توہم پرستی اور ہمارا جدید معاشرہ


ہم جب پیدا ہوئے اسی وقت سے کئی باتیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں یا سنتے رہے کہ ایسے نہیں کرنا چاہیے ایسے کریں گے تو یہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ اور بچوں کے دل میں شروع ہی سے کئی قسم کے خدشات رکھ دیے جاتے ہیں۔ وہ انہی خدشات و خوف کو لیے پروان چڑھتے ہیں۔ جن خدشات اور خوف کا ذکر ہے اس میں کئی قسم کی چیزیں شامل ہیں مثلاً: شام کے وقت چھت پر نہ جانا جن آ جائیں گے خصوصاً عورتوں کو، رات کے وقت کنگھی نہیں کرتے، شیشہ نہیں دیکھتے، جھاڑو نہیں لگانی اور ہمارے گھر کا دستور تو عصر کے بعد یہی تھا، وغیرہ وغیرہ۔

متذکرہ بالا تمام وہ باتیں ہیں جو ہمارے معاشرے کے گھروں میں عام طور پر سننے کو ملتی ہیں۔ رفتہ رفتہ زمانہ جدید کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ اگر کسی حد تک کم ہوا ہے تو دوسری طرف کئی لوگ ماننے والے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔

مثلاً: جعلی پیروں اور دھندا کرنے والوں ہی کا حال ملاحظہ ہو جہاں کئی لوگ ان پر اعتقاد نہیں رکھتے وہیں بے شمار لوگ ان کے حامی بھی ہیں جن کے سبب ان کے کاروبار چل رہے ہیں اور انسانیت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو ہمارا میڈیا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اسی طرز کے کئی جرائم پیشہ شعبدہ بازوں کو بے نقاب کرتا ہے اور عوام کو آگہی و شعور دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ سب غلط ہے لیکن لوگ جو اس سے مستفید ہوتے ہیں ان کی تعداد ایک طرف کئی افراد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی کہ جو پیر صاحب نے کہہ دیا اور کر دیا وہی حرف آخر ہے۔ اور وہ جعلی پیر بے سرو پا اور من گھڑت قصوں سے عوام کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں اور عوام بھی وہی کرتے ہیں۔ ان کے پاس معصوم عوام کو پھنسانے کے کئی ہتھکنڈے اور چالیں موجود ہوتی ہیں۔

میں اپنے تجربے کی بات کروں جو آج بھی مجھے یاد ہے اسی موضوع سے ملتا جلتا واقعہ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ آج سے 6 یا 7 سال قبل ہماری ایک چوری ہوئی جو مویشیوں سے متعلق تھی۔ میرے شعور یا زندگی کا یہ اس طرح کا پہلا واقعہ تھا جس نے ہم سب کو کافی دکھ بھی دیا۔ جن کی تلاش میں قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ اس طرح منت وغیرہ ماننے کا سلسلہ بھی شروع رہا۔ اسی دوران کئی لوگوں نے مشورہ دیا کہ فلاں کے پاس جاؤ، یہ کرو، وہ کرو، فلاں تعویذ کروا کر باندھو۔ پھر کسی نے بتایا کہ ہمارے ہاں قابل محترم بزرگ گزرے ہیں ان کے خلیفہ ( جانشین) ہیں ”ان کے پاس جاؤ جو حاجی صاحب ہیں، بہت کرامات والے اور پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ جب وہ ’تشریف لاتے‘ ہیں تو عطر کی ’خوشبو‘ آنے لگتی ہے“ ۔

یہ تمام روداد نہایت چرب زبانی سے ہمارے ہی محلے کے آدمی نے سنائی۔ اور ہمارے لیے تو یہ بہت خوش قسمتی تھی سو یقین کر لیا گیا کیوں کہ ہمارے پورے علاقے میں ان صاحب بزرگ کو بہت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جن کے وہ خلیفہ بتائے جا رہے تھے۔ ہم اور ایسے ہی کئی اور لوگ جو ازراہ عقیدت اسی بات پر دل و جان سے نثار ہوئے جاتے تھے۔ اسی عقیدت میں ہم بھی تیار تھے، جانے، ملنے یا دیکھنے کے انتظار میں۔ ایک روز موصوف ہمارے گاؤں وارد ہوئے ہمیں بھی اطلاع دی گئی کہ آپ بھی برکت سمیٹ لیں۔ ہم نے اپنے طور پر جو بن پڑا وہ کیا اور انتظار کرنے لگے کہ کب تشریف آوری ہوگی لیکن جب وہ آئے تو ہم جس خوشبو کے لیے متجسس تھے وہ ندارد۔ ”کچھ نہیں“ اپنے دل کو سمجھایا کہ خیر ہے۔

جب ان کو دیکھا تب بھی ویسا نہ پایا جیسا سوچا تھا۔ خیر کوئی محفل وغیرہ کا انتظام تھا ہمیں دعوت دی گئی تو ہم بھی ”آمنا و صدقنا“ کے مصداق وہاں جا پہنچے۔ لیکن توقع کے برعکس درویشوں یا تقویٰ و زہد تو نام کو بھی نہیں تھا ہر طرف آسائشیں اور دنیاوی نمود و نمائش جابجا بکھری پڑی تھی۔ حیرانی تو ہوئی لیکن پھر اس آدمی کا لہجہ کہ اگر عورت بات کرے تواسے بھی گالم گلوچ بکنا مجھے بہت کھٹکا۔ ہم آ گئے لیکن میری والدہ نے سب سے پہلے اسے مسترد کیا اور آہستہ آہستہ ہم بھی سوچنے لگے کہ یہ حقیقت نہیں فقط سراب ہی ہے۔

ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے خبر ملی کہ وہ نشئی اور فراڈی شخص جو کئی لوگوں سے مال و دولت کا غبن کرچکا ہے اب جیل میں ہے اور پہلے بھی اپنی انہی حرکتوں کے سبب جیل رہ چکا ہے۔ پولیس اس کے پیچھے ہی رہتی ہے اور جو نیا افسر علاقے میں تعینات ہوتا ہے اسے رشوت دے کر اپنا تابع بنا لیتا ہے۔ یہ تو تھی ایک ایسی داستان جو آج تک میرے حافظے میں محفوظ ہے۔

ایک بات یہ کہ ہمارے گھر میں تو یہ عالم تھا میں بچپن سے دیکھتی کہ جمعرات کو ختم درود وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا تو ایک بات جو بار بار یاد کرائی جاتی اور سختی سے پابندی کی جاتی کہ دروازہ کھلا رکھو روحیں اپنا حصہ لینے آتی ہیں، ختم شروع ہوا ہے تو دروازہ ہر صورت کھلا رہے گا بصورت دیگر روحیں دروازے پرہی کھڑی رہ جائیں انہیں اندر آنے آراستہ نہیں ملے گا جب تھوڑا شعور ہوا تو سمجھ آئی کہ یہ کیسی خلاف حقیقت بات ہے؟ بھلا روحیں کبھی زمان و مکاں کی پابند ہوئی ہیں وہ تو اس طرح کی ہر چیز سے ماورا ہیں۔ ہم کیسی بے سروپا چیزوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

اسی طرح کے کئی واقعات اور چیزیں ہوتی رہتی ہیں اور کبھی وہ کیمرے پر ریکارڈ بھی سامنے لائی جاتی ہیں کہ لوگ سبق حاصل کرسکیں لیکن ایسا مشکل ہی ہوتا آج بھی ان جعلی شعبدہ بازوں کی دکانداری چلانے والے بہت سے موجود ہیں۔ اور کئی اپنی منتیں مرادیں پانے کے چکر میں مال جان، اور آبرو سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اور اس کا شکار عام طور پر سب سے زیادہ دیہاتی علاقوں میں موجود سادہ لوح، اور ان پڑھ باشندے ہوتے ہیں جنہیں اس چیز کی، دین کی بنیادی تعلیم ہی نہیں دی گئی اسی سبب سے جس کا من چاہے انہیں دین کے نام پر ورغلائے اور اپنا مقصد حاصل کر لے۔

میرا بیان کردہ تجربہ جو حقیقت پر مبنی ہے کئی افراد کا تجربہ ہو سکتا ہے لیکن کوئی حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اسی وجہ سے یہ سلسلہ کم ہونے کی بجائے روز بہ روز پھیلاتا جا رہا ہے اور پڑھا لکھا معاشرہ بھی اس رستے ناسور کو فی الوقت مکمل طور پر جڑ سے ختم نہیں کر سکا۔ یہ لوگ وہ گندی مچھلیاں ہیں جن کے باعث ایک طرف تو لوگ ان پر اندھا دھند اعتبار کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ بھی ہیں جو حقیقتاً اسلام کی خدمت کرنے والے ہیں اور دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کردیں انہیں بھی شک و شبہات بلکہ کئی کئی القابات سے نوازا جاتا ہے جو قابل مذمت ہے۔ ان جعلی شعبدہ بازوں کے باعث نہ صرف معاشرتی اقدار متاثر ہوئیں بلکہ حقیقی اسلامی تصوف اور بزرگان دین کا چہرہ مسخ کرنے میں جعلی پیروں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ضرورت ہے کہ سنجیدگی سے اس مدعے پر سوچا جائے اور حکمت عملی سے کام کیا جائے، کم پڑھے لکھے لوگوں کو اس امر کی آگہی دی جائے جس کی وجہ سے سماج میں بہتری متوقع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments