پاکستان، افغانستان اور چائنہ نئی راہیں نئی منزلیں


افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد افغان چائنہ تعلقات میں کافی پیشرفت واقع ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی انخلاء اور علاقے میں سیکیورٹی خدشات ہیں۔ طالبان اور چین کے درمیان کئی سطحوں پر ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور دوستی کے بنیادی اصول طے ہوچکے ہیں۔ چین کی خواہش ہے۔ کہ افغانستان کی سرزمین سے کاشغر میں دراندازی نہ ہو۔ اور طالبان اس بات کی گارنٹی دے کہ ایسٹ ترکستان موومنٹ اور ان جیسے دیگر تنظیموں کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ افغانستان کی سرزمین چین کے خلاف استعمال کریں۔

چند ہفتے پہلے طالبان کے اعلیٰ سطح وفد نے مولانا عبد الغنی برادر کی قیادت میں چین کا دورہ کیا۔ جس میں اعلی قیادت بشمول چین کے وزیر خارجہ سے ملاقاتیں ہوئیں اور چین کو باور کرایا گیا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔ گزشتہ چند مہینوں سے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور پر کئی حملے ہوچکے ہیں۔ جن میں مبینہ طور پر افغانستان کی سرزمین استعمال ہوئی۔ اس لیے سی پیک اور دیگر پراجیکٹ کی سیکورٹی چین کی اولین ترجیح اور خواہش ہے۔

یوں طالبان کی مسلسل یقین دہانیوں سے چین کی دادرسی ہوئی۔ افغانستان میں چین کی دوسری اہم ترجیح معاشی سرمایہ کاری اور وسطی اور جنوبی ایشیا میں چینی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے سڑکوں، بندرگاہوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لیے ”بیلٹ اینڈ روڈ“ کے وسیع اقدام کے ساتھ پروگرام ہے۔ طالبان اور امریکا جنگ کی وجہ سے افغانستان سے گریز کیا گیا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے چینی کمپنیاں تانبے کی کان کی طرح رکے ہوئے منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے بھی کھول رہی ہیں، جو 2008 میں معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے بند ہے۔

آج سے تقریباً تیرہ سال پہلے، چینی فرموں نے لوگر صوبے میں، دنیا کے سب سے بڑے تانبے کے ذخائر میں سے ایک کان کے معاہدے کیے تھے۔ لیکن سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ان ذخائر پر کام شروع نہ ہوسکا۔ اس کی تخمینہ مالیت کم از کم 50 بلین امریکی ڈالر ( 317 بلین یوآن) بنتے ہے۔ دوسرا اہم پراجیکٹ امودریا تیل پراجیکٹ ہے۔ اس پراجیکٹ میں یومیہ 1، 950 بیرل نکالنے کی صلاحیت موجود ہے، جو کہ افغانستان کو خود پائیداری اور معاشی خود مختاری کی طرف مدد فراہم کرے گی۔

افغانستان میں چینی کمپنیاں کوئلے سے چلنے والی بجلی کی مد میں 400 ملین ڈالر سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہیں۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ وہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے ساتھ افغانستان کی تعمیر نو اور ترقی میں چین کی مدد کو ”خوش آمدید“ کہتے ہیں اور چین کو ”افغانستان کا دوست“ کہتے ہیں۔ سی پیک کو افغانستان تک بڑھا کر چین افغانستان اور پاکستان کے درمیان انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مدد کر سکتا ہے تاکہ ان کے معاشی تبادلے کو آسان بنایا جا سکے۔

خصوصاً گزشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی سے متاثر قبائلی علاقوں کو ترقی کی دوڑ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ پشاور اور کابل کے درمیان شاہراہ تعمیر کی جائے گی تاکہ کاروبار کو فروغ ملے۔ اس سے نہ صرف طورخم بلکہ کئی نئی گزر گاہیں بھی تعمیر ہوں گی جیسے واخان، باجوڑ، مہمند، خار لاچی، غلام خان، اعظم ورسک وغیرہ کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ دہشت گردی سے متاثر قبائلی علاقوں میں کاروبار اور روزگار کو فروغ ملے گا۔ جس کی بدولت ان علاقوں میں ترقی ہوگی۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان، چین اور افغانستان مشترکہ طور پر علاقے میں تجارت اور کاروبار کو فروغ دے کر اس خطے سے جہالت غربت اور لاقانونیت کا خاتمہ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments