امن اور عدم تشدد


اکیس ستمبر امن کا عالمی دن تھا جو خاموشی سے یعنی امن سے گزر گیا۔ دو اکتوبر کو عدم تشدد کا عالمی دن ہے اور امید قوی ہے کہ وہ بھی خیر و عافیت سے گزر جائے گا۔ امن اور عدم تشدد ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ امن کے ساتھ اگر بد کا سابقہ لگا کر ”ن“ کے ساتھ چھوٹی ”ی“ کا اضافہ کر دیا جائے اور تشدد سے عدم کا سابقہ ہٹا دیا جائے تو دونوں الفاظ اس سے پہلے جو معنی دے رہے تھے وہ بالکل نہیں دیں گے اور دونوں بد امنی اور تشدد پر اتر آئیں گے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امن اور تشدد انسان کی فطرت میں ہیں یا یہ جبر و اختیار کے نتیجے میں رونما ہوتے ہیں؟ یہ بات تو طے ہے کہ امن انسان کی فطرت کا حصہ ہے کیونکہ انسان کی تخلیق اور پیدائش یہ واضح کرتا ہے کہ وہ امن پسند ہے۔ کیونکہ انسان کی تخلیق کا جو مادہ ہے وہ مادے کی تین صورتوں میں سے ایک صورت ”مائع“ کی ہے اور دوسرے جب وہ اس روئے زمین پر آتا ہے تو وہ مہا کا نحیف، کمزور، معصوم، بے بس لاچار، نہتا اور دوسروں پر انحصار کرنے والا ہوتا ہے تو یہ امن انسان کی فطرت کا جز ہے جبکہ تشدد انسان کی فطرت کا حصہ نہیں۔

یہ انسان اس دنیا کے لوگوں کے رویوں، امتیازات، اختیارات، جبر اور طاقت کے غلط استعمال کے نتیجے میں اپنی عادات، اطوار، مزاحمت، اور دفاع کی صورت میں اپناتا ہے۔ جن کو بعد میں موقع محل کے ساتھ مختلف ناموں، القابات، خطابات، الزامات اور خرافات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ تشدد، امن کی سرحدات اور مقبوضات کے چھیڑنے، ادھیڑنے، جکڑنے، پکڑنے، ہتھیانے اور لٹانے کے نتیجے کا دین ہے۔ امن کے لفظ کا آغاز ہی الف سے ہونے اور مختصر ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہ لفظ خود میں مکمل اور پورا ہے۔

امن کو کسی کی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب کچھ نہیں ہوتا ہے وہی امن ہوتا ہے۔ امن کا کسی چیز سے تعلق نہیں ہوتا ہر چیز کا تعلق امن سے ہوتا ہے۔ چھیڑ چھاڑ، ادھیڑ کدھیڑ، جکڑنے پکڑنے، ہتھیانے لٹانے کے بغیر بھی امن خود کو قائم کر سکتا ہے جبکہ یہ سب مل کر بھی امن کو قائم نہیں رکھ سکتا۔ کسی کے وسائل دبانا، کسی کے مسائل بڑھانا اور کسی کے اختیارات چھیننا اور ان پر دھونس دھمکی اور بزور شمشیر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا از خود تشدد کو ابھارنا ہے۔

تشدد کسی انہونی چیز کا نام نہیں۔ متشدد کوئی بھی ہو سکتا ہے اس کا تعلق کسی نظام سے نہیں ہوتا بلکہ یہ انسانی رویوں میں پنہا ہوتا ہے جو ان کے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت کے نام پر کئی ممالک میں اس وجہ سے گیا کہ وہاں وہ جمہوریت لا رہا ہے لیکن دیکھنے کو وہاں کیا ملا جلاؤ گراؤ، دھماکے، خودکش حملے بدامنی اور بالآخر انخلا۔ حال ہی میں انخلا کے دوران امریکہ نے کابل کے آبادی پر ڈرون حملہ کیا اور ایک گھر میں پر امن مکین جل بھن کر راکھ اور خاکستر ہو گئے۔

اس وقت امریکہ کا موقف تھا کہ یہ دہشت گردوں پر حملہ تھا لیکن کل پرسوں امریکہ ہی کے سی۔ آئی۔ اے کے ڈائریکٹر سوری کر کے مان گئے کہ ہم سے غلطی ہوئی تھی اس طرح برطانوی وزیر اعظم نے عراق پر جانے یا حملہ کرنے اور امریکہ کا ساتھ دینے پر معذرت کی تھی۔ لیکن کیا کمزور ہونے کا یہ مطلب ہے یا طاقتور ہونے کی یہ تشریح ہے کہ طاقتور کمزور کو مارے، تباہ برباد کرے اور بعد میں زبانی جمع خرچ معافی مانگ کر بات کو ختم سمجھے، لیکن جب اپنی بات ہو تو دوسرے ممالک میں جا کر اپنا ملزم یا اپنے بندوں کے قاتل کو وہاں سے پکڑ کر پھانسی چڑھایا جائے یا سمندر برد کیا جائے۔

کیا دنیا کے دانشوروں میں یہ جراءت اور صلاحیت ہے کہ وہ امن اور تشدد کے مابین طاقتور اور کمزور کے درمیان ایک خط کشید کرے اور اس پر تیر کا نشان لگا کر طاقتور کو متشدد اور کمزور کو پر امن کہے۔ اور پھر یہ یہ بھی ایک سوال ہے اور یہ بھی ایک فلسفہ ہے کہ کیا شیر بھی پر امن ہو سکتا ہے اگر شیر پر امن ہو جائے تو وہ تو بھوک سے مر جائے گا اور کیا بھیڑ یا بکری بھی متشدد ہو سکتی ہے اور اگر بھیڑ یا بکری متشدد ہو جائے تو انسانی المیہ پیدا یو جائے گا۔

دنیا ہمیشہ سے دو قوتوں کے درمیان تقسیم ہوتی ہوئی آئی ہے ایک غالب اور دوسرے مغلوب۔ غالب تشدد کرتا ہے اور مغلوب تشدد سہتا ہے یا با الفاظ دیگر پر امن رہتا ہے لیکن جب کبھی اس پر امن قوت کو موقع ملا ہے تو پھر یہ تشدد پر اتر آیا ہے اور غالب مغلوب ہو کر پرامن مفکورے کا حامی نظر آیا ہے۔ تو ان تمام بحث کا حاصل یہ کہ حضرت انسان برخود فطرتاً متشدد واقعہ نہیں ہوا ہے بنیادی طور پر یہ پر امن ہے لیکن طاقت، اقتدار، زور، وسائل اور توسیع پسندانہ رویوں نے انھیں متشدد، غاصب، غالب قاتل جابر، عامر اور انتہا پسند بنایا ہے۔

لیکن دوسری جانب وسائل، طاقت، زور، اقتدار توسیع پسندانہ رویہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ متشدد، غاصب، غالب، قاتل، جابر، عامر اور انتہا پسند انسان پر امن ہے۔ باچا خان ہمارے دھرتی کے اس فلسفے کے روح رواں تھے اور اب بھی لاکھوں لوگ ان کے اس فلسفے کے پرچارکھ ہیں لیکن باچا خان کا ایک مقبول اور منقول قول ہے کہ اگر آپ نے کسی کو ناپنا یا جاننا ہو کہ وہ کتنا ترقی یافتہ اور عدم تشدد کا علمبردار ہے تو دیکھیں کہ ان کا خواتین کے ساتھ رویہ کیسا ہے۔

میرے خیال سے اگر ہم ان کے یہی ایک قول پر بھی خود کو تولیں تو ہم من حیث القوم ایک شیر شاہی کے برابر بھی نہیں گو کہ انھوں نے یہ بات اپنے ہی گھر سے شروع کی تھی اور کر کے دکھایا۔ آئیں آج ہم بھی یہ عہد کریں اور اپنے ہی گھر سے اس عمل کی شروعات کریں اور پہلے پہل اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ کم از کم ان کے جائز حقوق پر تو ان کا راستہ نہ روکیں، ان کے خلاف متشدد نہ بنیں اور ان کا وسیلہ یا ساتھی بن کر امن کے فطری علمبردار ہونے کا ثبوت دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments