ایسے بھی نہیں چل سکا۔۔۔


\"\" “پیمرا نے عامر لیاقت کو بین کر دیا”

عامر لیاقت نے کچھ سال قبل ایک مذہبی پروگرام سے مذہبی سکالر کی حیثیت سے جو شہرت حاصل کی وہ تو سب جانتے ہیں،وہ شہرت تب لڑکھڑا گئی جب مختلف چینلز کے درمیاں گردش کرتے کرتے موصوف کی وہ کلپ منظر عام پر آگئی جس میں غالب صاحب کی یاد انہیں شدت سے ستائے جا رہی تھی کچھ اور باتیں بھی تھیں جن کا تذکرہ کرنا مناسب نہیں ،موصوف ایک دور میں رُکن اسمبلی اور مذہبی امور کے وزیر بھی رہے بعد ازاں پارٹی رُکنیت معطل ہو گئی، پھر وقت بدلا اور ریٹنگ کے بے لگام گھوڑے نے انہیں سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔ انٹرٹینمنٹ کےمختلف پروگرام طرح طرح کے چینلز پر کئے۔ جب کسی ایک چینل کو چھوڑتے، چھوڑنے والوں کو للکار دیا کرتے۔ کمال تو یہ ہے پھر کچھ عرصے بعد اُسی چینل پر چلے بھی جاتے۔

جو جو کچھ ہوتا رہا، وہ سب نے دیکھا، چاہے شوق سے دیکھا، چاہے تنقید کی غرض سے دیکھا۔ عامر بھائی کو فیم ملتا گیا کبھی مثبت کبھی منفی۔ ابھی گزشتہ سال رمضان ٹرانسمیشن میں کچھ حرکات کی بنا پر پیمرا نے نوٹس لیا اور پروگرام بند کر دیا۔ جناب نے حکم امتناعی لیا اور کام چالو ہو گیا۔ پھر اپنی پرانی سیاسی جماعت میں رُکنیت بحال ہو گئی اور سیاست میں سرگرم ہوئے ہی تھے کہ 22 اگست کا دن آ گیا۔ وطن عزیز سے متعلق متنازع تقریریں ہوئیں۔ پھر میڈیا ٹرائل ہوا اور بالآخر بات گرفتاری تک پہنچ گئی۔ رہائی ملی تو سیاست سے ہمیشہ کے لیے توبہ کر لی بقول خود ان کے “ان \’دو\’ دنوں میں بہت کچھ ہو گیا” پھر کچھ عرصہ گزرا جناب نے ایک چینل جو آنے سے قبل ہی متنازع ہو گیا تھا جوائن کر لیا۔ جو سب سے بڑا چینل تھا عامر لیاقت سب سے بڑے اینکر پرسن تھے، حالات حاضرہ کا پروگرام شروع ہو گیا جس میں سب کچھ بول دینے کی آزادی تھی وہی آزادی جو کسی اور کو ہو نہ ہو، اینکر پرسنز کو ہوتی ہے۔ مجھے خود چند ایک بار ان کا پروگرام \”ایسے نہیں چلے گا\” ریموٹ سے چینلز بدلتے بدلتے دیکھنے کا اتفاق ہوا جب بھی دیکھا کسی نا کسی اپنے ماضی کے چینل یا دوسرے اینکرز کی دُھلائی ہی دیکھی۔ چڑی بابا، گوگل بابا، غدار ،گستاخ کی تکرار سننے کو ملی اور پھر پیمرا نے ان کو بین کر ہی دیا۔

یہ جو ساری کہانی تھی، اسے تو سب جانتے ہی تھے اس سے کس نے کیا سیکھا، وہ خود جانے۔ ہمیں تو یہ پتا چلا کہ جناب ایسے بھی نہیں چلا۔ مذہبی پروگرام کیا، چلا، مگرایسا کب تک چلتا۔ سیاست کی، وزیر رہے، پھر ویسے بھی نہیں چل پایا۔ انعامی پروگرام کیے، لوگوں کو خوب انٹرٹین کیا، ایسے بھی آخر نہ چل پایا۔ سیاست میں پھرانٹری ہوئی مگر ہمت جواب دے گئی۔ حالات حاضرہ کا پروگرام کیا، بولے بولے بہت بولے۔۔۔ پتا نہیں کون کونسے سرٹیفیکیٹ بانٹے مگر ایسے بھی نہیں چل پایا۔ جناب! ایسے بھی نہیں چل سکا ، ویسے بھی نہیں چل سکا تو پھر چلے گا کیسے؟ میرا خیال ہے یہ سوال یقیناً ہر شخص خود سے کبھی نہ کبھی ضرور کرتا ہے ، یہ سوال انسان کا خود سے کرنا بنتا بھی ہے کیونکہ کوئی بھی چاہے کتنا ہی خوشحال اور مطمئن ہی کیوں نہ ہو، مسلسل کچھ کرنے یا نہ کرنے سے ایسی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے جہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر اس سوال کا جواب انسان تلاش کر کے کچھ بہتر کر لے تو بہت اچھا ہے۔ نہیں تو اکثریت کے پاس ایک ہی جواب آتا ہے، “جیسے چل رہا ہے چلنے دو ”۔ چونکہ جمہوریت ہے اور اکثریت کی رائے کا احترام کرنا ہے لہٰذا چلنے تو دو۔ جس دن اکثریت نے انفرادی طور پر اِس \”ایسے نہیں چلے گا\” پر عمل کر لیا تو یقیناً ہر چیز ویسے چلے گی جیسے وہ چاہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments