احمد ندیم قاسمی کا افسانہ لارنس آف تھیلیبیا


\"\" اس افسانے کا نام لارنس آف عریبیاکے نام پر لارنس آف تھیلیبیا رکھا گیا ہے۔ پڑھنے والے پر واضح کرنا ضروری ہے کہ لارنس آف عریبیا کس بلا کا نام ہے۔ لارنس آف عریبیا کا اصل نام تھامس ایڈورڈ لارنس تھا،جو کہ ٹی ای لارنس کے نام سے جانا جاتا تھا۔ انگریز فوج کے اس افسر کو جنگِ عظیم اول کے دوران سلطنتِ عثمانیہ کا شیرازہ منتشر کرنے کے باعث بہت شہرت ملی۔ اس نے عربوں کو ترکی کے خلاف بھڑکایا جس کی بنا پر انھوں نے ترکی سے بغاوت کی تھی۔ اسلامی خلافت کے خاتمے اور عربوں کو ترکی کے خلاف متحد کرنے کے باعث اسے \’\’ لارنس آف عریبیا ( Lawrence of Arabia) بھی کہا گیا۔ اسی لارنس آف عریبیا کی طرز پر احمد ندیم قاسمی نے اپنے افسانے کا نام لارنس آف تھیلیبیا رکھا ہے۔ تھل پاکستان کا ایک صحرا ہے جس کے ایک جاگیردار کے بیٹے کے پاس ایک باز ہے اس نے اس باز کا نام لارنس آف عربیہ رکھا ہوا ہے۔ یہ کہابی تھل کے ایک جاگیردارانہ نظام کے پس منظر میں لکھی گئی ہےافسانہ نگار نے عریبیا اور تھل کی نسبت سے اس افسانے کا نام \’\’ لارنس آف تھیلیبیا\’\’ رکھا ہے۔

\’\’ لارنس آف تھیلیبیا \’\’ میں ہمارے معاشرے اور سماج میں غریب طبقے کے استحصال اور جاگیردارانہ نظام کے جبر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کہ کس طرح جاگیر دار اور وڈیرے اپنی رعایا پر ظلم و ستم کرتے ہیں اور کس طرح ان کی عزتِ نفس کو مجروح کرتے ہیں۔ اس افسانے کے ایک کردار بڑے ملک صاحب کے بیٹے کا نام بھی خدا بخش ہے اور اس کے ایک نوکر کا نام بھی خدا بخش ہے لیکن اس کا بیٹا تو خدا بخش ہی کے نام سے جانا اور پکارا جاتا ہے جبکہ نوکر خدا بخش سے بشکو بن گیا ہے اور سب اسے بشکو بشکو کہتے ہیں۔ اسی طرح یارو، سکین اور رنگی جیسے ناموں کے ذریعے قاسمی صاحب نے بتایا ہے کہ کیسے جاگیردار اپنی رعایا کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان بیچاروں کو اپنے اصل نام سے پکارا جانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔

جاگیردار اور وڈیرے یہ برداشت نہیں کرتے کہ ان کی رعایا ان کے معاملات میں مداخلت کرے اور اگر کوئی انھیں کسی بات پر ٹوکنے کی کوشش کرتا ہے یا کوئی مشورہ دینے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو خوب مارا پیٹا جاتا ہے اور نہایت غلیظ گالیوں سے نوازا جاتا ہے۔ اس کی مثال مسکین نام کے آدمی کی ہے جس کو مسکین کی بجائے سکین کہ کر پکارا جاتا ہے۔ ایک دن بڑے ملک صاحب کی تہبند ٹھیک سے نہیں بندھی ہوئی تھی مسکین نے اشارے سے بڑے ملک صاحب کو تہبند درست کرنے کا کہا تو اس کے بعد جو ہوا اس کا اندازہ افسانے کے اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے

\’\’ دھم دھم کی آواز سے ہم چونکے۔ دیکھا تو دو آدمیوں نے ایک آدمی کو پکڑ کے بڑے ملک صاحب کے سامنے جھکا رکھا تھا اور ملک صاحب اس کی پیٹھ پر مکوں کا مینہ برسا رہے تھے اور ساتھ ہی اسے گالیاں بھی دیے جاتے تھے جو صرف بڑے ملک صاحب ہی کسی کو دے سکتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ ہانپ ہانپ کر کہتے جاتے تھے \’\’ بھری مجلس میں کہتا ہے،ملک جی تہبند سنبھالوں، ننگے ہو رہے ہو۔ اس حرام زادے سے کوئی پوچھے کہ تمھیں کیا تکلیف تھی۔ میں ہی ننگا ہو رہا تھا تمہاری ماں تو ننگی نہیں ہو رہی تھی۔ \’\’

اس افسانے میں باز ( لارنس آف تھیلیبیا) کے ذریعے لالیوں کا شکار کر نا ایک علامت ہے ۔ جس سے مراد جاگیرداروں،اور وڈیروں کا رعایا اورغربا کا استحصال کرنا اور باز کی طرح ان معصوموں کو نوچنا ہے۔

اس افسانے میں یہ بتایا گیا ہے جاگیر دار اپنی ہوس اور لاچ کے نشے میں کسی کو بھی معاف نہیں کرتے چاہے کوئی نسل درنسل ہی ان کا مزارعہ اور خدمت گزار ہی کیوں نہ ہوں ۔ اس کی مثال ااس افسانے میں بابا یارو ہے جو ملک صاحب کا بہت پرانا مزارعہ ہے اور اس کی بیٹی خدا بخش کی بہن کی بہت اچھی سہیلی بھی ہے۔ بظاہر یہ لوگ بابا یارو اور اس کی بیٹی کے بڑے خیر خواہ ہیں لیکن یہ خیر خواہی صرف دکھاوے کی ہے حقیقت میں بڑے ملک صاحب اور ان کا بٹا ( خدا بخش) درندہ صفت اور بہت بڑے منافق ہیں۔ جب خدا بخش اپنے دوست کو ساتھ لے کر شکار کے لیے نکلتا ہے تو واپسی پر شام کے وقت وہ اپنے دوست کو لے کر اپنے بہت پرانے مزارعے بابا یارو کے پاس جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ بابا یارو کی بیٹی رنگی اس کی بہن سے ملنے گئی ہوئی ہے اور ابھی تک واپس اپنے گھر نہیں پہنچی جس کی وجہ سے بابا یارو اور اس کی بیوی بہت پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن خدا بخش ان کو تسلی دیتا ہے کہ تم لوگ گھبراؤ نہیں۔ \’\’ سب جانتے ہیں رنگی بابا یارو کی بیٹی ہے اور بابا یارو کس کا آدمی ہے۔ تم فکر نہ کرو۔ \’\’

گھر واپس آتے ہوئے خدا بخش کی ملاقات بابا یارو کی بیٹی رنگی سے ہوتی جسے خدا بخش یہ جھوٹ بول کر واپس اپنے گھر لے آتا ہے کہ بابا یارو نے ہمیں کہا تھا کہ اگر رنگی راستے میں ہمیں مل جائے تو اسے اکیلے نہ آنےدینا بلکہ واپس اپنے گھر لیتے جانا۔ چلو واپس چلو میں اپنی بہن سے پوچھتا ہو ں کہ اس نے تم کو اس وقت اندھرے میں واپس کیوں آنے دیا۔ تم غریب ہو تو کیا ہوا لیکن انسان تو ہو۔ یہاں قاسمی صاحب ہمارے دیہات میں جاگیرداروں کی منافقت اور ہوس پرستی کا پردہ چاک کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ کس طرح وہ غریب رعایا کی عز ت کو تار تار کرتے ہیں ۔

\’\’ چل واپس۔ ۔ ۔ \’\’ خدا بخش نے بڑی اپنائیت سےحکم دیا۔ \’\’ جو ہمارے دشمن ہیں وہ ہمارے مزارعوں کے بھی دشمن ہیں۔ سورج ڈوب رہا ہے۔ چاند کی رات بھی نہیں ہے۔ اتنا لمبا اور ویران راستہ ہے اور چل کھڑی ہوئی ہو ہے اس وقت ،چل واپس۔ میں جا کر اپنی بہن کی بھی خبر لیتا ہوں کہ ایسا سلوک کیا جاتا ہے اپنی سہیلی سے۔ غریب سہی پر کیا انسان نہیں ہے۔ رنگی چل رنگی۔ \’\’

رنگی ایک سادہ لوح لڑکی ہے جو اپنے ملک صاحب کی مکاری اور فریب سے غافل ہوتی ہے۔ پس وہ خدا بخش کے ساتھ واپس ملک صاحب کی کوٹھی پر آ جاتی ہے۔ اور رات کو خدا بخش رنگی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالتا۔ صبح جب اس کا نوکر بشکو خدابخش کو آ کر یہ بتاتا ہے کہ اس کے بازکو کسی نے مار دیا ہے تو وہ فوراَ کہتا ہے کہ رنگی کو بلا کر لاؤ۔ جس پر اس کا دوست کہتا ہے کہ رنگی کو بلانے کا باز کے مرنے سے کیا تعلق ہے۔ خدا بخش کہتا ہے تعلق ہے وہ رات کو بار بار کہتی تھی کہ وہ مجھے مار ڈالے گی۔ میں نے کہاں لالیاں بازوں کو نہیں مار سکتیں۔

\’\’ کسی نے آپ کے لارنس کی گردن مروڑ کر پھینک دی ہے۔ لارنس مرا پڑا ہے۔ \’\’ خدا بخش کو جیسے سکتہ ہو گیا۔ ایک خاصے طویل وقفے کے بعد وہ بولا۔ \’\’ رنگی کو یہاں لے آؤ۔ \’\’ واپس بھاگا تو میں نے خدا بخش سے پوچھا۔ \’\’ رنگی کو بلانے کا مطلب کیا ہے؟\’\’ ہے ایک مطلب۔ خدا بخش بولا۔ حادثہ شدید تھا اسی لیے میں خاموش رہا۔ اور خدا بخش اپنی لہو لہان آنکھیں مجھ پر گاڑ کر بولا۔ دیکھا میں نہ کہتا تھا؟ میرے باز کو اسی کمینی نے مارا ہے۔ رات وہ بار بار مجھےکہتی تھی کہ وہ مجھے مار ڈالے گی۔ مین نے کہا۔ لالیاں بازوں کو نہیں مار سکتیں نادان۔ ۔ ۔ ۔ اسی نے مارا ہے میرے لارنس کو۔ ۔ مین جانتا ہوں یہ قتل اسی بد ذات،کنگلی قلاش لڑکی نے کیا ہے۔ میں اس کی کھال ادھیڑ دوں گا۔ ۔ میں اس کی۔ ۔ \’\’

پروفیسر فتح محمد ملک لکھتے ہیں:

\’\’اس اختتامی پیراگراف میں \’\’ لالیاں بازوں کو نہیں مار سکتیں نادان!\’\’ شکار کے منظر میں باز کے لالی پر جھپٹنے،لالی کی بوٹیاں نوچنے اور اس کی ہڈی پر سے کچا تازہ اور وٹا من سے بھرپور گوشت اتارنے کی سی جزئیات کو نئی اور تلخ علامتی معنویت سے لبریز کر دیا ہے۔ پھر شکار کاجو منظر خدا بخش کے لیے لذت سے بھرپور تماشا ہے وہی منظر واحد متکلم میں کراہت کا ردِ عمل پیدا کرتا ہے\’\’

اس افسانے میں ایک کردار خدا بخش کے شہر سے آئے ہوئے دوست کا ہے جو اس گاؤں میں غریبوں کے استحصال اور جاگیر داروں کی طرف سے ہونے والے جبرو استبداد کو پسند نہیں کرتا جس کا اظہار بھی وہ گاہے بگاہے اپنے دوست خدا بخش سے کرتا ہے۔ لیکن وہ کھلے عام اس جاگیردارانہ رویے کے خلاف بغاوت نہیں کر پاتا۔ یہاں قاسمی صاحب ہماری توجہ ایسے طبقے کی طرف دلاتے ہیں جو جاگیرداروں کے اپنی رعایا اور غریب غربا پر ظم و ستم کو ناجائز تو سمجھتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ ان کی آنکھیں سب کچھ دیکھتی رہتی ہیں،کان سب کچھ سنتے رہتے ہیں لیکن وہ اس ظالم طبقے (جاگیر داروں) کے خلاف کھل کر بغاوت نہیں کرتے۔ لیکن خدا بخش کے شہر سے آئے پڑھے لکھے دوست سے زیادہ طاقت ور بابا یارو کی بیٹی رنگی ہے جس نے لارنس آف تھیلیبیا کی گردن مروڑ کر اپنی بغاوت کا اظہار تو کیا۔ مطلب جتنا وہ کر سکتی تھی اتنا اس نے کیا۔ یہ افسانہ پورے جاگیردارانہ نظام کی درندگی پر ایک طنز اور جامع و بلیغ تبصرہ ہے۔ اسی قسم کی بغاوت کا مظاہرہ افسانہ \’\’ بین \’\’ کی رانو کرتی ہے۔ احمد ندیم قاسمی کے زیادہ تر افسانوں میں دیہاتی زندگی کے مسائل و معاملات کا رنگ غالب ہے اور یہ افسانہ بھی اس کی عمدہ مثال ہے۔

احمد ندیم قاسمی کے جن دیگر افسانوں میں جاگیردارانہ نظام یا دیہی زندگی کا رنگ غالب ہے ان میں \’\’ خربوزے\’\’ ، \’\’ چور،\’\’ گنڈاسا\’\’ ، \’\’وحشی \’\’، جوتا\’\’ ، \’\’ الحمد للہ\’\’ ماسی گل بانو \’\’ ، \’\’ کنجری\’\’ وغیرہ اہم ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments