مسلے ہوئے خواب


 

\"saeed-afzal\"

بدل گیا ۔ سب کچھ بدل گیا لیکن ہم مست ہیں۔ یوں جیسے کچھ بھی نہیں بدلا۔ دل بدل گئے سوچنے سمجھنے کے انداز بدل گئے۔ گفت گو، زبان و بیان بدل گئے۔ سفر آگے کو ہے یا پیچھے کو؟ اس پر سوچتے ہوئے، کئی بار سوچنا پڑتا ہے۔ کیا یہ وہی جہاں ہے؟ وہی جہاں، جہاں ہم نے آنکھ کھولی تھی؟ اور پھر؟ پھر یہ کہ اس دھرتی کو فردوس بریں کرنے کے خواب دیکھے تھے۔

ہم تو آنے والی نسلوں کو خواب گزشتہ سے دل کش جہاں دے کر جانے کی بات کرتے تھے! لیکن اب جب غور و فکر کرنے بیٹھتے ہیں، تو یہ وہ تعبیر نہیں دکھائی دیتی، جس کے ہم نے خواب دیکھے تھے۔ یہ کب دیکھا تھا کہ گیتی ماں کو چھوڑ جائیں گے؟ جانے کی تمنا ہم نے کب کی تھی؟ ہاں یہ درست کہ تشدد انسانیت پر کب نہ ہوا۔ وحشت کب نہ تھی ۔ سنا ہے، انسانی سروں کے مینار بھی بنائے گئے تھے۔ بربریت کا ایک سے بڑھ کر ایک روپ سامنے رکھا جائے، رکھ دیا جائے۔ لیکن جو آج دیکھتا ہوں، جو بِیت رہا ہے، شاید وہ ان سب سے بڑھ کر ہے۔ آپ صبح اٹھتے ہیں بچوں کو سکول چھوڑنے جاتے ہیں۔ وہ درس گاہیں جن کی چار دیواری تک نہ تھی۔ اب ان کی دیواریں تو ہیں، پر ان دیواروں کی کئی فٹ کی بلندی، بلندی پہ خاردار تاریں۔ الہی ماجرا کیا ہے!

اسکول کے اندر اسلحہ بردار کھڑے ہیں۔ چھتیں ہیں، مگر چھتوں پر مورچے بن گئے ہیں۔ مورچوں کا یہ بوجھ دل پر محسوس ہوتا ہے۔ یہ داخلی دروازہ ہے، یہاں بیرئیر ہیں۔ مسلح محافظ ایستادہ ہیں۔ اسکول بند ہیں۔ خوف کی سردیاں ریڑھ کی ہڈی تک اتر آئی ہیں۔ بچوں کو چھٹیاں ہیں، مگر کب تک؟ اسکول واپسی پر پہلے سے بھی زیادہ خوف کی فضا ان کا انتظار کررہی ہے ۔ ٹھیک ہے ہم نے پلازوں پر پلازے کھڑے کر دیئے ہیں ۔ ہم نے سڑکیں پہلے سے زیادہ وسیع کر دی ہیں۔ دِلوں کو تنگ کاہے کو کیا؟ وہ دیکھیے، بڑے بڑے گھر ہیں۔ مکیں سہمے ہوے۔ لرزے ہوے۔ ہم نے آنے والوں پر زندگی کے نئے خوف مسلط کر دیئے ہیں ۔ زندگی کے معنی بدل دیئے ہیں ۔ اسلحہ وہاں نہیں پہنچنا چاہیے تھا، جہاں پھول، کتاب، خواب کی بات کی جاتی ہو۔ بدل گیا۔۔۔ سب کچھ بدل گیا ہے۔ لیکن ہم یوں ہی مست ہیں۔۔۔ جیسے کچھ بھی نہیں بدلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments