فاروق و فیاض کی بیگمات اور حریم شاہ کی دھمکی


حریم شاہ نے دھمکی دی ہے کہ فیاض چوہان اور فاروق ستار جھوٹ نہ بولیں ورنہ ان کے کرتوت ان کی بیگمات کو بتا دوں گی۔ باجی حریم آپ کو کیا لگتا ہے کہ ان کی بیگمات کچھ نہ جانتی ہوں گی۔ ارے بہن جی! بیویوں کے پاس اپنے اپنے شوہروں کے بارے میں وہ وہ خفیہ و حساس معلومات ہوتی ہے جو کہ شاید خود شوہروں کے پاس بھی نہ ہو۔ آپ کس خوش فہمی میں ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ مرد چاہے جتنی بھی فن کاریاں دکھائے اپنی بیوی سے کچھ چھپا نہیں سکتا، جلد یا بدیر اس نمانی کو پتہ چل ہی جاتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ زیادہ تر بیویاں کسی نہ کسی مصلحت اور مجبوری کی وجہ سے چشم پوشی کرتی ہیں اور خاموشی اختیار کرتی ہیں۔ مرد سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی فن کاری ہے۔ زمانے گزر گئے اس چلن میں فرق نہیں آیا۔ بظاہر شریف و معزز نظر آنے والے خلوت میں کیا کیا کارنامے انجام دیا کرتے ہیں، کوئی سوچ نہیں سکتا۔ یہ مرد کی فطرت ہے جس پر وہ بہت نازاں رہتا ہے اور اپنے کارناموں پر مغرور ہوا پھرتا ہے۔ مردانہ قبیلے میں ایسے دوغلے مردوں کو رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

لوگ ان کو رول ماڈل سمجھتے ہیں اور جو یہ بےہودگیاں کرنے کی ہمت نہیں رکھتے وہ حسرت سے آہیں بھرتے نظر آتے ہیں۔ شاطر و ماہر کھلاڑی نئے نویلوں کو بہترین شاٹس کھیلنے اور صاف بچ نکلنے کی ٹپس سے نوازتے ہیں۔ ان کی نظر میں عورت ایک ناقص العقل مخلوق ہوتی ہے اور اس کے ساتھ وہی کرنا چاہیے جو وہ کرتے ہیں۔ گھر والی کو بے وقوف بناتے ہیں اور باہر والی کے ساتھ مزے اڑاتے ہیں۔ اب تو زیادہ جاسوسی کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، بس کسی معزز آدمی کا موبائل فون اٹھا لیں۔ بڑے بڑے معزز افراد واٹس ایپ کے حمام میں ننگے نظر آئیں گے۔ یقین نہیں آتا تو واٹس ایپ پر کسی بھی مردانہ گروپ پر ایک نظر ڈال لیں۔ چودہ نہیں اٹھائیس طبق روشن ہو جائیں گے۔ ساری شرافت اور تہذیب ان کے خیالات کے سیلاب میں بہہ جائے گی۔

مرد چاہے جس قبیل کا ہو دوسری عورت کی ٹھرک اس کی مٹی میں گندھی ہوئی ہے اور دوسری عورت کے ساتھ اپنے مرد کو نا بانٹنا عورت کی۔ جس کے نتیجے میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ان دونوں فریقوں کے درمیان ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گی۔ دونوں ایک دوسرے کو مخاطب کر کے کہتے ہیں ”وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں!“ مرد اپنے رقیب کو کسی صورت برداشت نہیں کرتا لیکن چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اپنی سوکن اپنے ہاتھوں سے سجا کر اس کی خدمت میں پیش کرے۔

کس قدر احمقانہ آرزو ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے جس بیماری کا علاج نہیں اس کے ساتھ جینا سیکھیے۔ عورتیں بھی ایسا ہی کرتی ہیں، جینا سیکھ لیتی ہیں اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں، گھر اور خاندان کو وجود برقرار رکھنے کے لیے بہت کچھ برداشت کرتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ خاوند حضرات اپنی بیویوں کے شکرگزار ہوں کہ وہ معاشرے اور خاندان کے سامنے ان کے راز افشا نہ کر کے ان کی باعزت شبیہ کو داغدار نہیں کرتی ہیں، لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں، دونوں ہی میں نہ مانوں کے فارمولے پر کاربند رہتے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ کائنات میں مرد و زن کے علاوہ اور کوئی مخلوق بھی تو نہیں کہ جو یہ ایک دوسرے کا پیچھا چھوڑ کر کسی اور کا پیچھا لیں۔ دونوں لاکھ ایک دوسرے سے پیچھا چھڑائیں، گھوم پھر کر پھر ایک دوسرے کے سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ ایک مشغلہ فطرت ہے اس کا ختم ہونا مشکل ہے۔ یہ لکا چھپی کا کھیل ایسے ہی چلے گا۔ تو بھیا! ہمت ہے تو پاس کرو ورنہ برداشت کرو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments