میں گل خان کا ہم نوا ہوں


\"\"اس دنیا میں آتے ہی جب پہلے پہل میں نے سیکھنا شروع کیا، تب میں پوچھنے کی صلاحیت سے عاری جبکہ سیکھنے کی صلاحیت سے بھر پور تھا۔ وقت گزرتا گیا اور میں نے سیکھا کہ میرا مذہب اسلام تمام مذاہب میں سے انتہائی افضل ہے۔ میں اپنے مذہب کے زریں اصولوں سے واقف ہو تا چلا گیا۔ میرے گاﺅں کے مولوی صاحب نے کافی دنوں کی کوششوں کے بعد مجھے نماز پڑھنا سکھایا اور میں نے بالاخر نماز پڑھنا شروع کر دی۔ یہ بھی انھی کی مہربانی تھی، جو انھوں نے مجھے انگریز کافروں کے بارے میں بتایا، امریکہ سمیت دوسرے کافر ممالک کے خلاف جہاد کا صحیح راستہ بتایا۔ جس دن مولوی صاحب نے مجھے اسکول کے غیر اخلاقی اور غیر اسلامی تدریس کا بتایا تو مجھے اپنے پانچویں جماعت کے اساتذہ زہر لگنے لگے اور کئی بار ہمارے بیچ لڑائی ہوئی۔ پرائمری کے بعد میرے والد نے مجھے شہر پڑھنے بھیج دیا اور میں نے مولوی صاحب کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا، جس کا مجھے انتہائی افسوس ہے۔

شہر کے اسکول میں پڑھتے وقت مجھ پہ انکشاف ہوا کہ مولوی صاحب کا اکلوتا بیٹا بھی اِسی شہر کے ایک بڑے کالج میں زیر تعلیم ہے، مولوی صاحب سے کئی ملاقاتوں کے باوجود بھی ان سے روحانی وابستگی کے باعث میرے ذہن میں یہ سوال نہ آیا کہ ان سے پوچھوں، \”مولوی صاحب! آپ کے بیٹے کی تعلیم ایک غیر اسلامی مکتب سے کیسے ؟ \”

وقت گزرتا گیا اور میرے معاشرے نے مجھے ایک ہمسایہ ملک سے نفرت کرنا سکھایا جو نہ صرف اسلام بلکہ میرے ملک کا مخالف ہے ۔ میں مطالعہ پاکستان پڑھتے بڑا ہوتا گیا اور عظیم فوج سے محبت کا جذبہ بڑھتا گیا ۔ میں کالج میں داخل ہوا، جہاں کا ماحول قدرے مختلف تھا۔ یہاں دوسرے کافر سے زیادہ اپنے ہی ایک مسلمان فرقے سے نفرت کا جذبہ میرے اندر پیدا کرنا میرے ہی کچھ سیںیئرز کی بدولت ہو پایا۔ کالج سے فارغ ہونے تک میں ملحدین اور توہیں رسالت کے بارے میں جان چکا تھا ، انہی ایام میں جب سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا تو مجھے دلی خوشی ہوئی مگر میرے ذہن میں ایسا کوئی سوال نہ آیا کہ ممتاز قادری نے خود کو قانون سے بالاتر سمجھ کر بغیر ثبوت کے ایک شخص کو کیوں قتل کیا؟

ملک میں جب بھی کوئی خود کش حملہ ہوتا تو میں اُس کا ذمہ دار ایک ہمسایہ ملک اور اپنے ملک کے لبرل، ملحد، آزاد خیال لوگوں کو سمجھتا، جن کے گناہوں کی وجہ سے خدا کا قہر ہم پہ نازل ہوتا تھا۔ مگر میرا ذہن یہ سوال کرنے سے عاری ہوتا کہ ہمارے ریاستی ادارے کس کی حفاظت کے لئے موجود ہیں؟ حملے کے ایک گھنٹہ بعد اگر حملہ آوروں کا پتہ لگ سکتا ہے تو حملے سے پہلے کیوں نہیں؟

پھر ایف ایس سی میں تھرڈ ڈویژن لیںے کی وجہ سے تعلیمی راستہ وہیں چھوڑنا پڑا کیونکہ نہ تو میرے والد کو مجھ پہ اور نہ ہی مجھے خود پہ یقیں رہا ۔ میں وقت کی لہروں پر سوار آگے بڑھتا گیا ، میرے اندر سوال کرنے کا ہنر پیدا ہوتے ہی دم توڑ چکا تھا، شاید جارج بائرن نے سچ ہی کہا تھا کہ \”جو لوگ سوال نہیں اٹھاتے وہ منافق ہیں، جو لوگ سوال کر نہیں سکتے وہ احمق ہیں، جن کے ذہن میں سوال ابھرتا ہی نہیں وہ غلام ہیں۔\” میں بھی ایسا ہی ایک غلام تھا جو خود تو سوال نہ کر پاتا مگر جب کوئی دوسرا سوال کرتا تو میں اسے ملک دشمن ، اسلام دشمن ٹھہراتا اور اس کے لاپتہ ہونے پر جشن مناتا!

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ سلمان حیدر اور دیگر بلاگرز کو اغوا کیا گیا، غصہ تو تب آیا جب مجھے پتہ لگا کہ وہ توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ ہر ایک اپنے تعصب کی عیںک سے دوسرے کے خیالات و نظریات کو دیکھتا ، پرکھتااور تجزیہ کرتا ہے، میں نے بھی تعصب کی عیںک لگا کر بنا کوئی ثبوت مانگے انہیں ’کافر‘ ٹھہرا دیا۔ پھر کچھ دن میں انھی کافروں کے خلاف اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹ پہ لکھتا رہا۔ میرے فالوورز میں ایک گھوسی ہے جو بھیںسوں کا دودھ ملاوٹ کر کے بیچتا ہے ، ایک کلرک ہے جو مسجد کی پہلی صف میں کھڑا ہونے کے باوجود رشوت لیتا ہے، ایک سرکاری ملازم ہے جسے ڈیوٹی کرنے کی جگہ معلوم نہیں پر تنخواہ لیںے کی جگہ معلوم ہے۔ ایک مُلا ہے جسے تمام دہشتگرد حملے صحیح لگتے ہیں۔ ان سب نے میرے موقف کی تائید کی، جس سے میرا حوصلہ بڑھا اور اب یہ عالم ہے کہ میں بلاگرز کی موت کے انتظار میں ہوں اگر وہ خوش قسمتی سے بچ بھی گئے تو میرے اندر کا جوشیلا مسلمان انھیں جہنم واصل کروانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments