جبری مذہب تبدیلی روکنے پر اعتراض کیوں


”دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔“
البقرہ، 2 : 256
(یہ آیت اور ترجمہ وی فتویٰ نامی ایک ویب سائٹ سے کاپی کیا ہے )

متذکرہ بالا آیت قرآن سے لی گئی ہے جس کے مطابق دین اسلام میں کوئی جبر نہیں ہے لیکن پاکستان میں جبری مذہب تبدیلی ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ بن چکی ہے اور ملک میں ہونے والے غیر قانونی و جبری مذہب تبدیلی کے واقعات کو روکنے کے لئے ایک بل متعارف کروانے کی شنید ہے لیکن پاکستان میں ہمیشہ کی طرح بنا جانے اور بنا سمجھے تنقید کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

پاکستان کے ایک سینئر صحافی انصار عباسی کے مطابق پاکستان میں اسلام قبول کرنے کو جرم بنانے کے لیے قانون سازی پر کام ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا ایسا کیسے ممکن ہے لیکن حکومتی ذرائع سے رابطہ کیا تو پتا چلا کہ یہ سچ ہے۔ مذہبی اقلیتوں کی جبری مذہب کی تبدیلی کے نام پر ایک بل بنایا گیا ہے جو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور کے زیر غور ہے اور جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اگر اس بل کو قانون بنا دیا گیا تو اسلام قبول کرنے پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی اور اسلام کی تبلیغ کرنے والے مجرم ٹھہریں گے۔

میں نے بل کی کاپی بھی منگوائی جس کے چیدہ چیدہ نکات میں قارئین کے سامنے پیش کروں گا لیکن مختصراً بتاتا چلوں کہ اس مجوزہ قانون کو اگر لاگو کیا جاتا ہے تو ایک تو کوئی بھی اٹھارہ سال سے کم عمر اسلام قبول نہیں کر سکے گا اور دوسرا اٹھارہ سال سے بڑا کوئی شخص بھی آسانی سے اسلام قبول نہیں کر سکے گا کہ اس کے لیے کچھ ایسی سخت شرائط لگا دی گئی ہیں کہ اسلام قبول کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ ذیل میں بل کے کچھ نکات پیش کر رہا ہوں :

بل کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم، جو بچہ نہیں ہے ( 18 سال سے زیادہ عمر والا شخص) ، اور دوسرے مذہب میں تبدیل ہونے کے قابل اور آمادہ ہے، اس علاقہ کے ایڈیشنل سیشن جج سے تبدیلیٔ مذہب کے سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست دے گا جہاں عام طور پر غیر مسلم فرد رہتا ہے یا اپنا کاروبار کرتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذہب کی تبدیلی کے لیے درخواست موصول ہونے کے سات دن کے اندر انٹرویو کی تاریخ مقرر کرے گا۔ فراہم کردہ تاریخ پر، فرد ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے پیش ہو گا جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ مذہب کی تبدیلی کسی دباؤ کے تحت نہیں اور نہ ہی کسی دھوکہ دہی یا غلط بیانی کی وجہ سے ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج غیر مسلم کی درخواست پر اس شخص کے مذہبی اسکالرز سے ملاقات کا انتظام کرے گا جو مذہب وہ تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے اور ایڈیشنل سیشن جج کے دفتر واپس آنے کے لیے غیر مسلم کو نوے دن کا وقت دے سکتا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج، اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ یہ شرائط پوری ہو جائیں، مذہب کی تبدیلی کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔

جبری مذہب کی تبدیلی میں ملوث فرد کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ ہو گا۔ مذہب کی تبدیلی کے لیے مجرمانہ قوت کا استعمال اس شخص کے خاندان، عزیز، برداری یا جائیداد کے خلاف ہو سکتا ہے بشمول شادی۔ جو شخص (شادی) انجام دیتا ہے، کرتا ہے، ہدایت دیتا ہے یا کسی بھی طرح سے شادی میں سہولت فراہم کرتا ہے ’اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ یا تو دونوں فریق جبری تبدیلی کے شکار ہیں وہ کم از کم تین سال قید یا تفصیل کے مجرم ہوں گے۔ اس میں کوئی بھی شخص شامل ہو گا جس نے شادی کی تقریب کے لیے لاجسٹک سپورٹ اور کوئی دوسری ضروری خدمات وغیرہ فراہم کی ہوں۔

مذہب کی تبدیلی کی عمر:۔ کسی شخص کے بارے میں یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ اس نے اپنا مذہب تبدیل کیا ہے جب تک کہ وہ شخص بالغ ( 18 سال یا اس سے بڑا) نہ ہو جائے۔ جو بچہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے سے پہلے اپنے مذہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا مذہب تبدیل نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اس کے خلاف اس قسم کے دعویٰ کرنے پر کوئی کارروائی کی جائے گی۔ اگرچہ کچھ بھی ان حالات پر قابل اطلاق نہ ہو گا جہاں بچے کے والدین یا سرپرست خاندان کا مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں۔

عدالت کے سامنے جبری تبدیلی کا معاملہ نوے دن کی مدت کے اندر نمٹا دیا جائے گا اور عدالت کسی مقدمے کی سماعت کے دوران دو سے زائد التواء نہیں دے گی، جن میں سے ایک التوا، التوا کے خواہاں شخص کے اخراجات کی ادائیگی پر ہو گا۔ اس بل کے تحت کسی جرم کی سزا یا بریت کے خلاف اپیل متعلقہ ہائی کورٹ کے سامنے اس تاریخ سے دس دن کے اندر پیش کی جائے گی جس دن کورٹ آف سیشن کے منظور کردہ حکم کی کاپی اپیل کنندہ کو فراہم کی جائے گی۔ جبری تبدیلی کے حوالے سے تحقیقات: پولیس سپرنٹنڈنٹ کے درجے سے نیچے کا کوئی بھی پولیس افسر نہیں کرے گا۔

یہ مواد انصار عباسی صاحب کے روزنامہ جنگ کی 13 ستمبر کی اشاعت سے لیا گیا ہے جبکہ ابتداء میں قرآن پاک کا حوالہ دیا گیا ہے۔

پاکستان کے بے شمار مسائل کے ساتھ ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں اسلام بار بار خطرے میں پڑ جاتا ہے حالانکہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ مانا جاتا ہے لیکن پھر بھی یہاں اسلام ہمیشہ خطرے میں کیوں رہتا ہے اس کا جواب آج تک نہیں مل سکا ہے مسلمان اکثریت کے ملک میں مسلمانوں یا اسلام کو کیونکر خطرہ ممکن ہے۔

جہاں تک انصار عباسی صاحب کے پیش کردہ نکات ہیں تو پہلی بات کہ ریاست پاکستان 18 سال سے کم عمر بچے کو شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں دیتی تو مذہب تبدیل کرنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے اور اگر اسلام قبول کرنے والا شخص جج کے سامنے اقرار کرتا ہے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟ اور قبول اسلام تو مسلمانوں کے نزدیک ایک نہایت اہم اقدام ہے اور اس کو چھپایا بھی نہیں جاتا تو بھی عدالت میں بیان دینے میں کیوں پریشانی لاحق ہو رہی ہے اور اگر آپ جبری مذہب تبدیل نہیں کرواتے تو آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ تمام قواعد و ضوابط اور قانونی تقاضوں کو پورا کر کے آپ نے ایک شخص کو پکا مسلمان بنالیا ہے۔

میری 37 سالہ زندگی میں ایک دو نہیں ہزاروں بار مجھے مسلمان دوستوں نے کبھی مذاق تو کبھی دعوت کی نیت سے بلایا لیکن میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ میں ایک کامل مسیحی نہیں بن سکا تو اچھا مسلمان کیسے بن سکتا ہوں اور دوسری بات کہ اگر کوئی واقعی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوا ہے تو بتانے میں کیا مسئلہ ہے جبکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے پیغام سے متاثر ہو کر مزید غیر مسلم بھی مسلمان ہوجائیں۔

پاکستان میں مذہب تبدیلی کے 99 فیصد واقعات جبری ہوتے ہیں۔ نوعمر بچیوں کو اغواء کر کے پہلے ان کی عصمت دری کی جاتی ہے بعد میں انہیں بری طرح ڈرا دھمکا کر اپنی مرضی کا بیان لیا جاتا ہے جبکہ پولیس اور عدالت بھی مجرموں کا ساتھ دیتی ہے اور اگر بالفرض محال کسی بچی کو شیلٹر ہوم بھیج بھی دیا جائے تو وہاں اس کے اہل خانہ سے ملوانے کے بجائے مغویہ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور یوں ایک معصوم بچی صرف جنسی تسکین کے لئے غیر انسانی رویوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔

میں نے کئی برسوں کی صحافت کے دوران صرف 10 سے 14 یا 15 سال کی نوعمر نابالغ بچیوں کے قبول اسلام کی خبریں ہی دیکھی، سنی یا بنائی ہیں اور آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ اسلامی تعلیمات سے صرف نوعمر بچیاں ہی کیوں متاثر ہوتی ہیں اور بالآخر کیوں باپ سے بڑی عمر کے مرد 10، 12 یا 14 سال کی بچیوں سے ہمیشہ شادی ہی کرتے ہیں کبھی یہ مرد ان بچیوں کو قبول اسلام کروا کر اپنی بیٹیاں بنائیں تو ہمیں بھی دکھائی دے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا اور ایک اور اتفاق یہ ہے کہ کبھی ہندو یا مسیحی لڑکے  نے مسلمان لڑکی کے لئے اسلام قبول کیوں نہیں کیا۔ اگر آپ کے پاس کوئی مثال ہے تو بتائیں۔

پاکستان میں مسلمانوں کو پوری اجازت ہے کہ مسیحیوں، ہندوؤں یا کسی بھی مذہبی اقلیت کو جو مرضی کہیں، لیکن جہاں سوال کیا جائے وہاں سنگین الزام لگادیا جاتا ہے۔ پاکستان میں آج تک توہین مذہب کا ایک بھی کیس ثابت نہیں ہوسکا کیونکہ پاکستان میں غیر مسلموں کی بہنوں بیٹیوں کی عزت پامال کرنے سے روکنے پر توہین مذہب کے فتوے لگ جاتے ہیں اور لیکن مولوی عزیز الرحمان جیسے لوگ جو مدرسہ میں بیٹھ کر انتہائی گھناؤنا کام کریں اور بعد میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسمیں کھائیں اور بعد میں جرم کا اقرار کر لیں اس پر کسی مسلمان کو کوئی فرق پڑتا ہے نا اسلام خطرے میں آتا ہے۔

آج اگر دنیا میں مسلمانوں کے لئے منفی جذبات پائے جاتے ہیں تو اس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ خود مسلمان ہیں، آپ کے قول و فعل میں تضاد ہے، آپ کا مذہب کہتا ہے کہ دین میں جبر نہیں تو اگر آپ سچے ہیں تو پھر آپ کو پریشانی کیوں ہے، آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ایک قانون بننے سے اگر کوئی واقعی اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہوا ہے تو اس کو قابل تقلید مثال بنائیں کیونکہ جب تک ایمان لانے والے بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی نہیں بتائے گا جبری مذہب تبدیلی کا یہ داغ دور نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments