وزیراعظم صاحب کی خواہش اور جرائم کا سدباب۔


مینار پاکستان واقعہ انتہائی شرمناک تھا، اس پر بہت تکلیف ہوئی۔ جو تباہی دیکھ رہے ہیں بچوں کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ہے، موبائل کے غلط استعمال سے جنسی جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے، بچوں کی تربیت کے لئے سیرت النبیﷺ سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا لاہور میں تقریب سے خطاب درحقیقت پوری قوم کے جذبات کا آئینہ دار ہے۔

اسی ضمن میں وزیراعظم صاحب کا وہ بیان کہ جنسی تشدد کے واقعات اضافے میں بے پردگی کا بھی دخل ہے اور ماحول کا انسان پر اثر ضرور ہوتا ہے کہ وہ روبوٹ نہیں ہے، اگرچہ اس تجزیے کو منفی انداز میں پیش کیا گیا اور ایسا تاثر دیا گیا کہ انھوں نے جنسی تشدد کا شکار خواتین کے لباس کو اس کا واحد ذریعہ قرار دے کر مجرمین کو معصوم قرار دیا ہے حالانکہ ان کا مدعا بالکل واضح تھا کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی، عریانی اور اباحت پسندی جنسی فرسٹریشن کا سبب بنتی ہے جس کے مظاہر دراندازی کی صورت نظر آتے ہیں۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ وزیراعظم کی تشویش بلاوجہ نہیں ہے۔ اور اندازہ ہے کہ وہ اس حوالے سے متفکر ضرور ہیں۔

گریٹر اقبال پارک کا واقعہ ہو، سانحہ نور مقدم ہو یا دیگر کئی دلخراش واقعات جو جنسی تشدد، ہراسانی اور خواتین و بچوں کے جسمانی، جنسی اور جذباتی استحصال پر مبنی ہیں، حقیقتاً اس پر قوم دل گرفتہ، مضطرب، متفکر اور پریشان ہے۔ ماں باپ اپنے جگر گوشوں کے حوالے سے انتہائی مایوس اور نفسیاتی طور پر حساس بن چکے ہیں اور کئی حوالوں سے خدشات اور تحفظات نے انھیں گھیرا ہوا ہے۔

بلاشبہ جناب وزیراعظم نے مرض کی درست نشان دہی بھی کی ہے اور درست دوا بھی تجویز کی ہے۔
اخلاقی گراوٹ، وجوہات۔
*موبائل ( میڈیا) کا غلط استعمال
*تربیت کا فقدان
حل۔
سیرت النبیﷺ سے آگاہی اور اس کی روشنی میں تعلیم و تربیت کا انتظام و اہتمام۔

مرض بھی معلوم اور دوا کا بھی پتہ۔ لیکن اس اہم ترین فریضے کی انجام دہی کی بنیادی ذمہ داری آخر ہے کس کی؟

یہی وہ اہم بنیادی سوال ہے جس کا جواب جناب وزیراعظم کو پتہ ہونا چاہیے۔
مختصر بات یہ ہوگی کہ جناب وزیراعظم صاحب،
وعظ و نصحیت کرنا
رونا دھونا
اور
تجاویز پیش کرنا

جناب طارق جمیل صاحب جیسوں کی ذمہ داری ہے جبکہ عملی اقدامات اٹھانا اور اصلاحات کرنا اپ کا فریضہ ہے کہ آپ کے پاس حکومت ہے، اختیارات ہیں، وسائل ہیں اور اعصابی مراکز کا کنٹرول ہے۔

اصلاح احوال کے لیے تین بنیادی دائرے ہیں۔
تطہیر افکار و تعمیر سیرت،
اصلاح معاشرہ
قوانین اور اس کا موثر نفاذ۔

ہمہ جہت، جامع اور موثر تعلیمی و تربیتی نظام تشکیل کر کے لوگوں کے خیالات، افکار، اخلاق اور عادات کو تبدیل کرنا۔ اور ناگزیر طور پر تعزیر اور تادیب کا متوازن نظام وضع کر کے اس پر بروقت اور موثر عمل درآمد کے ذریعے جرائم کی حوصلہ شکنی کرنا اور مجرمین کو نشان عبرت بنانا۔ یعنی۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ نیکیوں کا فروغ اور برائیوں کا سدباب۔ بھلائیوں کے چشمے بہانا اور برائیوں کے چشموں کے سوتے خشک کرانا۔

یہ بھی واضح رہے کہ محض قانون سازی سے نہ اصلاح احوال ممکن ہے اور نہ جرائم کا مکمل سدباب، اس واسطے پورے نظام کی تطہیر اور اصلاح ناگزیر ہے۔

”ایک ملک کا قانون اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے۔ جب تک ملک کی نظام زندگی اپنے سارے شعبوں کے ساتھ نہ بدلے اس کے قانونی نظام کا بدل جانا ممکن نہیں ہے“

فی الحال اور فوری طور پر ایک دو قدم اٹھا کر آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اس کام کے لئے ضروری قانون سازی اور اس کے موثر نفاذ کے ساتھ ساتھ رسمی و غیر رسمی تعلیم کے ذریعے تعمیر سیرت اور اصلاح معاشرہ کی جدوجہد کار آمد ثابت ہوگی۔

رسمی تعلیم۔

نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی ایسی تشکیل کہ اس ذریعے خود آگہی اور معرفت رب کا نور پایا جاسکے۔ موجودہ طبقاتی نظام تعلیم جس کی اٹھان لارڈ میکالے کی نظام ہی پر ہے، اس سے کسی خیر کی امید ہے ہی نہیں۔ موجودہ نظام علوم و فنون میں مطلوبہ مہارت رکھنے والے باصلاحیت اور صالح ماہرین مہیا کرنے سے بھی عاجز ہے اور نسل نو کو اپنی تہذیب اور تاریخ سے جوڑنے اور اخلاق، اقدار، روایات، آداب اور شعائر سے روشناس کر کے اخلاق کی پختگی اور سیرت و کردار کی تعمیر سے بھی قاصر ہے۔

غیررسمی تعلیم۔

اس میں سر فہرست میڈیا کا استعمال ہے۔ فلم، ڈرامہ، ٹاک شوز، مباحثے ومذاکرے، اشتہارات اور دیگر بہت ساری چیزوں کے ذریعے اذہان و قلوب کی پاکیزگی اور برائیوں کے نقصانات سے اگاہی عین ممکن ہے۔ لیکن شومئی قسمت اس وقت تو گنگا الٹے ہاتھ بہہ رہا ہے اور بہت زور اور شور کے ساتھ۔ بے لگام میڈیا اقدار کی پامالی، شعائر کی بے توقیری اور معاشرتی بگاڑ میں سر پٹ گھوڑے کی طرح دوڑ رہا ہے۔ محسوس و غیر محسوس طریقے کے ساتھ متعین اہداف اور متعین سرگرمیوں کے ذریعے بہت منظم اور سائنسی انداز میں اباحت پسندی کے فروغ، مدر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل اور بے حیائی، بے ہودگی اور بے باکی کی تشہیر کی جا رہی ہے۔

”گند دکھاوں گے تو گند ہی دیکھنے کو ملے گا“ کے مصداق آج جو مظاہر دیکھنے کو مل رہے ہیں یہ اسی کا اثر ہے۔ یاد رہے کہ نصاب تعلیم میں اسلامیات کے چند مضامین کی پیوند کاری اور میڈیا میں کسی مولانا صاحب کے کوئی ”واعظانہ پروگرام“ کا چرکہ لگانے کسی اصلاح احوال کی توقع رکھنا سراسر بھولا پن بلکہ جہالت اور حماقت ہوگی۔

افراد اور معاشرے کو مکمل ایجوکیٹ کرانا ( تعلیم و تربیت ) رسمی و غیر رسمی تعلیم کا مطلوب ہونا چاہیے جو ہمہ جہت، جامع، متوازن اور موثر نظام کی تشکیل کا متقاضی ہے۔

بس سمجھ لیجیے کہ
”ریاست مدینہ“ کے فرائض میں سے اہم ترین فریضہ یہی ہے۔
بسم اللہ کیجئے
ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
محض تقاریر کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔

وزیراعظم صاحب کو توجہ دلانا اپنی جگہ لازمی ہے لیکن ہم سب بھی اپنی اپنی جگہ اپنی مسول ہیں اور ہم سے ہماری رعییت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اپنی حد تک اور اپنی استطاعت کے مطابق اپنے اہل و عیال کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھنا فرض ہے۔

”اگر عورتوں کو لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے مرد برے ہیں تو انہیں چاہیے کہ بطور ماں اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کا خیال رکھیں اور اگر مردوں کو لگتا ہے کہ معاشرے کی عورتیں بری ہیں تو انہیں چاہیے کہ بطور والد اپنی بیٹوں کی اچھی تربیت کا اہتمام کر لیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments