سمندری طوفان، پیٹرول بم اور اپریل فول


طوفان تو آتے رہتے ہیں اور آتے رہے ہیں لیکن اس بار طوفان صرف عجیب ہی نہیں تھا بلکہ ایک عجوبہ تھا۔ میڈیا میں یہ بتاتے رہے تھے کہ تیس ستمبر سے لے کر تین اکتوبر تک کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں موسلا دھار بارش ہوگی اور اربن فلڈ یعنی شہری سیلاب کے آنے کا خطرہ ہے۔ تیس ستمبر کی رات سے جس رات پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی تھی تمام میڈیا چینلز پر یہ خبر گرم تھی کہ صبح پانچ بجے سمندری طوفان کراچی کے ساحل سے ٹکرائے گا اور اس کے بعد تیز بارش ہوگی جس کے نتیجے میں اربن فلڈ اور خستہ عمارتوں کے گرنے کا بھی خدشہ ہے۔

کراچی میں تمام تعلیمی اداروں کی چھٹی کرا دی گئی اور کمشنر کراچی نے بھی کراچی میں عام تعطیل کا اعلان کیا۔ ہم جیسے وکیل جو کورٹ کچہری سے وابستہ ہوتے ہیں ایک تو ویسے بھی چھٹی کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور اوپر سے یہ مخمصاتی صورتحال بھی ہو کہ ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹس کورٹ کھلے ہوں گے کہ نہیں کوئی واضح نوٹیفیکیشن بھی نہ ہو لیکن یہ پتہ ہو کہ ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹس کورٹس کمشنر کے انڈر نہیں آتے تو خود کو جانے کے لئے حسب معمول فجر کی نماز کے بعد تیار کیا ہوا ہوتا ہے۔

لیکن پھر یہ مسئلہ آن ٹپک پڑا کہ پانچ بجے کا طوفان تو نہیں آیا دیکھتے ہیں مزید پیشن گوئی کیا ہے ٹی وی آن کیا تو کیا دیکھتے اور سنتے ہیں کہ پھر سے ڈرایا جا رہا ہے کہ دو تین گھنٹوں بعد موسلادھار بارش ہونے کے امکانات ہیں اور بلا ضرورت گھروں سے نہیں نکلیں، بارش اور گاڑی کا پانی سے بھرے ہوئے سڑکوں میں پھنسنے کا سابقہ تجربہ تو ذہن میں تھا پھر مزید ہیجانی کیفیت میں الجھ کر رہ گئے کہ اتنے میں فون آیا اور وکیل کے فون آنے کا مطلب صرف وکیل ہی محسوس کرتا اور سمجھتا ہے، لیکن کال اٹینڈ کرنے کے بعد یہ وہ محسوسات نہیں تھے جو ایک وکیل اسے سمجھتے ہیں فون کال کلائنٹ ہی کا تھا لیکن پرانے کلائنٹ کا جو ضمانت ہونے کے بعد پیشی پر عدالت آیا ہوا تھا اور مجھے اطلاع دے رہا تھا کہ وہ کورٹ آیا ہوا ہے وکیل صاحب آپ کدھر ہیں۔

میں نے جواباً بولا بس آ رہا ہوں۔ کورٹ پہنچا، سارا دن گزر گیا لیکن نہ آندھی آئی نہ طوفان آیا اور نہ موسلادھار بارش اور اگر موسلا دھار بارش کراچی جیسے بڑے شہر میں جگہ جگہ ہوئی بھی تو وہ عصر کے بعد جب لوگ واپس گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ رات بھر میڈیا پر عوام کو ڈرایا جا رہا تھا کہ فلاں جگہ بجلی کے کھمبے اور تاریں گری ہوئی ہیں اور ہم جیسے اکلوتے اور پرانی گاڑیوں والوں کے لئے تو وہ گاڑیوں پر گرے ہوئے کھمبوں کی تصاویر ہی کافی تھیں جو خبروں کے دوران دکھائی جاتی رہی تھیں لیکن پھر بھی ہم دل بڑا کر کے نکل پڑے تھے لیکن جب شام کو گھر واپس لوٹے تو بچوں نے پوچھا ہائی کورٹس اور سٹی کورٹس کی طرف بارش ہوئی، آندھی یا طوفان آیا میں نے کہا نہیں تو جواباً بچوں نے بھی کہا یہاں بھی صبح سے نہ بارش ہوئی، نہ آندھی آئی اور نہ طوفان البتہ کل اور پرسوں یعنی دو اور تین اکتوبر کے لئے خطرے کا کہا ہے۔( یاد رہے دو اکتوبر کو تو واپسی پر خاصی اچھی دھوپ نکلی ہوئی تھی اور فضا بالکل صاف تھا، تین اکتوبر کا فیصلہ آپ لوگ کالم پڑھ کر خود کریں ) مزید یہ کہ سی این جی کی قیمتیں بھی خاصی اچھی بڑھا دی گئی تھی۔ میرے چھوٹے بچے نے جو دیگر دو بڑوں بچوں کی بہ نسبت تیز طرار اور چالاک ہے اور اکثر میں ان کو کہتا ہوں کہ تمھیں وکیل بناؤں گا، نے کہا بابا آج آپ نے پیٹرول گاڑی میں ڈلوایا؟ میں نے کہا ہاں، بولے کوئی فرق محسوس ہوا؟

میں نے کہا ہاں۔ بولے کیا فرق محسوس ہوا؟ میں نے بولا یہی کہ اور دن جب میں پانچ سو کا پیٹرول ڈالتا تھا تو چار لیٹر سے اوپر کا سکرین شو کرتا تھا لیکن آج تین لیٹر سے اوپر کا شو کر رہا تھا۔ وہ مستقبل کا میرا وکیل بیٹا فٹ سے بولا یہی تو بات تھی، یہ میڈیا، پیٹرول مصنوعات لابی اور حکومت نے ہمارے ساتھ اپریل فول کھیلا ہے۔ طوفان کا کہہ کر ڈرایا تاکہ لوگ گھروں میں رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ جمعہ پڑھ کر لوگ ان کے خلاف کوئی جلوس ملوس نہ نکالیں اور ہفتہ اتوار کی چھٹی گزار کر لوگ دو تین دن میں یہ بات بھول چکے ہوں گے یا پھر کوئی اور مسئلہ کھڑا ہو چکا ہو گا اور یہ بات اس میں مدغم ہو کر پس پشت جا چکی ہوگی۔ میں نے ان کی طرف دیکھا اور خود پر کم مائیگی اور پرانے زمانے کا غلاف ڈال کر نئے زمانے اور نئے پود کی اپروچ اور سوچ پر لیکچر شروع کر کے اپنے بڑا ہونے کا فائدہ اٹھایا لیکن دل ہی دل میں شرمندہ ضرورت تھا کہ ہمیں بڑا ہو کر بھی اس بات کی سمجھ نہیں تھی کہ ہمارے ساتھ اپریل فول کھیلا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments