کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں کیا کہتی ہیں؟



1947 سے قبل جموں اور کشمیر برطانوی راج میں ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے زیر حکومت ایک آزاد ریاست تھی۔ ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کے ساتھ برطانوی بالادستی ختم ہوئی تو تمام آزاد ریاستوں کو دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے یا آزاد رہنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔ مہاراجہ نے کشمیر کی آبادی میں نسلی، تہذیبی اور مذہبی تنوع کو دیکھتے ہوئے مسلم یا ہندو پہچانوں کی بنیاد پر آزاد ہونے والے کسی ایک ملک کا انتخاب کرنے کی بجائے آزاد رہنے کو ترجیح دی۔

کشمیر کی آبادی کا زیادہ حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا جو کہ راجہ کے اس فیصلے سے متفق نہیں تھے۔ ایک ہی مہینے کے اندر ریاست کے مختلف علاقوں میں مسلح حملے شروع ہو گئے۔ بھارت کے مطابق مغربی اضلاع میں بغاوت اٹھنے کے بعد مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے ساتھ شمولیت اختیار کرلی۔ اس کے بالکل اگلے ہی دن بھارت نے بڑی تعداد میں فوجی کشمیر میں بھیج دیے جس کے نتیجے میں ہندوستانی فوجیوں اور کشمیری جہادیوں کے درمیان جنگ شروع ہو گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ 26 اکتوبر 1947 کو بھارت نے دعویٰ کیا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کی دستاویزات پر بھارت کے حق میں دستخط کر دیے ہیں۔ بھارتی حکومت کے مطابق 25 اکتوبر کو بھارتی وزیر مینن کشمیر کے وزیراعظم مہاجن کے ہمراہ ہری سنگھ کو الحاق کے لیے آمادہ کرنے سری نگر پہنچے، مختلف ذرائع سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 26 اکتوبر کو ہری سنگھ جموں میں الحاق نامہ پر دستخط کرنے کے لیے موجود ہی نہیں تھے لیکن بھارت آج تک ریکارڈ پر یہی کہتا آیا ہے کہ دستاویزات پر دستخط 26 اکتوبر کو ہوئے تھے۔

خود مہاجن نے اپنی سوانح عمری میں اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ وہ 26 کو نہیں، دراصل 27 کو سری نگر گئے تھے اور یہ کہ 26 اکتوبر 1947 کی شام انہیں جواہر لال نہرو نے ہدایت کی تھی کہ ”کل (یعنی کہ 27 اکتوبر کو) مہاجن کے ساتھ جموں جائیں“ ۔ اس کی تصدیق وکٹوریہ شوفیلڈ نے اپنی کتاب کشمیر ان کراس فائر کے صفحہ 149 میں کی ہے۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ بھارت نے کشمیر میں الحاق سے پہلے ہی فوجی مداخلت شروع کر دی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن بھارت نے عالمی سطح پر دو تین مرتبہ مانگے جانے کے باوجود الحاق نامہ کبھی بھی کسی فورم پر پیش نہیں کیا، بظاہر یہ ماننے کے لیے کوئی ثبوت نہیں کہ الحاق نامہ وجود بھی رکھتا ہے۔

یکم جنوری 1948 کو بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35 کے تحت یہ معاملہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا۔ آرٹیکل 35 رکن ممالک کو کسی بھی ایسے واقعے کی طرف اقوام متحدہ کی توجہ دلانے کی تلقین کرتا ہے جو کہ بین الاقوامی امن کے راستے میں رکاوٹ محسوس ہوتا ہو۔ ہندوستان نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی قبائل سے تعلق رکھنے والے پشتون جموں و کشمیر پر حملہ آور ہیں جبکہ یہ اب ہندوستانی علاقہ ہے۔ ساتھ ہی سلامتی کونسل سے درخواست کی کہ وہ پاکستان کو ایسی کارروائیاں ختم کرنے پر مجبور کرے۔

بھارت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ریاست کا الحاق قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کیے جانے کے باوجود وہ عوام کی امنگوں کو دنیا کے سامنے ثابت کرنے کے لئے رائے شماری کرانے کو تیار ہے اور اس کا جو بھی نتیجہ آئے، اسے قبول کرے گا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے گوریلا حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارت نے دھوکہ دہی اور تشدد کے ذریعے ریاست کا الحاق حاصل کیا ہے اور وہ کشمیر کے مسلمانوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

20 جنوری 1948 کو سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر 39 منظور کی جس کے تحت شکایات کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیشن قائم کیا گیا۔ تاہم یہ کمیشن مئی 1948 تک عمل میں نہیں لایا جا سکا۔ اس عرصہ کے دوران جنگ پہلے کی شدت سے جاری رہی۔ کمیشن کی ذمہ داری سلامتی کونسل کو خطے میں امن کے دیرپا قیام کے لئے قابل عمل تجاویز پر مشتمل خط لکھنا تھا۔ کمیشن نے حقائق کی تحقیقات اور سلامتی کونسل کی مہیا کی گئی ہدایات پر عمل کرنے کے بعد کشمیر میں غیر جانبدار انتظامیہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

اس انتظامیہ کے ذمہ ایک غیر جانبدار چیئرمین کی سربراہی میں بیرونی اثرات سے پاک الیکشن کا انعقاد کر کے عوام کی امنگوں کا ترجمان فیصلہ کرنا تھا۔ کمیشن کی تجویز کے تحت اس عمل کے دوران کشمیر اقوام متحدہ کے مقرر کردہ کمانڈر ان چیف کے تحت فوجی قبضے میں رہتا۔ خطے کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کمیشن کی تشکیل فوری طور پر عمل میں لانا ضروری تھا لیکن اس بات کا ادراک ہونے کے باوجود اقوام متحدہ حقیقی اقدام اٹھانے میں ناکام رہی۔ اقوام متحدہ کے سفارت کار جوزف کوربیل سمیت کئی صحافیوں نے بعد میں کمیشن کی تشکیل میں تاخیر پر تنقید کی۔ جب تک کمیشن حقیقت میں کوئی کام کر پاتا، خطے کی سیاسی اور عسکری صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی تھی۔

پاکستان اور ہندوستان کے دلائل سننے کے بعد سیکیورٹی کونسل نے 21 اپریل 1948 کو ایک نئی قرارداد منظور کی جس کے تحت پانچ ارکان پر مشتمل ایک نیا کمیشن بنایا گیا جس کا مقصد بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کی مدد کے ساتھ خطے میں امن و امان بحال کرنا اور کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے رائے شماری کی تیاری کرنا تھا لیکن یہ بھی بے سود رہا۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرار داد نمبر 47 ( 1948 )

اس قرارداد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جموں و کشمیر کی آزادی یا پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ رائے شماری یعنی کہ جمہوری طریقے سے ہو گا۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر 51 ( 1948 )

سلامتی کونسل کی یہ قرارداد بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے تنازع کے جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر 80 ( 1948 )

قرارداد جموں و کشمیر کے تنازعے کا حل اور حتمی تصفیے کا جمہوری طریقے اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔

اقوام متحدہ قرارداد نمبر 91 ( 1951 )

یہ قرارداد بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ کشمیر میں بھارت کے زیر انتظام قائم کی گئی اسمبلی کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کا پیش کیا گیا کوئی بھی حل حتمی فیصلہ تصور نہیں ہو گا۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر 98 ( 1952 )

اس قرارداد کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ہی کیا جائے گا۔ الیکشن سے قبل علاقے میں ہتھیاروں کا خاتمہ کیا جائے گا مگر اس عمل سے پہلے پاکستان اور بھارت کو ایک مقررہ تعداد میں فوجی رکھنے کی اجازت ہو گی۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر 122 ( 1957 )

اس قرارداد میں ایک مرتبہ پھر یہ عہد دہرایا گیا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی آئین ساز اسمبلی کا منظور کردہ کوئی بھی قانون یا آئین خطے کے مستقبل یا اس کی کسی ایک ملک کے ساتھ وابستگی کا تعین نہیں کرے گا۔

اقوام متحدہ سلامتی کونسل قرارداد نمبر 1172 ( 1998 )

اس قرارداد کے تحت پاکستان اور بھارت کو تاکید کی گئی کہ وہ باہمی تنازعات کو دور کرنے اور امن و امان اور سلامتی سے متعلق تمام معاملات کے دیرپا حل کے لیے آپس میں بات چیت کا دوبارہ آغاز کریں۔ ممالک کی آپس میں کشیدگی کی ایک بنیادی وجہ کشمیر ہونے کے ناتے اس کا مستقل حل تلاش کرنا اولین ترجیح ہونا چاہیے۔

1948 کے بعد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جموں و کشمیر تنازعہ پر ایک درجن سے زائد قراردادیں منظور کر چکی ہے لیکن کشمیر کی عوام ابھی تک ایک دور رس حل کے انتظار میں ہے۔ بارہ کروڑ انسانوں کی قسمت کا کوئی بہتر فیصلہ نہ کر پانا اقوام متحدہ کی بہت بڑی نا اہلی ہے۔

انسانی حقوق کی تاریخ میں اقوام متحدہ کی جانب سے شائع کیا جانے والے انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی دستاویز سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں 70 سے زائد اہم انسانی حقوق کے معاہدوں کی بنیاد اس دستاویز پر رکھی گئی ہے۔ تمام ترقی یافتہ معاشرے اس بات پر متفق ہیں کہ سماجی ترقی اور بہتر معیار زندگی کو فروغ دینے کے لیے تمام انسانوں کے لئے انصاف، وقار اور حقوق کی حفاظت اقوام عالم کی ذمہ داری ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعوے دار بھارت روزمرہ کی بنیاد پر کشمیر میں اس چارٹر کے کئی آرٹیکلز کی خلاف ورزی کرتا ہے مثلاً آرٹیکل نمبر ایک سے تین جو کہ تمام انسانوں کو بغیر کسی امتیازی برتاؤ کے آزادی اور جان و مال کی حفاظت کا حق دار ٹھہراتے ہیں۔

آرٹیکل نمبر 5 جو کہ جسمانی اور ذہنی اذیت کو شخصی آزادی کے خلاف قرار دیتا ہے، آرٹیکل نمبر 9 بغیر وجہ کے گرفتاری اور جلاوطنی کو جرم قرار دیتا ہے، آرٹیکل نمبر 11 سب انسانوں کو غیر جانبدار اداروں سے جلد انصاف ملنا ضروری ٹھہراتا ہے، آرٹیکل نمبر 13 آزاد نقل و حرکت کو بنیادی انسانی حقوق گردانتا ہے، آرٹیکل نمبر 15 کہتا ہے کہ کسی بھی انسان سے اس کی شہریت نہیں چھینی جائے گی، آرٹیکل نمبر 18 اور 19 اظہار خیال کی آزادی، خیالات کی تشہیر اور کوئی سا بھی مذہب چننے کی آزادی دیتے ہیں، آرٹیکل نمبر 20 پرامن طریقے سے اجتماعات کرنے کی آزادی، آرٹیکل نمبر 21 اپنی حکومت خود چننے کی آزادی، آرٹیکل نمبر 23 روز مرہ زندگی میں سکون سے کام کرنے کی آزادی، آرٹیکل نمبر 25 روٹی، کپڑا اور مکان کا حق، آرٹیکل نمبر 26 بلاتعطل تعلیم حاصل کرنے کی آزادی دیتا ہے۔

آئے دن دنیا بھر کے اخبارات بھارت کے ان تمام آرٹیکلز کی خلاف ورزیاں کرنے کے ثبوت شائع کرتے رہتے ہیں اور اقوام عالم ایسا کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہیں جس سے بنیادی انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کو روکا جا سکے۔ کشمیر کے مظلوم عوام اقوام متحدہ کی ناکامی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کشمیریوں کی تیسری نسل دنیا سے سوال کرتی ہے کہ یہ ظلم کے اندھیرے کب ختم ہوں گے، کب ان کی زندگی میں آزادی کی بہاریں آئیں گی؟

عائشہ اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عائشہ اقبال

عائشہ اقبال انگریزی ادب اور لسانیات کی شاگردہ ہیں. انسانی حقوق خاص طور پر خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے لکھتی اور آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ فراغت کے اوقات مصوری، شاعری اور کتاب بینی سے کاٹتی ہیں۔

ayesha-iqbal has 5 posts and counting.See all posts by ayesha-iqbal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments