مفتی عدنان کاکاخیل پر جمعیت کا حملہ


\"\"

مفتی عدنان کاکاخیل نے اپنی ایک گفتگو میں عمران خان کی تعریف کی تو جمعیت علمائے اسلام کے احباب سیخ پا ہوگئے۔ عدنان کاکاخیل پہ طرح طرح کی باتیں کی گئیں۔ اس پہ جملے کسے گئے اور عدنان کاکاخیل کو پنڈی والوں کا بندہ بھی کہا گیا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔

عدنان کاکا خیل کی گفتگو درست ہے یا نہیں اس کو ایک طرف رکھتے ہیں بات یہ ہے کہ جمعیت کے احباب غصے میں اس لیے ہیں کہ جس بندے کو وہ اپنا سمجھتے تھے اس نے تعریف عمران خان کی کر دی۔ میں جمعیتی احباب کا دکھ سمجھتا ہوں انہیں مولانا فضل الرحمن سے جو عقیدت ہے اسے بھی جانتا ہوں۔

اگر برا نہ لگے تو آج کچھ سچی باتیں کر دوں۔ بات عدنان کاکاخیل کی نہیں مسئلہ فکر میں ہے اور وہ فکر کسے نقصان پہنچا رہا ہے اس پہ غور کریں۔

دیکھیں ہم آج تک کہتے آ رہے ہیں کہ مسلح جنگ جائز نہیں اس ملک میں جمہوری جدوجہد چلے گی جو لوگ جمہوری راستے سے ہٹ کے کوئی راستہ اپناتے ہیں مولانا فضل الرحمن ان سے فاصلہ رکھتے ہیں تحریک طالبان پاکستان اور سپاہ صحابہ کی مثال سامنے ہے۔ جب یہ طے ہو چکا کہ ملک میں جمہوریت چلے گی تو اب ہمیں ہر اس فکر کا راستہ روکنا ہوگا جو مذہبی سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ میں بڑی ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ اس وقت مذہبی سیاسی لوگوں کو جتنا خطرہ اپنوں سے ہے غیروں سے نہیں۔

ایک بار پھر معذرت کیساتھ میں پوچھ سکتا ہوں کہ علماء کے فیصلے کے بعد بھی آج تک ضرب مومن اور اسلام اخبار میں جو قصے لکھے جاتے ہیں اس کا فائدہ کسے ہوتا ہے؟ ہماری معصوم نوجوانوں کے اذہان میں جو افکار بٹھائے جا رہے ہیں ان کا نقصان مذہبی لوگوں کے علاوہ کسے ہو رہا ہے؟

کیا آپ کو نہیں معلوم کہ یاسر محمد خان کے نام سے جو شخص کالم لکھتا ہے وہ کون ہے اس کی سوچ کیا ہے؟ ایک ایسا شخص جو عیاش ہے جو اعلانیہ اپنے آپ کو لبرل کہتا وہ یاسر محمد خان کے نام سے ہمارے سادہ لوگوں کا ہیرو بھی ہے اور طالبان کا نمائندہ بھی بنا ہوا ہے۔ اوریا مقبول جان بہت ایماندار سہی لیکن جس فکر کو وہ پھیلا رہا ہے اس کا نقصان کسے ہو رہا ہے؟

\"\"

بھائی اب لکیر کھینچیں جو لوگ مذہبی سیاسی لوگوں سے ہٹ کے کوئی اور سوچ نوجوانوں میں پھیلا رہے ہیں وہ ہمارے نہیں۔ جب ہم یہ بات کرتے ہیں تو آپ لٹھ لے کر ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں، کیوں؟ یہی ہمارا قصور ہے نا ہم کہتے ہیں جمہوریت ہی مسئلے کا حل ہے جو لوگ خواب دکھا رہے ہیں وہ کسی کے اشارے پہ ایسا کرتے ہیں۔ ورنہ انہیں معلوم نہیں کہ یہ دور کون سا چل رہا ہے؟

ارے بھائی ایک وہ لوگ ہیں جو خاموشی سے اپنا کام کر رہے ہیں انہیں کام کرنے دیں۔ جو مدرسہ و مسجد کی چاردیواری تک محدود ہو کے اللہ و رسول کا نام لے رہے ہیں وہ ہمارے سروں کا تاج ہیں لیکن جو لوگ باقاعدہ اخبار و رسائل کی صورت میں نئی نسل کے ذہن میں دنیا پہ قبضے کے خواب بھر رہے ہیں وہ کیسے ہمارے محسن ہیں؟

یا تو کہیں ہم نے ساری دنیا کے خلاف جنگ کرنی ہے اور ہتھیار اٹھانے ہیں، اگر یہ فیصلہ نہیں تو پھر مذہبی جمہوری لوگوں کو نقصان جو فکر پہنچا رہی ہے اسے روکیں۔ عدنان کاکاخیل ایک عالم ہے اس نے صاف کہہ دیا آپ کو غصہ آ گیا غصہ تھوکیں اور پالیسی طے کریں۔ جو جو لوگ مذہبی جمہوری لوگوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔ ان کی فکر کو رد کیا جائے گا۔

ہمارا یہی قصور ہے ہم کہتے ہیں مذہبی جمہوری لوگوں کو کام کرنے دیا جائے نوجوانوں کو آلہ کار نہ بنایا جائے۔ کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے پرامن جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دیا جائے۔ آپ جمہوریت کو کفر کہہ کے کس کی خدمت کر رہے ہیں؟ آپ کہتے ہیں جمہوریت کے راستے اسلام نہیں آنا، یہ سب طاغوت کے ایجنٹ ہیں، اس سے کیا سبق ملتا ہے؟ مولانا فضل الرحمن پہ جو حملے کیے گئے اس کے پیچھے کیا سوچ کارفرما تھی؟ یہی تھی نا جو آج بھی چند اخبارات میں لکھی جاتی ہے۔

اب وقت آ گیا ہے دو ٹوک فیصلوں کا۔ اب لکیر کے آر پار کا وقت ہے۔ آج آپ کا مان ٹوٹا ہے تو کل مزید ٹوٹے گا۔ ابھی سے کڑوے فیصلے کریں اور لکھیں پرامن جمہوری جدوجہد مسائل کا حل ہے۔ جو اس کو نقصان پہنچائے گا اس کے خلاف کھڑیں گے

آپ کشمکش سے تو نکلیں اور نتائج کو دیکھ کر فیصلہ کریں کہ کون آپ کے خلاف چلتا ہے۔ آپ ابھی تک بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں تو گلہ کیسا؟ ایک پوری سوچ کے خلاف تو خاموش رہنا اور عمران کے حق میں ایک بیان دینے پہ سیخ پا ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments