دہشت گردوں  سے معانقہ  کر کے پاکستان  کو کیا ملے گا؟


وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے   تصدیق کی ہے کہ حکومت افغان طالبان کی مدد سے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کررہی ہے۔ اگر مذاکرات کامیاب ہوگئے تو یہ عناصر ہتھیار پھینک دیں گے اور پاکستان انہیں معاف کردے گا تاکہ وہ عام شہریوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔    تحریک طالبان پاکستان نے  گزشتہ  برسوں میں پاک فوج کے علاوہ سول  آبادیوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے ہاتھ ہزاروں پاکستانی معصوموں کے خون سے رنگے ہیں۔

ترک ٹی وی  ’ٹی آر ٹی‘  کو  ایک خصوصی انٹرویو میں عمران خان کے اس انکشاف کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے  اس حکومتی اقدام کو شہیدوں کے خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ پارٹی لیڈروں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ  اس اہم معاملہ پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے اور سرکاری حکمت عملی کے بارے  میں تفصیلات بتانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ نہ ہی یہ واضح ہے کہ حکومت کن عناصر کے ساتھ کون  سی شرائط پر بات چیت کررہی ہے۔   ترک ٹیلی ویژن  کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کا تفصیلی انٹرویو تو ہفتہ کی شام کو نشر ہوگا تاہم اس انٹرویو کے جو تراشے منظر عام پر آئے ہیں ، ان میں وزیر اعظم نے ترک صحافی کو بتایا کہ’ پاکستان افغان طالبان کے تعاون سے ٹی ٹی پی کے بعض گروہوں سے مذاکرات کررہا ہے۔ اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوگئے تو یہ لوگ ہتھیار پھینک دیں گے اور پاکستانی حکومت انہیں معاف کردے گی‘۔

   ایک سوال کے جواب  میں وزیر اعظم نے   تحریک طالبان پاکستان کے حالیہ حملوں کو ’تسلسل‘ کا نام دے کر ’غیر اہم‘ بتانے کی کوشش کی اور واضح کیا کہ   ’سیاست دان کے طور پرریئحریک طالبان میں  مسائل کو غیر فوجی طریقے سے حل کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔ افغانستان میں طالبان کے ساتھ معاہدہ بھی اسی اصول کے تحت ہؤا تھا۔  میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی مکالمہ سے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے‘۔ حیرت ہے    کہ ایک ایسا وزیر اعظم  ایک دہشت گرد گروہ کے بارے میں  مؤدبانہ و مفاہمانہ طرز  تکلم اختیار کررہا ہے جو ملک  میں وسیع سیاسی خلیج پیدا کرنے اور ہر معاملہ پر قومی انتشار بڑھانے کا باعث بنا ہؤا ہے۔

یہ دعویٰ کرتے ہوئے البتہ پاکستان کے وزیر اعظم یہ بھی  فراموش کررہے ہیں کہ  انہیں ملک کا انتظامی سربراہ ہونے کے باوجود خسروانہ اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ وہ پاکستانی شہریوں کے قاتلوں کو یک طرفہ طور سے معاف کرنے اور انہیں عام شہری کے طور پر زندگی گزارنے کا موقع دینے کا  اختیار نہیں رکھتے۔ تحریک طالبان پاکستان نے گزشتہ دو دہائی کے دوران سول و ملٹری  ٹارگٹس پر حملے کئے ہیں۔ ان حملوں میں ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں فوجی شہید ہوئے تو ہزار ہا شہریوں نے بھی کسی قصور کے بغیر اس باغی اور دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ دسمبر 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور کے ڈیڑھ سو  کے لگ بھگ معصوم طالب علم بھی اسی سفاک تنظیم کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے تھے۔  اس حوالے سے عمران خان اور ان کی حکومت کو اس سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ کیا کوئی حکومت اپنے  شہریوں کے قاتلوں کو محض امن کی امید پر معاف کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔  ٹی ٹی پی ساتھ ’امن ‘ قائم کرنے کی سرکاری کوششیں اگر بار آور ہوگئیں تو اپنے ہی لوگوں کے قاتلوں کو معاف کرنے کی یہ  نادر روزگار مثال ہوگی۔

اول تو اس بات کا امکان نہیں کہ پاکستان تحریک طالبان کے سب گروہ ان مذاکرات کے نتیجے میں ہتھیار پھینکنے اور اپنی غلطیوں پر نادم ہونے کا اعلان کریں گے۔ اگر حکومت بعض گروہوں کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کر بھی لیتی ہے تو بھی دہشت گرد حملوں کا سلسلہ تھمے گا نہیں کیوں کہ اس فیصلہ سے اختلاف کرنے والے گروہ  پاکستان کے مختلف علاقوں سے نئے رنگروٹ بھرتی کرلیں گے۔  افغانستان میں طالبان کی کامیابی  کے بعد خاص طور  سے اور اس سے پہلے بھی تحریک انصاف نے ملک  میں جس طرح مذہبی شدت پسندی کو پنپنے کا موقع دیا ہے، اس کی وجہ  سے پیدا ہونے والے ماحول میں ٹی ٹی پی کے لئے نوجوانوں کو بہکانا اور انہیں ایک  ’اعلیٰ اسلامی کاز‘ کے لئے مسلح جد و جہد پر  آمادہ کرنا ہرگز مشکل نہیں ہوگا۔ کسی بھی پاکستانی حکومت کو دہشت گردوں کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے حالات کی مکمل تصویر دیکھنی چاہئے اور اس کے مطابق ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جو ملک میں امن و امان کے علاوہ وسیع تر ہم آہنگی، اتحاد اور یک جہتی کا سبب بنیں۔ ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کو ہلاک کرنے والے عناصر کو معاف کرنے کا فیصلہ ملک میں سماجی سطح پر شدید بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنے گا اور اس سے حکومت کے ارادوں اور درپردہ مقاصد کے بارے میں سوالات بھی سامنے آئیں گے۔

اس حوالے سے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ افغانستان میں طالبان کی کامیابی کو صرف پاکستان  ایک ’نئی حقیقت‘ قرار دے رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان مسلسل یہ اعلان بھی کرتا ہے کہ وہ  ریجن  کے دیگر ممالک  کے ساتھ مل کر ہی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرے گا۔   اس حوالے سے امریکہ کا مؤقف سب کے سامنے  ہے۔ سینیٹ میں ہونے والی سماعت  اور وہاں پیش کئے گئے ایک تازہ بل میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان  کا کردار مشکوک رہا ہے اور اس بارے میں تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اگر پاکستان نے گزشتہ بیس برس کے دوران کسی بھی طرح طالبان کو مدد فراہم کی ہے تو  اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ پاکستان عالمی منظر نامہ پر طالبان کا غیر سرکاری ترجمان بن کر  پہلے ہی  اپنا مقدمہ کمزور کرتا رہا ہے۔  اب وزیر اعظم  یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ  جس افغان  حکومت کو تسلیم نہیں  کرتے ، اسی کی مدد سے پاکستان  میں دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے عناصر کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں تاکہ مسائل کا پر امن سیاسی تصفیہ تلاش کیا جاسکے۔  یہ سوال اپنی جگہ  جواب  طلب رہے گا کہ ریاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے ہتھیار اٹھانے والے عناصر کے  ساتھ کون سے سیاسی اصول پر بات چیت ہوسکتی ہے؟ خاص طور سے اگر اس میں افغان طالبان مددگار  ہیں تو دنیا کے شبہات میں اضافہ ہوگا اور پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو  بھی نقصان پہنچے گا۔

افغانستان میں طالبان کے لئے کامیابی کی راہ    امریکہ کے  ساتھ اس معاہدہ کے بعد ہموار ہوئی تھی کہ  وہ اپنے ملک میں کسی دہشت گرد گروہ کو پناہ نہیں دیں گے۔ طالبان خود بھی متعدد بار یقین دہانی کرواچکے ہیں کہ  وہ  افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت  گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اپنے ملک میں موجود تمام دہشت گرد گروہوں پر قابو پائیں گے۔  وہ   تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے یہی وعدہ پاکستان سے کرتے رہے ہیں جبکہ چین کو بھی یقین دلایا گیا ہے کہ ترکستان اسلامی پارٹی کے دہشت گردوں کو افغانستان سے چین پر حملے کرنے کا موقع نہیں دیاجائے گا۔ اب  وہی طالبان  ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ  کی معافی  کے لئے  نام نہاد مذاکرات میں پاکستان کے ’سہولت کار ‘ بنے ہوئے ہیں۔  کیا اس سے یہ یقین مستحکم نہیں ہوتا کہ افغان طالبان ہی دراصل ٹی ٹی پی کے سرپرست ہیں اور یہ دونوں  گروہ ایک دوسرے کی طاقت بنتے رہے ہیں اور ایک ہی مقصد سے  مصروف جنگ رہے ہیں۔ افغان طالبان تو پھر اپنے ملک پر قابض فوج کے خلاف ’جہاد‘ کا نعرہ لگاتے رہے ہیں لیکن تحریک طالبان پاکستان نے تو پاکستانی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں تاکہ پاکستان میں شرعی حکومت قائم کی جاسکے۔ یعنی وہ اس ملک کے متفقہ آئینی انتظام کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ایسے گروہ  سے بات چیت میں کس سیاسی رعایت پر بات کی جاسکتی ہے؟

کیا عمران خان کی حکومت ٹی ٹی پی کے گروہو ں کو  یہ یقین دلائے گی  کہ  جو کام وہ   خود کش حملوں کے ذریعے کرنا چاہتے تھے ، وہی کام اب عمران خان کی حکومت نام نہاد ریاست مدینہ قائم کرکے پورا کررہی ہے۔ ہم دونوں کے مقاصد ایک ہی ہیں اس لئے آؤ ہاتھ ملاتے ہیں تاکہ دنیا  کی توجہ کسی دوسری طرف مبذول ہوسکے؟ یہ حکمت عملی  کسی صورت کامیاب نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی ہے اور قانونی طور سے ملک پر حکمران ہے لیکن ٹی ٹی پی ایک سرکش گروہ ہے جوانسانوں کو قتل کرکے اقتدار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ان عناصر کا موازنہ بلوچستان کے قوم پرستوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاسکتا جو خالص قومیت کی بنیاد پر  اپنے علاقائی حقوق کے لئے جنگ پر آمادہ رہے ہیں۔  ریاست  کے خلاف مسلح  جنگ جوئی کا طریقہ غلط ہونے کے باوجود ان کا مقصد بہر حال سیاسی تھا۔ جب ان عناصر کے ساتھ بات چیت  کی جاتی ہے تو  اس  کا جواز فراہم کیا جاسکتا ہے لیکن ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات  یا مفاہمت کا سیاسی جواز تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔

تحریک طالبان پاکستان  فوج کے خلاف برسر پیکار ہے۔ پاک فوج نے افغانستان میں طالبان کی کامیابی کے بعد افغان و پاکستانی طالبان کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیاتھا لیکن ا س کے  ساتھ ہی متعدد بار یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ کسی دہشت گرد گروہ کو پاکستان میں شرپسندی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔  اب ملک  کی سیاسی حکومت کے ذریعے انہی دہشت گرد عناصر سے ’مصالحت‘ کی کوشش کرنے کا ایک ہی مقصد ہوگا کہ پاک فوج ان عناصر سے عاجز آچکی ہے اور اس کا خیال ہے کہ ان کے خلاف عسکری  کارروائی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسی لئے اب مذاکرات ، مصالحت اور عام معافی کی بات کی جارہی ہے۔  وزیر اعظم کا اعلان اس حوالے سے  ریاستی شکست خوردگی  کا اظہار ہے جس سے ملک میں موجود  تشدد  پر آمادہ  متعدد انتہاپسند  گروہوں کو  جنگ جوئی کا پیغام ملے گا۔  ٹی ٹی پی کے عناصر کو معافی دینے کا  اعلان تمام جنگجوؤں کو یہ  یقین دلائے گا کہ پاکستانی ریاست کو کسی بھی معاملہ پر دبا کر اپنی بات منوائی جاسکتی ہے۔

وزیر اعظم کے علاوہ ملک کی عسکری قیادت کو بھی اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے کہ  ریاستی کمزوری کے ایسے اعتراف سے   قومی سلامتی کے مقصد کو  دیر پا اور ناقابل تلافی نقصان پہنچے  گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments