سندھی روایت، امداد پتافی کی ہنسی اور نصرت کی بھیگی آنکھیں


  \"\"سندھیوں کی بہت قدیم روایت ہے کہ خاتون کو چادر پہنانے کا مطلب اسے ماں یا بہن کا درجہ دینا ہوتا ہے۔ جبکہ چادر دینے والے کی نیت میں فتور کا شبہ ہو تو چادر لینے سے انکار کے حق کی رسم بھی موجود ہے۔ یہاں تذکرہ ہے جمعہ کے روز سندھ اسمبلی میں پیش آنے والے واقعے کا۔ لاکھوں افراد کی جانب سے چنے جانے والے رکن اسمبلی کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایسے میں لفظوں پر عبور اور ناپ تول کر بولنے والے رکن اسمبلی کی عزت ہر دل میں بھی ہوتی ہے اور ایوان میں بھی۔ جمعہ کے روز سندھ اسمبلی میں دوسری دفعہ ایم پی اے منتخب ہونے والے وزیر برائے ورکس اینڈ سروسز امداد پتافی وقفہ سوالات میں مسلم لیگ فنکشنل کی رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ نصرت سحر عباسی نے امداد پتافی سے انگلش میں جواب دینے کی درخواست کی۔ جس پر قائم مقام اسپیکر نے بھی انہیں کہا کہ آپ انگلش میں جواب دیں۔ امداد پتافی نے اپنا عجز بیان چھپانے کے لیے خوب ہاتھ پاّوں مارے لیکن دال نہیں گلی۔ نصرت سحر کے بار بار اصرار پر امداد پتافی نے چند غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی الفاط کا چناو کیا۔ جو شاید ان کی سیاست میں عدم بلوغت کا ثبوت تھے۔ پہلے نصرت سحر عباسی کو اپنی ٹیوٹر ہونے کا طعنہ دیا اور پھر آپے سے ایسے باہر ہوئے کہ مقدس ایوان کا احترام بھول کر بے دریغ کہہ دیا کہ انگلش سننی ہے تو چیمبر میں آ جائیے گا۔ جس پر نصرت بانو نے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا بلکہ جہاں تک کہہ دیا کہ چیمبر میں اپنی ماں بہنوں کو بلائیے گا۔ افسوس کا عالم یہ تھا کہ کسی اور خاتون رکن نے اس وقت ان کا ساتھ نہ دیا جبکہ قائم مقام اسپیکر شہلا رضا اس وقت اجلاس کی صدارت کر رہیں تھیں جن کے منہ سے بھی ایک ایسا جملہ نہ نکل سکا جو نصرت سحر عباسی کی داد رسی کر سکتا۔

بات میڈیا کی زینت بنی تو احساس ندامت دلانے والوں میں سب سے پہلے بختاور بھٹو کی جانب سے امداد پتافی کے \"\"روایے کے خلاف ٹویٹ کیا گیا۔ جبکہ نصرت سحر کی جانب سے امداد پتافی کو ہٹانے کے لیے دو دن کا الٹی میٹم دیا گیا۔ سوموار کے روز جب نصرت سحر عباسی اسمبلی میں پہنچی تو ان کے ہاتھ میں پٹرول کی بوتل تھی انہوں نے باقی ارکان اسمبلی سمیت احتجاج ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ امداد پتافی کے الفاظ نے ان کی دل آزاری کی ہے یہاں تک کہ ان کے گھر والوں نے انہیں سیاست سے علیحدگی کے لئے کہہ ڈالا ہے ۔ انہوں نے کہا اگرمجھے انصاف نہ ملا تو میں آخری حد تک جاوّں گی۔ جبکہ نصرت سحر نے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو سے بھی انصاف کے لیے اپیل کی تھی جس پر بلاول بھٹو نے بھی آخر کار واقعے کا نوٹس لیا۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا۔ قائم مقام اسپیکر شہلا رضا نے امداد پتافی کو بولنے کی اجازت دی تو اپوزیشن نے خوب ہنگامہ آرائی کی۔ اجلاس دس منٹ کے لیے موخر ہوا جس کے بعد امداد پتافی نے اسپیکر روسٹرم کے سامنے اپنے الفاظ پر معافی مانگتے ہوئے سندھی راویت کا خوب سہارا لیا اور نصرت سحر عباسی کو چادر پہنا کر اپنی بہن بنا لیا۔ بھیگی آنکھوں سے نصرت سحر نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے روایت کی لاج رکھی اور چادر پہننے کے لیے اپنا سر آگے کیا جبکہ امداد پتافی کے لبوں پر ہنسی مضحکہ خیز تاثر چھوڑ رہی تھی۔ تاہم صنف نازک نے عزت ملتے ہی ہر بات کو دل سے نکالتے ہوئے چادر کا بھرم رکھتے ہوئے معاملے کو رفع دفع کر دیا۔ جبکہ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نصرت سحر نے کہا کہ اس واقعے سے پیپلز پارٹی کو سبق لینا چائیے۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ امداد پتافی چادر پہناتے ہوئے دل میں کیا سوچ رہے تھے مگر ان کی ہنسی تو بظاہر یہی بیان کر رہی تھی کہ وہ یہ سب محض پریشر میں کر رہے ہیں۔ دوسری اراکین اسمبلی کی طرف سے ڈیسک بجانے کی آواز ضرور نصرت سحر عباسی کی جیت کا جشن تصور ہورہی تھی۔

\"\"اس معاملے پر میڈیا نے بھی خوب نظر جمائے رکھی۔ سکھر میں سوموار ہی کے روز اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے سنئیر رہنما خورشید شاہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے امداد پتافی کی معافی کو تو خوش آئند قرار دیا تاہم شاید سندھ اسمبلی کے رکن کی معافی کا معاملہ انہیں زیادہ بھایا نہیں اور نصرت سحر عباسی پر چھپے لفظوں میں طنز کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تو عمران خان پٹرول کی بوتل لیکر نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کر دیں گے۔ موصوف نے یہ بھی کہا کہ امسبلی میں ایسی باتیں ہوتی رہتیں ہیں۔ انہیں کوئی امداد پتافی کے کہے گئے یہ الفاظ سنائے کہ کہ مجھے سے دانستہ نہیں بلکہ ناسمجھی میں یہ غلطی سرزد ہوئی ہے، جس پرمیں غیر مشروط معافی کا طلبگار ہوں۔ جناب خورشید شاہ صاحب کو لاکھوں افراد چن کر اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں۔ کاش یہ لوگ بھی کہہ سکیں کہ امداد پتافی کو ووٹ دے کر ہم سے دانستہ نہیں بلکہ ناسمجھی میں غلطی ہوئی ہے، جس پر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں اور آئندہ اس سیٹ پر سندھیوں کے کسی حقیقی ترجمان کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ وام جن کو مینڈیٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں وہ ہمارے ملک، ثقافت، مذہب اور روایات کے علمبردار ہوتے ہیں۔ انہیں چائیے کہ ایسا طرز زندگی اپنائیں جو تاریخ میں اچھے لفظوں میں لکھا جاسکے نا کہ ان باتوں کا تذکرہ آنے والی نسلوں کو شرمندہ کرتا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments