امارات اسلامی کی اجتہادی غلطی


دور جدید میں کسی بھی ملک کی خود مختاری اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے مضبوط معاشی ریاست کا ہونا ضروری ہے۔ یہ مملکت کو فلاحی ریاست بنانے کے لئے اہم کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ 102 برس کی 3 جنگوں کے بعد افغانستان کو قیام امن کے لئے سنہرے دور کے آغاز کا ایک بہترین موقع ملا۔ عالمی برادری سے سفارتی تعلقات اور خطے میں افغانستان کی اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے عالمی برداری سے اپیل کی وہ اس ملک کے لئے عطیات دیں کہ انسانی ہمدردی کی مدد کے لئے لاکھوں ڈالر کی ضرورت ہے۔

امریکہ نے اپنے زیر اثر بنکوں میں افغان حکومت کے 20 ارب ڈالر کے اثاثے منجمد کردے، اگر ان اثاثوں کو منجمد کرنے کے بجائے نئی افغان عبوری حکومت کا حق انہیں دے دیا جائے تو افغان عوام کو پریشانی کم ہو سکتی ہے لیکن عالمی برادری افغانستان کے ساتھ صدقے خیرات کے نام پر دی جانے والی مالی امداد کے نام پر دباؤ کی ایک ایسی پالیسی کو اختیار کیے ہوئے ہیں کہ وہ چاہتی ہیں کہ طوعاً کرہا نئی افغان عبوری حکومت ان کی منشا کے مطابق چلے۔

گزشتہ دنوں امریکہ نے ہی افغانیوں کے لئے ڈونر کانفرنس کا انعقاد کرایا، جس میں افغانستان کے لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک ارب 26 کروڑ ڈالر سے زائد امدادی رقوم کے وعدے کیے گئے۔ اسے مثبت اقدام قرار دیں گے لیکن گھوم پھیر کر بات وہیں پر آجاتی ہے کہ عالمی امدادی رقوم براہ راست افغان حکومت کو نہیں ملے گی بلکہ عالمی امدادی تنظیموں کے توسط سے عوام پر خرچ کی جائے گی، اس کا پہلا تاثر یہی دیا جائے گا کہ افغان طالبان جنگ تو کر سکتے ہیں لیکن معاشی چیلنجز کو دور کرنے کی صلاحیت ان میں موجود نہیں اور اگر کچھ عرصہ یہی صورت حال رہی تو عوام تنگ آمد بجنگ آمد، نئی افغان حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ افغان حکومت نے طویل مشاورت کے بعد عبوری سیٹ اپ میں جن شخصیات کا تقرریاں کیں، ان سب کا تعلق تحریک امارات اسلامیہ افغانستان سے ہے، نسلی بنیادوں پر کلیدی تقرریاں کر کے انہوں نے ظاہر کرنے کی کوشش ضرور کی کہ کابینہ میں ازبک، تاجک، ہزارہ اور پشتون بھی ہیں، لیکن وابستگی تو افغان طالبان سے ہی ہے۔

نئی عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے دو لائحہ عمل ان کے سامنے تھے کہ ماضی کی طرح تنہا حکومت سازی کریں اور اپنے محدود وسائل کے ساتھ ملک کا نظام و انصرام چلائیں، ملا عمر مجاہد مرحوم نے یہ کر چکے تھے، گو کہ ان کی مالی امداد مسلم اکثریتی ممالک کر رہے تھے، لیکن اس وقت مکمل افغانستان پر ان کا مکمل کنٹرول بھی نہیں تھا اور وہ چند حصوں تک ہی محدود تھے، اس لئے انہیں دنیا سے مالی امداد کی ضرورت نہیں پڑی۔ اب افغان طالبان نے جنگ کے نت نئے طریقے، سفارت، سیاست بھی سیکھ لی ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر انہیں عالمی برداری سے تعلقات بحال رکھنے ہیں تو عبوری دور کے تقاضوں کے مطابق چلنا ہو گا، انہوں نے کئی معاملوں میں ماضی کے بہ نسبت اپنا امیج مثبت ظاہر کرنے کے اقدامات کیے ، جانی دشمنوں کو عام معافی دی، سرکاری ملازمین کو تحفظ اور تنخواہوں کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی، شخصی آزادی کی ضرورت پر زور دیا، کیمروں کے سامنے بیٹھ کر اپنا دفاع کیا، کابل ائر پورٹ کو فعال کرانے کے لئے قطر اور ترکی سے تکنیکی امداد حاصل کی، چین کو گیم چینجر قرار دیا، ایران سے قربتیں بڑھائی، پنج شیر جھڑپ میں تحفظات سامنے آئے لیکن یہ کسی بھی ریاست کے لئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ اس کی رٹ کو تسلیم نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ شمالی مزاحمتی اتحاد سے مذاکرات میں ناکامی کے بعد رٹ قائم کی جس سے کچھ ممالک کو تکلیف بھی ہوئی۔

این جی اوز نے خواتین کا کندھا استعمال کر کے عبوری حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے کرائے، چونکہ امارات اسلامی کی مسلح دستوں کی تربیت ہر ملک کے فوجی کی طرح، بلکہ بڑھ کر ہے، اس لئے انہیں عوام کے ساتھ گھل ملنے اور نصیحتوں کے لئے نہیں، بلکہ دشمن اور مخالفین کے خلاف سخت گیر تربیت دی گئی اس لئے دو دہائیوں بعد مسلح فوجیوں کے نزدیک افغان روایات و ثقافت کے برعکس خواتین کے مظاہروں سے جو ردعمل آ تا رہے گا جو فطری ہو گا، جو کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔

افغان طالبان سیاسی ونگ  ایک حکمت عملی کے تحت افغان باحجاب خواتین سڑکوں پر لائے اور امارات اسلامی کے حق میں ریلی اور تقاریر ہوئیں، لیکن ان کی اس پیش رفت کو نئے برقعے کے عجیب ڈیزائن نے دنیا کی توجہ حاصل کر کے پانی پھیر دیا کہ ایسا پردہ تو پوری دنیا میں بالخصوص افغانستان کی ثقافت میں بھی نہیں، اصل مقصد گم ہو گیا تو ایک مرتبہ پھر افغان روایت کے مطابق مروجہ توپ برقعے و حجاب میں خواتین کی بہت بڑی ریلی نکالی گئی اور عالمی برداری کو باور کرایا گیا کہ لبرلز و سیکولر طبقے سے زیادہ خواتین اسلامی امارات کی خواہش مند ہیں، لیکن یہاں ان ریلیوں و احتجاجی مظاہرے کے موازنہ کرنے کا مقصد نہیں بلکہ افغان طالبان کی نئی سوچ کو سمجھنا ہے کہ وہ عالمی سیاست کے تمام گر سمجھ گئے ہیں اور جو خواتین کی آواز بھی نامحرم کو سنائی دینے پر بھی یقین رکھتے تھے، اب سینکڑوں خواتین کی اخلاقی مدد اس لئے حاصل کی کیونکہ انہیں عالمی برداری میں تنہا نہیں رہنا اور افغانستان کی تعمیر نو اور بہتر مستقبل کے لئے ان ہی ممالک سے مالی امداد کی ضرورت ہے جو ایک دوسرے کے خلاف گزشتہ 102 برسوں سے لڑتے رہے۔

جنگ ختم ہوئی امن کا دور شروع ہوا، جرائم میں کمی آئی، تشدد کا خاتمہ ہوا، خانہ جنگی اپنی اختتام کو پہنچی اور عالمی برداری کو خیر سگالی کے پیغامات بھیجے گئے، لیکن یہاں عبوری حکومت کی تشکیل میں ان سے ایک اجتہادی غلطی ہوئی۔ اجتہادی غلطی اس لئے کہ جب عالمی برداری سے امداد و سفارتی تعلقات کے طلب گار اور معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں دقت کا سامنا ہے، نیز کوئی ایک یا دو ممالک اب افغان مملکت کا اتنا بھاری بوجھ کو نہیں اٹھا سکتے کہ یومیہ 29 کروڑ ڈالر خرچ کریں، چین اپنے مفادات کے لئے کسی حد تک تعاون کر سکتا ہے، لیکن افغانستان کو گود لے کر امریکہ کے بعد پوری دنیا کو اپنا دشمن نہیں بنا سکتا، اس لئے عبوری دور میں کم ازکم ایسی قابل قبول شخصیات بالخصوص دو تین خواتین کو شامل کیا جاسکتا تھا جن کا تعلق کم ازکم افغان طالبان سے نہ ہوتا تو یہ ان کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments