فحاشی عورت میں نہیں، معاشرے میں ہے


معاشرے میں اس قدر زیادہ عدم برداشت رائج ہو گیا ہے کہ اب لوگ ذرا سی بات اپنے مزاج کے خلاف نہیں سن پاتے اور تلخ ہو جاتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں گالی تو کلچر ہے۔ جو کہ دلیل کی نفی ہے۔ سوشل میڈیا پہ گالی کلچر پہلے ہی عام تھا۔ آج کل ٹک ٹاکر عائشہ اکرم زیر بحث ہے۔

گزشتہ دنوں ٹویٹر پہ اسپیس سننے کا اتفاق ہوا، جہاں موجود لوگوں کے درمیان بھی اس ہی موضوع پہ بحث چھڑ گئی۔ جب خواتین نے اس معاملہ پر عائشہ کے دفاع میں بات کی تو تمام توپوں کا رخ فیمینسٹ کی طرف کر دیا گیا۔ بارہ گھنٹے طویل اسپیس کا خاتمہ گالی گلوچ اور سنگین دھمکیوں کی صورت میں ہوا، جسے دو ہزار لوگوں نے سنا اور بھرپور حصہ لیا۔

آج کل ان اسپیسس میں کیا عظیم طوفان بدتمیزی مچا ہوتا ہے۔ سچ بتاؤں تو چند ہی لوگوں کی شاندار باتیں سن کر میرے علم میں بہت اضافہ ہوا۔ مجھے اپنے بھائیوں کی جانب سے نئی نئی اصطلاحات سیکھنے کو ملی۔ کچھ تو ایسے الفاظ متواتر استعمال ہوئے کہ مجھے گوگل کا سہارا لینا پڑا۔ جن میں ایک ٹرم تھی LGBT۔

فیمینزم پر کیسے کیسے الزامات لگائے جاتے ہیں اور جیسی شائستہ، شستہ زبان استعمال ہوتی ہے، بتانے سے قاصر ہوں۔ لیکن ان باتوں کا جواب اور اپنے مسائل قلم بند کرنا چاہوں گی۔

سوچ کے اس فرق نے ہم کو انتہا پسند اور متشدد بنا دیا ہے۔ ہر فرقہ، ہر گروہ خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اور اپنا نظریہ منوانے کے لیے ہر طرح کے جارحانہ رویہ کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ حقوق کا حصول تو بعد کی بات ہے، خواتین کو کسی بھی پلیٹ فارم پر کھل کر اظہار رائے کی آزادی نہیں۔ آواز بند کر دی جاتی ہے۔ ذاتی حملے، گالی گلوچ، اور سنگین دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہے۔

حد درجہ نفرت آمیز رویہ اور لہجہ لیے انیق ناجی صاحب ایک اسپیس میں موجود تھے۔ موصوف ایسے ہی جذبات عائشہ اکرم اور حقوق نسواں کی تحریک کے لیے بھی رکھتے ہیں۔ یہ جان کر افسوس ہوا کہ وہ بھی ایسا ہی پر تشدد مزاج رکھتے ہیں۔

اگر جرائم کے اوپر وکٹم بلیمینگ اسی شدت سے چلتی رہے گی تو جرم کا کیسے خاتمہ ہو گا۔ پہلے جواز بنا کر جرم کرتے ہیں اور جرم کرنے کے بعد جواز پیش کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ لڑکیاں حرکتیں درست کر لیں، آپ کی یہ دلیل تب مانی جاتی جب یہ ایک مہذب معاشرہ امن و امان، تہذیب و تمدن کا گہوارہ ہوتا۔ چادر کی حرمت پامال نا ہو، اس بات کا خیال کیا جاتا، مگر آپ کے ہاں زندہ تو کیا مردہ محفوظ نہیں۔ بچیاں کیا بکریاں محفوظ نہیں۔ تو کب تک آپ اپنے اندر کی گندگی کو چھپانے کی خاطر دوسرے کے عیب گنواتے رہیں گے۔

پاکستان میں اسلام کو ہتھیار بنا کر جبر و استبداد کے کھلے عام اعلان کیے جاتے ہیں۔ آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں کیونکہ پوری (زندہ) قوم آپ کے ساتھ ہے۔ آج لوگوں کی اکثریت اور حمایت قاتل کے ساتھ ہے مقتول کے ساتھ نہیں۔

رکشہ، ٹیکسی، ویگن، چنگچی والے واقعات آئے دن کی کہانی ہے۔ خواتین اس لیے رنجیدہ ہیں کیونکہ کہیں نا کہیں ہمارے ساتھ یہ سب ہوتا رہا ہے۔ خواہ وہ ذہنی یا جسمانی تشدد ہو۔ یہ ہماری آپ بیتیاں ہیں۔ لیکن لوگ آواز بند کرا دیتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں وکٹم بلیمنگ چلتا ہے اور لا قانونیت عام ہے۔

مان لیا کہ وہ عورت فاحشہ تھی لیکن چار سو مرد؟ ان کی غیرت کہاں گئی؟ وہ تو پارسا، دین دار، آب زم زم سے دھلے معاشرے کے مجاہد تھے۔ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ناچنے گانے والی کے لیے اتنا درد۔ ہم اس لڑکی کی بات ذاتی حیثیت میں نہیں کر رہے۔ ہم عائشہ کو مینار پاکستان والے واقعہ سے پہلے جانتے تھے اور نا بعد میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہم مذمت کرتے ہیں جہاں ایک لڑکی اجتماعی طور پر درندگی کا شکار ہوئی۔ بقول عاصمہ شیرازی، کپڑے عورت کے پھٹے لیکن ننگا آپ کا معاشرہ ہو گیا۔

اگر آپ کو ٹک ٹاک سے مسئلہ ہے، آپ دیکھنا چھوڑ دیں۔ میرا یقین کریں کوئی لڑکی ویڈیو نہیں بنائے گی۔ ایسی لڑکیوں کو ویوز دیتا کون ہے، گاہک کون ہیں ان کے؟ یہ فحاشی، عریانیت ان کی تو روزی ہے اور آپ شرفاء کے لیے جنسی لذت؟

کسی وجہ سے اگر عورت کی شہرت خراب ہے تو وہ اسی زمین کی باسی ہے۔ مارس پر جاکر رقص نہیں کرتی رہی۔ منافقت تو اس قدر عروج پر ہے کہ دیکھتے سب ہیں اور فتوی بھی لگاتے ہیں۔

اسی پوری بلیم گیم میں ”#اقرار الحسن کو گرفتار کرو“ کا ٹرینڈ بھی چلایا گیا، ارے بھئی کیوں گرفتار کرو۔ کیا اس نے آئین و قانون کی خلاف ورزی کردی۔ غلطی کیا ہے۔ بس یہ کہ ایک وکٹم کی داد رسی کے لیے پہنچا اور غم و غصہ کی کیفیت میں کہہ دیا کہ ”اچھا ہے میری کوئی بیٹی نہیں ہے“ ۔

معاشرہ کی بے حسی دیکھیں کہ وہ کہتا ہے کہ ایسے واقعات تو ہر سال 14 اگست، 31 دسمبر کو ہوتے ہیں۔ یہ بیماریاں ایسی سرایت کر گئی ہیں کہ اب رواج میں آ گئی ہیں۔ ظلم کرنے والا اور ظلم سہنے والا دونوں ہی معاشرتی نا انصافی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ حیا کرنے والیوں کے ساتھ رحم والا معاملہ ہوتا ہے۔ ان ہی لوگوں سے سوال ہے کہ برائے مہربانی مجھے سکھا دیں کہ مردوں اور جانوروں کو کیسے حیا سکھائی جائے؟ آپ مجھے اس کا جواب دے دیں، زندوں کو حیا ہم سکھائیں گے۔

ریاست مدینہ بنانے والے عمران خان کے 80 % جلسوں میں عورتوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ عورتوں کے کپڑے پھاڑے جاتے ہیں۔ جیو نیوز کی رپورٹر کو جلسہ کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ہراساں کیا گیا۔ میڈیا کی لڑکی کو بوتلیں ماری گئی۔ کیا ایسے واقعات سے ملک کا نام بدنام نہیں ہوتا ہے؟ اس طرح کے ہولناک، حیوانی، جنسی درندگی کے واقعات ریاست کو داغدار کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں ایک طبقہ ہے جو سوچتا ہے۔ دوسرا طبقہ ہے جو سوچنے والوں کی سوچ پہ پہرا بٹھاتا ہے۔ بندوق، گالی اور تشدد کے زور پر۔ اور ایک طبقہ ہے جہاں کی ہوا وہاں کے ہم۔ یعنی لکیر کے فقیر۔ جن اکابرین واش کرنا قدرے آسان ہے۔

سماج نے مجھے سکھایا تھا کہ فیمینسٹ ہونا ایک گالی ہے، لیکن اب اندازہ ہوا کہ ہر عمل کا ردعمل اور ہر منظر کا ایک پس منظر ہوتا ہے۔ بیرون ملک فنڈنگ، غداری، اسلام دشمن کے سرٹیفیکٹ تو عام ملتے ہی ہیں مگر ہمیں اپنی حب الوطنی اور مسلمان ہونے کا اکثر ثبوت پیش کرنا پڑتا ہے۔

فیمینزم آخر ہے کیا؟ ایک ایسی تحریک، طرز فکر جو تمام شعبوں میں عورتوں کے مردوں سے برابری کے حقوق چاہتے ہیں۔ اس میں کیا برائی ہے۔ اس کو لولی پوپ اور ٹافی کے ریپر کی لڑائی کیوں بنایا جاتا ہے ؟

فیمینزم سے مراد یہ قطعی نہیں کہ خواتین ہم جنس پرستی کو فروغ دینا چاہ رہی ہے یا پھر جس آزادی اور رضامندی کی بات کی جا رہی ہے اس کا تعلق صرف جسمانی تعلق قائم کرنے سے ہے۔ یہ بات زیربحث ہے کہ فیمینزم اسلام کے خلاف ہے۔ جب کہ ایسا قطعی نہیں۔ میں ایک بات واضح کر دوں کہ عورتوں کے جو حقوق اسلام نے وضع کیے ہیں، اس کا اختیار مردوں کو مل گیا ہے، کیوں کہ عورت کے جذبات پہ مرد کو اختیار حاصل ہے۔ محبت مسلط نہیں کی جا سکتی، لیکن اگر مرد کو جواب میں ”انکار“ سننے کو ملے تو پھر درندوں کی دست درازی کا شکار، اجتماعی زیادتی، چھریوں کے وار، تیزاب گردی، جسمانی تشدد جیسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اور آپ جیسے دانشور، مفکر اعظم کہتے ہیں کہ عورت کا کردار خراب تھا۔ حالاں کہ ریاست کی ذمہ داری تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے، مشورہ دینا نہیں۔

یہاں وضاحت کر دوں کہ فیمینزم کی بات ہو تو آپ چند پلے کارڈز اور سلوگنز کی بات کرتے ہیں۔ ہم انسان ہر جملے کی تشریح اپنے حساب سے کرتے ہیں۔ اگر آپ کو تمام پلے کارڈز اور سلوگنز کو نہیں ماننا آپ نا مانیں۔ آپ سو میں سے 70,80 نکات کی تو تائید کر لیں۔ یہ مسائل خواتین کے ہیں، وہ ہی اس کی بہتر نشاندہی کر سکتی ہیں۔ یہ تو حقوق نسواں ہیں، فرض کریں اگر خونی لبرلز نے حقوق انسانی کی بات کر لی تو آپ کا دم نکل جائے گا اور آپ کا متشدد رویہ اور مکروہ چہرہ چھپائے نہیں چھپے گا۔

لباس کا جہاں تک تعلق ہے، اس کا فیمینزم سے کوئی تعلق نہیں۔ اپنی ذاتی حیثیت میں وہ جو بھی لباس پہنے وہ اس کا معاملہ ہے۔ جو کہ کلچر اور قومی سطح پر تبدیل اور مختلف ہوتا ہے۔

ہم گناہ گار خواتین اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ جس طرح بیٹی کی پیدائش سے ہی اس کے نصیب کی دعائیں اور اگلی بار بیٹے کی دعا دی جاتی ہے، پیدائش سے ہی یہ سماج نا انصافی شروع کر دیتا ہے۔ دیہی آبادی میں تعلیم کا حق حاصل نہیں۔ پرایا دھن کہہ کر بیٹا بیٹی میں فرق رکھا جاتا ہے۔ بیٹے کا جرم معاف لیکن بیٹی کی خطا کی سخت سزا۔ ظلم تو یہ کہ کچھ علاقوں میں اس سزا کا فیصلہ بھی کچہری یا جرگہ میں ہوتا ہے، جس میں سراسر نا انصافی اور ظلم کیا جاتا ہے ۔

پسند کی شادی کا حق مذہب نے دیا ہے۔ لیکن اسے اپنی خوشی یا مرضی کے بجائے مردوں کی پگڑیوں کو بچانا ہوتا ہے۔ تمام فرسودہ ریت رواج، روایات کا خیال عورت کو رکھنا ہوتا ہے۔ کم سنی کی شادی ایک موت کی سزا ہے، جس کا ادراک کسی کو نہیں۔

مجرم کو سزا دینے کی تو دور کی بات ہے، ہمارے ہاں کار و کاری پہ کوئی بات نہیں کر سکتا۔ کیوں؟ بدنامی ہوگی۔ یہ ظلم بدنام نہیں کر رہا لیکن اس کی تشہیر آپ کی رسوائی ہوگی۔ افسوس آدمیت کا جنازہ روز نکلتا ہے۔ انسانیت درگور ہوتی ہے۔ اگر کسی عورت کو قتل کر کے انسان عزت کما سکتا ہے تو ہم سے زیادہ عزت دار لوگ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوں گے۔ اسلام خواتین اور دوسرے کسی بھی انسان کی گردن کاٹنے کی اجازت نہیں دیتا۔

غیرت کا دائرہ کار بھی عورت تک ہی محدود ہے، جو محض جھوٹی انا کا نام ہے، اس غیرت کی قیمت عورت کو چکانی پڑتی ہے۔ کبھی کردہ اور کبھی نا کردہ گناہ کی سزا۔

حضرت عیسیٰ؏ کا مشہور زمانہ واقعہ سب نے سن رکھا ہے، جب ایک زانی عورت ان کی خدمت میں پیش کی گئی، اور انہوں نے کہا، پہلا پتھر وہ مارے جس نے گناہ نا کیا ہو۔ مگر پاکستان میں آج بھی عورتیں سنگسار ہو رہی ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں اور جب خونی لبرلز ان کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو ان کے خلاف منفی پروپیگینڈا شروع ہو جاتا ہے اور اس معاملہ پر قوم میں بہت اتفاق و اتحاد پایا جاتا ہے۔

ہماری تہذیب، افکار، اقدار، روایات کہاں کھو گئی۔ وقت کے ساتھ تعلیم کے بعد معاشرے کو ترقی کرنی چاہیے تھی۔ مگر ہم تو اخلاقی پستی کی جانب جا رہے ہیں، خلیل الرحمان قمر والی مراقی سوچ اور گھٹیا زبان ہر پوسٹ کے نیچے کمینٹ میں پڑھی جا سکتی ہے۔ جو کہتے ہیں کہ عورت مرد اس لیے برابر نہیں کیونکہ مرد عورت کا ریپ کر سکتا ہے۔ عورت مرد کا ریپ نہیں کر سکتی۔ اور یہ پورا مائنڈ سیٹ ہے۔

سیاسی و مذہبی لیڈران اپنے مرید اپنے پیروکار پر گہرا اثر رکھتے ہیں، لیکن وہ جلتی پہ تیل چھڑکتے ہیں۔ ”مرد روبوٹ نہیں“ جیسی سوچ ارض مقدس کے وزیراعظم کا نظریہ ہو سکتا ہے۔ حالاں کہ ماضی میں وہ تو ڈبل خونی لبرل رہے۔ اسی طرح شاید زندگی کے کسی موڑ پر لبرل آنٹی بھی ہدایت پا لیں۔ مرتے دم بھی اگر توبہ کی جائے تو انسان کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ یہ تو بندے اور خدا کا معاملہ ہے ناں۔

ہر تحریک چاہتی ہے کہ اسے حق دیا جائے۔ جسے ہر دم اپنی جان جانے کا خطرہ لاحق ہو، اسے جینے کا حق حاصل ہوگا؟ معاشرے کا گھناؤنا پن، منافقت اور دوغلے پن کا عالم تو یہ ہے کہ ہم اپنی مسخ شدہ صورت دیکھنے کو کسی صورت تیار نہیں۔ آئین کو کاغذ کا ٹکڑا، عورت کو تفریح کا سامان، قانون کو گھر کی لونڈی سمجھیں گے تو پھر اسی طرح لوگوں کے ساتھ ظلم و بربریت، نا انصافی جاری رہے گی۔ سزا کا یقین نا ہونا مجرم کا کھلے عام گھومنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں قانون و عدلیہ کی کیا حیثیت ہے۔

بھلے آپ خود پہ ریشمی چادر چڑھا دیں لیکن

فحش عورت نہیں معاشرہ ہے۔ بے حس بے ضمیر معاشرہ۔ تربیت بھی معاشرہ کرتا ہے۔ والدین، درس گاہ، لیڈر، میڈیا علماء اکرام سب مل کر معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔ اخلاقی زوال اور گالی کلچر کے خاتمہ کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے وگرنہ ہم کبھی بھی دنیا کے مہذب معاشروں کی صف میں جگہ بنانے کے اہل نہیں ہو سکتے۔ ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کو بھی فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے، بے شک آپ ﷺ کا اخلاق پوری انسانیت کے لیے نمونہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments