطراف کیا ہو رہا ہے۔ چار دیواری کے اندر میں پریشان نہیں ہوں۔ میں حیران ہوں۔ میں اپنی اوقات سے واقف ہوں۔ میں جب دبنگ سیاستدان کے لئے انتخابات میں جھوٹے ووٹ ڈالا کرتا تھا، تب ایک جھوٹا ووٹ ڈالنے کے عوض مجھے دس روپے ملتے تھے۔ کسی سیاستدان کے جلسے میں گڑبڑ اور بھگدڑ مچانے کے عوض مجھے پچاس روپے ملتے تھے۔ اس سے بڑھ کر میری قطعی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی۔ اچانک میں پچاس لاکھ کا کیسے ہو گیا، یہ بات میرے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔

ہر لحاظ سے میرے دوست، میرے ہمدم، میرے احباب معتبر ہیں۔ وہ سب غلط نہیں ہوسکتے تھے۔ بادل نخواستہ مجھے ماننا پڑ رہا ہے کہ میرے سر کی بولی پچاس لاکھ لگ چکی ہے۔ میں نے سوچا پچاس لاکھ اچھی خاصی رقم ہے۔ ایرے غیرے کو جانے کے بجائے کیوں نہ یہ رقم اپنے کسی عزیز، کسی ساتھی کو ملے! میں نے اپنے پرانے ساتھی کبڑے کنگال کو فون کیا۔ کبڑا کنگال پیدائشی کبڑا نہیں تھا۔ ٹھیک ٹھاک تھا۔ پھر اچانک اسے معاشرے میں اصلاح لے آنے کا شوق چرایا۔ رشوت خوری کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اس نے کمر کس لی۔ اس کی کسی ہوئی کمر تب ڈھیلی پڑ گئی جب اس نے ہر محکمے میں چپراسی سے لے کر چیئرمین تک سب کو رشوت لیتے ہوئے دیکھا۔ اس نے ڈھیلی پڑی ہوئی کمر پھر سے کس کر باندھ لی۔ معاشرے سے بھتہ خوری کا خاتمہ کرنے کے لئے نکل پڑا۔ اس کی کس کر باندھی ہوئی کمر پھر سے ڈھیلی تب پڑ گئی جب بھتہ دینے والوں اور بھتہ لینے والوں نے مل کر اس کی پٹائی کی۔ بار بار ڈھیلی کمر پھر سے کس کر باندھتے ہوئے وہ کبڑا ہوگیا۔

میں نے کبڑے کو فون کیا۔ کبڑا بولا۔ ’’ہنچ بیک اسپیکنگ‘‘۔کبڑے کی بجائے وہ خود کو ہنچ بیک Hunch back کہلوانا پسند کرتا ہے۔ انگریزی کا مارا ہوا ہے۔ میں نے کہا۔ ’’تجھے کاروبار کرنے کے لئے کتنے پیسوں کی ضرورت ہے؟‘‘جھٹ سے بولا۔ ’’دس لاکھ روپے‘‘۔میں نے کہا۔ ’’میں نے تیرے لئے پچاس لاکھ روپے کا بندوبست کرلیا ہے۔ تو میرے پاس آ‘‘۔

فوراً سے بیشتر کبڑا دوڑتے ہوئے میرے پاس آیا۔ وہ جانتا تھا کہ دوستوں نے مجھے دنیا سے چھپا کر کہاں رکھا ہوا ہے۔ اس سے آگے وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ ٹارزنوں کا حفاظتی حصار توڑ کر کبڑا میرے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ ہانپ رہا تھا۔ پوچھا۔ ’’کہاں ہیں پچاس لاکھ روپے؟‘‘اپنا سر چھوتےہوئے میں نے کہا۔ ’’یہ ہیں تمہارے پچاس لاکھ روپے‘‘۔’’ْمجھے پاگل سمجھ رکھا ہے؟‘‘ کبڑے نے غصہ سے کہا۔ ’’میں نے تیرے سر کا ایکسرے، میرا مطلب ہے سی ٹی اسکین دیکھا ہے۔ تیرے سر میں چڑیا کا گھونسلہ ہے، بغیر انڈوں کے‘‘۔

’’ان باتوں کو چھوڑ۔ یہ لے چھری‘‘۔ کبڑے کو چھری دیتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’میرا سر کاٹ کر اجگر سائیں کے پاس لے جا۔ میرے سر کے عوض وہ تجھے پچاس لاکھ روپے دے گا‘‘۔لمحہ بھر سوچنے کے بعد کبڑے نے کہا۔ ’’میں تصدیق کرنا چاہتا ہوں‘‘۔

’’کس بات کی تصدیق؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’دو دمڑی کے سر کی قیمت اجگر سائیں نے پچاس لاکھ کیوں رکھی ہے؟‘‘ کبڑے نے کہا۔ ’’میں تصدیق کرنا چاہتا ہوں کہ اجگر سائیں کہیں پاگل تو نہیں ہوگیا ہے؟ کوئی ذی شعور شخص بھس بھرے ہوئے سر کی قیمت پچاس لاکھ لگا نہیں سکتا۔ تیرے سر کی قیمت زیادہ سے زیادہ پانچ روپے ہو سکتی ہے‘‘۔

تصدیق کرنے کے لئے کبڑا آج کل اجگر سائیں کے پاس گیا ہوا ہے۔

بشکریہ: روز نامہ جنگ

امر جلیل
Latest posts by امر جلیل (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments