قومی حمیت کے دعوے دار اب دنیا سے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں


شاہ محمود قریشی کی قیادت میں پاکستانی حکومت کا دنیا کو یہ پیغام ہے کہ اسے افغانستان میں رونما ہونے والی نئی حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے تاکہ اسے ایک نئے بحران سے بچایا جا سکے۔ اب اسی حقیقت کا ایک پہلو افغانستان کے نئے وزیر خارجہ عامر خان متقی نے ایک پریس کانفرنس میں دکھایا ہے۔ انہوں نے پیر کو جنیوا میں ہونے والی ڈونر کانفرنس میں اپنے ملک کے لئے عالمی عطیات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امریکہ سے کہا کہ ’وہ بھی دل بڑا کرے اور کھل کر افغانستان کی مدد کی جائے‘ ۔

سوال تو یہ بھی ہے کہ نام نہاد آزادی کی جد و جہد کرنے والے طالبان نے جس عالمی طاقت کے خلاف بیس برس تک ہتھیار اٹھا کر اور اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کر کے ’جہاد‘ کیا، اب اسی سے کس منہ سے امداد طلب کی جا رہی ہے۔ لیکن سب اس بھیانک حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر طالبان کی حکومت کو کسی بھی طرح کامیاب ہونا ہے تو اسے امریکہ کی سرپرستی اور دنیا کے امیر ملکوں کی مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔ یہ ضرورت کسی فوری بحران پر قابو پانے کے لئے درکار نہیں ہے بلکہ افغانستان مستقل بنیاد پر غیر ملکی امداد کا محتاج ہے کیوں کہ جنگ جوئی کی وجہ سے ملک میں پیداواری ذرائع میں اضافہ نہیں کیا جا سکا اور ملکی معیشت اپنی آبادی کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں ہے۔

امریکہ اور عالمی برادری کی نگرانی میں بنائے گئے آئین اور اس کے تحت قائم ہونے والی حکومتوں نے بھی ملکی ترقی اور خود انحصاری کے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا۔ اس کی جزوی وجہ طالبان کی قیادت میں جاری تشدد اور دہشت گردی کے واقعات تھے جو ایک طرف بیس برس تک غیرملکی فوجوں کے ملک میں قیام کی وجہ بنے تو دوسری طرف ملکی معیشت کو صحت مندانہ بنیادوں پر استوار کرنے کا کام نہیں کیا جا سکا۔ حالانکہ سابق صدر اشرف غنی خود عالمی شہرت یافتہ معاشی ماہر کی شہرت رکھتے ہیں۔ البتہ تصویر کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں جا سکتا کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی قیادت میں کام کرنے والی حکومتوں کے ادوار میں بیرونی وسائل اور امداد کو ذاتی منفعت، بدعنوانی اور گروہوں کے لئے بروئے کار لایا گیا۔ حتی کہ افغان فوج کے نام پر بھی جعلی فوجیوں کی بھرتی کی گئی سرداروں کو خوش کرنے کے لئے ان کے نجی مسلح گروہوں کو عسکری وسائل کی فراہمی سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب امریکہ نے افغانستان سے جانے کا فیصلہ کیا اور طالبان نے مذاکرات کی بجائے طاقت کے زور پر ایک کے بعد دوسرے علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے بالآخر کابل پر دھاوا بول دیا تو اشرف غنی کو فوری طور سے بھاگتے ہی بن پڑی اور طالبان کسی مزاحمت کے بغیر کابل پر قابض ہو گئے۔ حیرت انگیز طور پر تین لاکھ نفوس پر مشتمل ’اعلیٰ تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ‘ سے لیس فوج کا نام و نشان تک نہیں ملا۔

اب افغانستان پر طالبان قابض ہیں اور وہ حکومت چلانے اور عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یعنی اپنے ملک کو ’سلطنتوں کا قبرستان‘ قرار دینے کے دعوے دار افغان پیٹ بھرنے کے لئے کسی بھی ملک سے آنے والی امداد کے منتظر ہیں۔ طالبان اسلامی شریعت کے ترجمان ہونے کے علاوہ افغان روایت اور خود داری کے مبلغ بھی رہے ہیں۔ 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد جب امریکہ نے القاعدہ اور اس کے لیڈر اسامہ بن لادن کو ان حملوں کا مجرم قرار دے کر انہیں اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو طالبان کے امیر المومنین ملا عمر نے افغان مہمان نوازی کی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا تھا۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ملکوں نے بھی طالبان قیادت کو عقل کے ناخن لینے کا مشورہ دیا۔ امریکہ نے بار بار متنبہ کیا اور حملہ کرنے کی وارننگ دی لیکن طالبان لیڈر ’قومی وقار اور حمیت‘ کے نام پر اسامہ بن لادن کے محافظ بنے رہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب دو دہائی کی جد و جہد کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے بقول طالبان ’غلامی کی زنجیریں‘ توڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو غیر ملکی خیرات مانگتے ہوئے یہ قومی حمیت کیا ہوئی؟

افغان وزیر خارجہ عامر خان متقی نے کہا ہے کہ ’جو بھی امداد ملے گی اسے نہایت سلیقے اور ایمانداری سے صرف کیا جائے گا۔ اس امداد سے عوام کی غربت ختم کی جائے گی۔ اسلامی امارات پوری شفافیت سے یہ امداد ضرورت مندوں تک پہنچائے گی‘ ۔ انہوں نے امریکہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ طالبان نے کابل پر قبضہ کے بعد بھی امریکہ کو ایک لاکھ بیس ہزار افراد کو ملک سے نکالنے کی اجازت دی تھی۔ امریکہ ایک بڑا ملک ہے، اسے دل بھی بڑا رکھنا چاہیے۔ یعنی امداد کے خزانے ایک بار پھر افغانستان کے لئے کھول دینے چاہئیں۔ لیکن دوسری طرف دنیا طالبان کی حکومت پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یورپین یونین کے بعد امریکہ کے وزیر خارجہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگرچہ افغان عوام کی معاشی مشکلات دور کرنے کے لئے امداد دی جائے گی لیکن یہ رقم طالبان کے ذریعے فراہم نہیں ہوگی بلکہ اقوام متحدہ کے اداروں اور این جی اوز کے ذریعے براہ راست افغان عوام تک پہنچائی جائے گی۔ طالبان خود مختاری اور قومی غیرت کے تمام تر وعدوں کے باوجود اقوام عالم کے اس مطالبے کو ماننے پر مجبور ہوں گے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں امداد کی ترسیل کی ’شرط‘ بھی قبول کرلی جائے گی۔ حالانکہ اس قسم کی شرطیں قبول کرنا بھی درحقیقت غلامی کے عہد نامہ پر دستخط کرنے ہی کے مترادف ہے۔

اس حوالے سے امریکہ میں منجمد کیے گئے افغان حکومت کے 9 ارب ڈالرز کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ طالبان کے علاوہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی متعدد بار امریکہ سے یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ یہ رقم طالبان کو فراہم کی جائے تاکہ افغانستان کسی بڑے مالی بحران سے بچ سکے اور عوام تک بنیادی سہولت کی چیزیں پہنچ سکیں۔ طالبان اور پاکستان کا یہ مطالبہ اس تناظر میں کرتے ہیں کہ طالبان اب افغانستان کے حکمران ہیں۔ پاکستانی حکومتی ترجمان اسے ہی افغانستان کی ’نئی حقیقت‘ قرار دیتے ہیں۔ اس لئے امریکہ کے بنکوں میں موجود افغانستان کی دولت پر طالبان کا حق سمجھا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے دو نکات البتہ قابل غور ہیں۔ ایک تو یہ رقم کسی افغان حکومت نے اپنے قومی وسائل سے جمع نہیں کی بلکہ امریکہ اور اتحادیوں کی طرف سے دی جانے والی امداد ہی کا حصہ ہے۔ یعنی درحقیقت یہ دولت افغان عوام کی نہیں ہے بلکہ انہیں تحفتاً دی گئی تھی جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ افغانستان کی قانونی حکومت ہی اسے صرف کرنے کی مجاز ہے۔ طالبان کو ابھی تک قانونی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ حتی کہ پاکستان نے بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت تک کابل حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا جب تک طالبان انسانی حقوق، خواتین کے لئے مواقع اور افغانستان کی سرزمین کو ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک کرنے کے بارے میں اپنے وعدے پورے نہیں کرتے۔ گویا پاکستان بھی یہ مانتا ہے کہ طالبان کو اپنی حکومت کا جواز فراہم کرنے کے لئے ابھی عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ طالبان نے عسکری طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کیا ہے۔ کسی ملک کو فتح کرنے کا یہ طریقہ صدیوں پہلے متروک ہو چکا ہے اور اب دنیا اس طریقے سے کسی ملک پر حکمرانی کے طریقے کو قبول نہیں کرتی۔ اسی اصول کی بنیاد پر فلسطینی اور کشمیری عوام اپنی آزادی کی جد و جہد کرتے ہیں۔ افغانستان میں پہلے سوویت فوج اور اس کے بعد امریکہ کی سربراہی میں اتحادی افواج کے خلاف عسکری مزاحمت بھی اسی اصول کے تحت منظم کی گئی تھی۔ طالبان کا گزشتہ بیس سال کے دوران دعویٰ رہا ہے کہ ملک پر غیر ملکی فوجوں کی موجودگی میں کابل حکومت یا دیگر افغان گروہوں سے کوئی سیاسی بات چیت نہیں ہو سکتی۔ دوحہ میں امریکہ سے معاہدہ کرتے ہوئے بھی اسی اصول کو تسلیم کروانے پر اصرار کیا گیا تھا کہ پہلے امریکہ انخلا پر راضی ہو جائے تب ہی بین الافغان مذاکرات ہو سکیں گے۔

گویا طالبان خود یہ اصول مانتے رہے ہیں کہ کسی کو طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کا حق حاصل نہیں ہے۔ تاہم امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے بین الافغان مذاکرات کی بجائے فوجی طاقت کے زور پر افغانستان پر قبضہ کیا ہے۔ طالبان کو نہ تو افغان عوام نے اس مقصد کے لئے منتخب کیا ہے اور نہ ہی طالبان عوام کی رائے ماننے پر آمادہ ہیں۔ وہ تو جمہوری طریقہ کو ہی اسلامی احکام اور افغان روایت کے برعکس قرار دیتے ہیں۔ طالبان کی حکومت ملک پر زبردستی قبضے کے نتیجے میں قائم کی گئی ہے۔ انہوں نے وعدے کے مطابق بین الافغان مذاکرات سے ہی انکار نہیں کیا بلکہ معاشرے کے تمام طبقات کو حکومت میں شامل کرنے کا اپنا ہی وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔

اس وعدہ خلافی کے دو ممکنہ نتائج ہوں گے۔ ایک کا سامنا اس وقت طالبان کر رہے ہیں۔ دنیا طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے، اسی لئے افغانستان کے لئے مالی امداد کے منصوبے شروع ہونے کا بھی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ دوسرا نتیجہ وقت کے ساتھ سامنے آئے گا جب افغان عوام معاشی صورت حال کے علاوہ ملک میں اعتماد کے فقدان کی صورت حال میں طالبان کی زور زبردستی کو ماننے سے انکار کریں گے۔ اگرچہ اس حوالے سے بیرونی مداخلت سے پراکسی جنگجو گروہ کھڑے کرنے کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ خاص طور سے پاکستان کو اندیشہ ہے کہ بھارت، افغانستان میں اپنے منصوبہ میں ناکامی کے بعد ایسی کوئی بھی کوشش کر سکتا ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں بیس سالہ ’قبضہ‘ کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے تھے۔ ملک کا انفرا اسٹرکچر کھڑا کیا گیا۔ تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو جدید دنیا کی سہولتوں اور انفرادی آزادی کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ جس مدت میں طالبان نے گولہ بارود سے تباہی پھیلانے کا کام کیا تھا، افغان شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد طالبانی معاشرے کی بجائے جدید جمہوری خطوط پر استوار معاشرے کی عادی ہو چکی ہے۔ کیا اب طاقت کے زور پر اس خواہش کو دبایا جا سکے گا؟

افغانستان کے بارے میں کسی ٹھوس دلیل کے بغیر کوئی بھی رائے دی جا سکتی ہے کیوں کہ حالات بے یقینی کا شکار ہیں اور ملک میں کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ طالبان کے امیر کا فرمان ہی حتمی قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ طالبان جب کامیابی کے گمان سے باہر نکلیں گے تو انہیں اندازہ ہو گا کہ انہیں صرف دنیا کو ہی اپنی نیک نیتی کا یقین نہیں دلانا بلکہ افغان عوام بھی ان سے جواب طلب کریں گے۔ اس بار طاقت کے زور پر انہیں خاموش کروانا ممکن نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments