افغانستان میں طالبان کا اقتدار


افغانستان کی سرزمین بھی کافی عجیب ہے، زیادہ دیر تک کسی کو اپنے اوپر حکومت کرنے نہیں دیتی، جمہوری حکومت ہو یا قبائلیوں کی حکمرانی، فوجی حکومت ہو یا طالبان کا اقتدار وقت کے ساتھ ساتھ یہ کروٹ بدلتی رہتی ہے۔

طالبان نے بھی افغانستان پر کئی عرصہ حکمرانی کی لیکن آج سے بیس سال قبل امریکہ کے ہاتھوں طالبان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، اور اب بیس سال بعد ایک بار پھر طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت کا آغاز کب ہوا اور کب اس کا اختتام ہوا۔ یہ سب روداد میرے اس بلاگ میں پیش خدمت ہے۔

یہ سن 1994 کی بات ہے جب ملا عمر نے قندھار میں اپنی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی اس وقت ملا عمر کے ساتھ صرف پچاس طالب علم تھے جو شریعت کی بالادستی اور اسلامی نظام نافذ کرنے کے لئے تحریک کے ساتھ جڑ گئے۔ صرف ایک سال کے عرصے میں ملا عمر کی یہ تنظیم جسے طالبان کا نام دیا گیا تھا وہ افغانستان کے 12 صوبوں تک پھیل گئی اور 2005 میں ان کی تعداد 25000 تک پہنچ چکی تھی۔ تین سال بعد یعنی 1998 میں طالبان مزید مضبوط ہو گئے تھے اور تقریباً 90 فی صد علاقے پر یہ قابض ہو چکے تھے، اسی سال اقوام متحدہ نے افغانستان پر وسیع پابندیاں لگا دی تھی۔ سن 2001 تک پورا افغانستان طالبان کے کنٹرول میں آ چکا تھا، طالبان نے اپنے سخت قوانین نافذ کر رکھے تھے۔

2001 میں امریکہ نے اتحادی فوجیوں کے ہمراہ افغانستان پر حملہ کیا طالبان کی حکومت کو کسی حد تک ختم کر دیا، طالبان نے امریکہ سے حملے روکنے کا کہا کہ لیکن اس وقت کے صدر بش نے انکار کر دیا اور طالبان کے خلاف کارروائیاں تیز کردی گئی۔ واضح رہے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد امریکہ نے افغان طالبان سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا جو افغانستان کے طالبان نے ماننے سے انکار کیا جس کے رد عمل میں صدر جارج ڈبلیو بش نے افغانستان پر باقاعدہ حملے کرنے اور انتقام لینے کا اعلان کیا تھا۔

2002 میں ملا عمر نے باغی جنگجووں کے متعدد گروپس قائم کیے جس میں زیادہ تر خود کش حملہ آور تھے، ان دستوں کو جدید گوریلا وار کی تربیت بھی دی گئی تھی اور ان کے پاس اسلحہ بھی کافی جدید قسم کا تھا۔

2003 تک یہ تحریک مضبوط ہوئی اور جنگجووں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا، طالبان کی کارروائیاں بھی بڑھنے لگی اور امریکہ و اس کے اتحادی افواج کو کافی نقصان اٹھانا پڑا، طالبان کی کارروائیوں میں خودکش دھماکے، فوجی قافلوں پر حملے اور اغواء وغیرہ کے واقعات شامل تھے۔

2004 میں افغانستان میں امریکہ کی سرپرستی میں انتخابات کرائے گئے جس کے نتیجے میں حامد کرزئی کو افغانستان کا صدر منتخب کیا گیا۔ واضح رہے کہ ان انتخابات میں طالبان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی جس کے بعد طالبان نے حامد کرزئی کی حکومت کو ماننے سے انکار کیا اور اپنی کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا۔

سن 2006 میں افغانستان میں 141 خودکش دھماکے ہوئے جس میں تقریباً 1166 افراد مارے گئے۔ اسی عرصے میں طالبان کی کارروائیاں مزید تیز تر ہو گئی اور 2008 تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا، 2008 میں امریکہ نے مزید چار ہزار فوجی افغانستان بھیجے تاکہ طالبان کا خاتمہ کر سکیں۔

2009 میں باراک اوباما نے افغانستان میں مزید فوجی جوان بھیجنے کا اعلان کیا، اور 47000 مزید فوجی جوان افغانستان بھیجے گئے جس کے بعد افغانستان میں بھیجے گئے امریکہ کے فوج کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔

2011 میں سابقہ افغان صدر برہان الدین ربانی جو اس وقت پیس کونسل کے سربراہ تھے کو قتل کیا گیا جس کے بعد افغانستان میں حالات مزید ابتر ہونے لگے، اس حملے کے بعد افغانستان کے دیگر سیاسی و حکومتی مشران پر حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔

2012 میں طالبان نے دوہا قطر میں اپنا ایک دفتر کھول لیا جنہوں نے باقاعدہ طور پر وہاں سیاسی مذاکرات اور افہام و تفہیم کا سلسلہ شروع کر دیا، اسی سال طالبان نے پانچ طالبان جنگجو، جو گوانتانا موبے جیل میں قید تھے کی رہائی کے بدلے امریکہ کے فوجی افسر کو رہا کیا، یہ طالبان اور امریکہ کے درمیان پہلا سیاسی تبادلہ تھا۔ لیکن اس کے بعد امریکی افواج اور طالبان میں امن مذاکرات کا سلسلہ ایک بار پر رک گیا جس کے بعد افغانستان میں جھڑپوں کا پھر سے آغاز ہوا۔

سن 2013 میں ملا عبدالقیوم ذاکر جو طالبان کے تیرہ سال کے لئے امیر مقرر ہوئے تھے، وہ اس امید کے ساتھ پیچھے ہٹ گئے کہ امریکی افواج اور طالبان میں امن مذاکرات دوبارہ شروع ہو سکے۔

2015 کا سال جہاں طالبان کے لئے ایک بڑی کامیابی کا سال ثابت ہوا وہی دوسری طرف طالبان کے امیر ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق ہوئی جس کے بعد ملا منصور کو طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا۔ اسی سال طالبان نے قندوز کو قبضہ کر لیا، یہ پہلا صوبہ تھا جو طالبان نے 2001 کی شکست کے بعد قبضہ کیا تھا۔

2015 میں ہی روس نے پہلی مرتبہ افغان طالبان سے رابطہ کیا اور افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور انہیں ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

2016 میں پاکستان، افغانستان، چائنہ اور امریکہ کی حکومت نے ایک معاہدہ کیا کہ مذاکرات کے ذریعے مسلے کا حل نکالا جائے اور افغان جنگ کا خاتمہ کیا جائے، یہ مذاکرات طالبان کے ساتھ ہونے تھے اور انہیں اس معاہدے پر آمادہ کرنا تھا لیکن امریکی ڈرون حملے میں ملا منصور کی ہلاکت کے بعد یہ سرگرمیاں پھر سے معطل ہو گئی اور طالبان نے اپنے امیر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔

2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید فوجی دستے افغانستان بھیجنے کا اعلان کیا تاکہ افغانستان میں جنگ جیت سکے، یہ اعلان صدر ٹرمپ نے باقاعدہ ٹویٹ کر کے کیا تھا جس کے بعد عالمی برادری میں ہلچل مچ گئی تھی۔

2018 میں طالبان 14 ضلعوں پر قابض ہو چکے تھے جو پورے ملک کا چار فی صد بنتا تھا جبکہ اس کے علاوہ 263 ضلعوں میں طالبان کی موجودگی تھی اور ان کی سرگرمیاں جاری تھی۔ طالبان کی پیش قدمی کے بعد ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کو افغانستان کے لئے خصوصی مشیر مقرر کیا۔

2019 میں کابل میں حملے کے بعد صدر ٹرمپ نے امن مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا، یہ مذاکرات دسمبر کے اوائل میں دوبارہ شروع کیے گئے۔

2020 میں امریکہ اور طالبان میں امن معاہدہ ہوا، یہ معاہدہ دوہا قطر میں ہوا، اس معاہدے کے بعد امریکی فوج کا انخلاء شروع ہوا جبکہ طالبان قیدیوں کی رہائی بھی ممکن ہوئی، اس معاہدے کے بعد افغان حکومت جس کی سربراہی صدر اشرف غنی کر رہے تھے نے طالبان کے ساتھ مذاکرات سے انکار کیا، امن معاہدے کے لئے قطر میں کئی بار مذاکرات ہوئے جس کے بعد افغانستان میں امن کی بحالی کی امید ظاہر ہونے لگی۔ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد اب صرف افغانستان میں 2500 امریکی فوج باقی رہ گئے تھے جو زیادہ تر باگرام ائر بیس میں قیام پذیر تھے۔

2021 میں امریکی صدر جو بائیڈن نے باقی رہ جانے والے 2500 امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کیا اور 11 ستمبر 2021 تک افغانستان سے مکمل طور پر نکلنے کا عندیہ دے دیا۔

لیکن امریکی فوجیوں کا انخلاء مقررہ وقت سے پہلے شروع ہوا اور باگرام ائر بیس کو بغیر اطلاع دیے خالی کرا دیا گیا۔ امریکی فوج کی تیزی سے انخلاء کے بعد کنٹرول افغان حکومت اور فوج کے ہاتھ میں چلا گیا جنہوں نے طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان بھی کیا لیکن خلاف توقع طالبان ایک ایک صوبے پر قابض ہوتے گئے اور افغان فوج کی جانب سے کسی جگہ پر بھی طالبان کے خلاف مزاحمت دکھائی نہ دی۔

طالبان جب کابل پر قابض ہو رہے تھے تو افغان صدر اشرف غنی، امراللہ صالح اور محب بھی افغانستان سے بھاگ نکلے اور یوں پورا افغانستان طالبان کے قبضے میں آ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments