معاشی ترقی کے لئے مذہبی انتہا پسندی ترک کرنا ہوگی


ہمارے وزیر اعظم بھی مزے کے آدمی ہیں۔ حالات کیسے ہی ہوں انہوں نے چند موضوعات اور تقریریں ازبر کی ہوئی ہیں۔ موقع بے موقع انہیں دہرا کر اہل وطن کو محظوظ ہونے کا موقع دیتے رہتے ہیں۔ ایک طرف کورونا کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لئے فوج طلب کی گئی ہے تو دوسری طرف عمران خان نے قوم کو خبر دی ہے کہ سیاحت سے ہونے والی آمدنی سے اس کے دلدر دور ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔

مری میں کوہسار یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے بتایا کہ پاکستان کو درست طریقے سے متعارف کروادیا گیا اور طبی سہولتیں وغیرہ فراہم ہوگئیں تو سیاحت سے اتنی آمدنی ہوگی کہ بیرونی قرضے اتارنے کےلئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات اور برآمدات سے ہونے والی آمدنی کو استعمال کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ پاکستان کے پاس سیاحت سے حاصل ہونے والی اتنی دولت ہوگی کہ غیر ملکی قرضے تو اسی سے اتر جائیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اب پاکستان بدلنے والا ہے اور یہ سارے علاقے ترقی کریں گے کیونکہ ہماری سیاحت ہر سال دوگنی ہو رہی ہے۔’ ابھی بیرون ملک سے لوگ نہیں آ رہے بلکہ اندر سے ہی سیاحت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ موبائل فون ہیں کیونکہ جو بھی گھومنے جاتا ہے، وہ موبائل سے تصویر لے لیتا ہے اور فیس بک پر لگاتا ہے۔ لوگ اسے دیکھ کر وہاں پہنچ جاتے ہیں‘۔

اس سادہ بیانی پر لوگ قربان نہ جائیں تو کیا کریں۔ مشکل اور گنجلک مسائل وزیر اعظم کے ایک بیان کی مار ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ باتیں بنانے اور خواب دیکھنے سے عوام کی مشکلات حل نہیں ہوتیں۔ اس کے لئے جس منصوبہ بندی اور حوصلہ مندی کی ضرورت ہے، وہ موجودہ حکومت کے کسی عمل سے ظاہر نہیں ہوتی۔ پہلے اڑھائی برس اس امید پر بچت کی معیشت متعارف کروائی گئی کہ اس طرح حالات بہتر ہوجائیں گے۔ ملک میں دیانت دار وزیر اعظم کی وجہ سے لوگ ٹیکس دینے کے لئے قطاریں بنانا شروع کردیں گے اور اتنے وسائل دستیاب ہوں گے کہ قرض داروں کی قسطیں دینے کے بعد بھی لوگوں کی تعلیم اور صحت کے لئے وسائل میسر ہوں گے۔

خوابوں کی دنیا جب حقیقی بنتی دکھائی نہ دی تو یکےبعد دیگرے خزانہ کے دو وزیروں کو علیحدہ کرکے ایک آزمودہ بینکر شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنایا گیا ہے۔ ان کا منصوبہ ہے کہ کسی بھی طرح ملک میں ترقیاتی فنڈز فراہم کئے جائیں تاکہ معیشت میں کچھ حرکت پیدا ہو اور کساد بازاری کی کیفیت ختم ہوسکے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت ملکی معاشی ’اصلاح‘ کے ایجنڈے پر عمل کرنے کی بجائے، معیشت کے ’انتخابی ایجنڈے‘ پر عمل کرنا چاہتی ہے یعنی کسی بھی طرح معیشت میں کوئی رونق لگائی جائے، کیسے بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار دینے کے مواقع فراہم ہوں اور قیمتوں کو ایک خاص حد میں رکھا جائے۔ اس مقصد کے لئے ہی نئے وزیر خزانہ کی سربراہی میں حکومت نے یہ امید بھی باندھی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کا جو معاہدہ کیا گیا ہے، اسے تبدیل کروایا جاسکے تاکہ حکومت یہ اعلان کرسکے کہ اس نے عوام کو کتنا بڑا ریلیف دیا ہے۔

آمدنی کے بغیر اخراجات کے منصوبے بنا کر کسی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ شوکت ترین کی سربراہی میں جو اشاریے حکومت کی طرف سے موصول ہورہے ہیں، ان سے یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اب معیشت کی گاڑی کھینچنے کے لئے پرانے ہتھکنڈے اختیار کئے جائیں گے تاکہ کسی بھی طرح آئیندہ انتخابات سے پہلے عوام یہ محسوس کرسکیں کہ حکومتی اصلاحات کی وجہ سے قیمتیں بھی کم ہورہی ہیں اور نرخوں میں اضافہ بھی کنٹرول کیا گیا ہے۔ کوئی یہ سوال نہیں اٹھائے گا کہ اس اصراف کی قیمت تو بالآخر ملک اور عوام کو ہی ادا کرنا پڑے گی۔ جب بجلی پیداواری لاگت سے کم قیمت پر فراہم ہوگی تو اس فر ق کو حکومت ہی مالی معاونت سے پورا کرے گی۔ اس طرح ملک کے قرض میں اضافہ ہوگا اور مستقبل میں معاشی اصلاحات کا کام اتنا ہی مشکل ہوجائے گا۔ انتخابی کامیابی کےنقطہ نظر سے حالات کو پرکھنے والی حکومت اس کے علاوہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتی۔

قباحت البتہ یہ ہے کہ معاشی چلن کا ڈھنگ بدلنے کے باوجود نئے وزیر خزانہ کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ وہ بائیس کروڑ لوگوں کے ملک کی ضروریات کو آمدنی و پیداوار میں اضافہ کے بغیر پورا کرسکیں۔ اسی لئے انہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقاتوں میں جس بنیادی نکتہ پر اصرار کیا ہے وہ ملکی پیداوری صلاحیت میں سات آٹھ فیصد سالانہ اضافہ کا مشورہ ہے۔ اس وقت قومی پیداوار کے اشاریے منفی سمت میں ہیں، انہیں تبدیل کرنے کے لئے کثیر سرمایہ کاری، صنعتوں کو فری ہینڈ دینے اور ٹیکس وصولی میں مزید نرمی دکھانے کی ضرورت ہوگی۔ ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں کمی کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کے سب سے بڑے منصوبے پاک چین معاشی راہداری یعنی سی پیک کے بارے میں بے یقینی پیدا کرکے بیرونی سرمایہ کا ایک یقینی راستہ بھی روکا ہؤا ہے۔ چینی کمپنیاں حکومت کی طرف سے طے شدہ امور کو قبول کرنے سے انکار پر اس وقت تک مزید سرمایہ کاری سے گریز کررہی ہیں جب تک انہیں یہ یقین نہ ہوجائے کہ پاکستان کی ہر حکومت دو طرفہ طور سے طے ہونے والے معاہدوں کا احترام کرے گی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ہونے والے تجربہ کے بعد سی پیک سرمایہ کاری کا ہر منصوبہ شک وشبہ کا شکار رہے گا بلکہ چین کے ساتھ پاکستان کےتعلقات میں بھی غیر ضروری پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ واضح ہونا چاہئے کہ پاکستان اس وقت جن معاشی اور سفارتی حالات کا سامنا کررہا ہے، ان میں وہ چین جیسے ملک کے ساتھ تعلقات میں دراڑ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

وزیر اعظم ایک طرف سیاحت کے ذریعے ملکی معاشی اصلاح کی خوش خبری دے رہے ہیں تو دوسری طرف نوجوانوں کے لئے قرضوں کے ایک منصوبہ کی تقریب میں انہوں نے ملک سے غربت کے خاتمہ کو اپنا بنیادی مقصد بھی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اپنے پچیس سال پورے کرنے والی ہے۔ ہماری حکومت اپنے دور میں اگر ملک سے غربت ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ پارٹی کی سلور جوبلی پر بہت بڑا تحفہ ہوگا۔ لیکن ان کی حکومت دیگر ٹھوکریں کھانے کے علاوہ مسلسل خیراتی منصوبوں کو فلاحی پروگرام قرار دے کر اسے حکومت کی کامیابی قرار دیتی ہے۔ ایسی محدود سوچ رکھنے والی قیادت کوئی وسیع المدت منصوبہ بنانے اور اس کے نتائج کا انتظار کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتی۔ عمران خان چونکہ کرکٹ کی زبان میں بات کرتے ہیں تو انہیں جاننا چاہئے کہ معاشی اصلاح اور ایک سو ارب ڈالر ڈالر سے زیادہ اورمسلسل بڑھتا ہؤا غیر ملکی قرض کی ادائیگی کسی ’ٹی 20‘ میچ کی طرز پر ممکن نہیں ہے۔ اس کے لئے ٹیسٹ میچ کھیلنے کا حوصلہ اور کسی باؤلر کے عظیم صبر کی ضرورت ہوگی جو ایک دو بالوں پر لگنے والی باؤنڈریز سے گھبرا کر مسلسل لوز باؤلنگ نہ شروع کردے۔ عمران خان فاسٹ باؤلر ضرور رہے ہیں لیکن انہیں جاننا چاہئے کہ ملکی معاملات فاسٹ باؤلنگ کی جارحیت کے متحمل نہیں ہوتے۔

حال ہی میں تحریک لبیک کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے وزیر اعظم اور تحریک انصاف کی حکومت نے جو ٹھوکریں کھائی ہیں اور دیکھے اور ان دیکھے دباؤ کے سامنے جیسے گھٹنے ٹیکنے کو ترجیح دی ہے، اس سے موجودہ حکومت کا اعتبار مجروح ہؤا ہے۔ یہ بات تو پہلے دن سے واضح تھی کہ عمران خان کو ایک خاص منصوبہ کے تحت حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ عمران خان اپنی تقریروں میں بلند بانگ دعوے کرنے کے عادی ہیں، شاید بادشاہ گر بھی اس بھرے میں آگئے اور ان کےلئے اقتدار کا راستہ ہموار کیا ہو۔ آخر ملک کے پڑھے لکھے باشعور طبقے کی اکثریت نے بھی تو عمران خان کی باتوں کے دھوکے میں ہی انہیں اقتدار تک لانے کے لئے سیاسی امداد فراہم کی تھی۔ عمران خان کو جان لینا چاہئے کہ اب ان کے شدید حامی بھی ان کے بے بنیاد دعوؤں پر پریشان ہوتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وزیر اعظم ایسی باتوں سے ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے فرار کا راستہ تلاش کررہے ہیں۔

پاکستان کا مقابلہ سوٹزرلینڈ سے کرنا اور بتانا کہ اس چھوٹے سے ملک نے صرف سیاحت کو سائنس بنا کر خوشحالی حاصل کرلی توہم کیوں ایسا نہیں کرسکتے۔ یہ دعویٰ کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ اس ملک کی آبادی 85 لاکھ ہے اور پاکستان 22 کروڑ آبادی کا ملک ہے جو درجنوں غیر ضروری تنازعات کا شکار ہے۔ جہاں مذہب کو نعرہ بنا کر اصلاح کے ہر امکان کوختم کردیا جاتا ہے۔ کوہسار یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب میں بھی عمران خان نے یہی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ آج اگر غیرمسلم ملک ہم سے آگے نکل گئے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ کام کیے اور ان اصولوں کو اپنایا جو مدینہ کی ریاست کے اصول تھے۔ جو بھی قوم ان اصولوں پر چلے گی وہ ترقی کرے گی‘۔ حالانکہ یہ نعرہ اب پٹ چکا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا نے اسلام کے سنہرے اصولوں کو اپنا کر خوشحالی حاصل کی ہے۔ مسلمانوں کا صدیوں پر پھیلا زوال اور ہزیمت بجائے خود نشان عبرت ہے جس سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔

یہ نعرہ لوگوں کی مذہب سے جذباتی وابستگی کی وجہ سے لگایا جاتا ہے ورنہ عمران خان نہ تاریخ کے ماہر ہیں اور نہ معاشی ترقی کے رموز سے آگاہ ہیں۔ اس قسم کی نعرہ بازی نے پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کی ایسی دلدل کی طرف دھکیل دیا ہے جس سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود ملک کا وزیر اعظم مقبولیت پسندی کا یہ سستا چورن بیچنے سے باز نہیں آتا۔ ایسے میں سیاحت کے فروغ اور معاشی ترقی کا خواب دیوانے کی بڑ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments