کاٹھ کے وزیراعظم کی شان و شوکت


حکومت اور فوج کے درمیان ’اصولی عدم اتفاق‘ کی خبریں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب ملک کو چہار طرف سے اندیشوں، مشکلوں اور بے یقینی کا سامنا ہے۔ اگر صرف معاشی نقطہ نظر سے ہی پیدا شدہ اختلاف، اس پر اختیار کی گئی خاموشی اور پھر اچانک اس کے بھونڈے اظہار کو جانچا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ سرمایہ دار کیوں پاکستانی معیشت پر بھروسا نہیں کرتے۔ ملک کو اس وقت معاشی احیا کی شدید ضرورت ہے لیکن ملک کے دو سب سے با اختیار ادارے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان میں سے اصل اختیار کس کے پاس ہے۔

اس ملک کے ’دیانت دار اور سب سے با اختیار‘ وزیر اعظم کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح اپنا مسئلہ لے کر پارلیمنٹ میں جانے کا حوصلہ بھی نہیں کر سکتا بلکہ آرمی چیف سے طویل ملاقات میں عہد وفاداری حاصل کرنے یا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اگلی صبح کابینہ میں وزیروں کے سامنے اپنے اختیار اور آئین کی بالادستی کا پرچار کرتا ہے۔ کیا آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والا وزیر اعظم خفیہ طویل ملاقاتوں میں اپنی مرضی کے خلاف کیے گئے فیصلہ پر مفاہمت کی کوشش کرتا ہے یا ملک کے چیف ایگزیکٹو کے اختیار سے بالا ہی بالا فیصلہ کرنے والے کسی اہلکار سے جواب طلب کرتا ہے؟ اگر گزشتہ رات جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات ’جواب طلبی‘ کے ضمن میں آتی ہے تو ایسے حاکم کو اس عاجزی کا مظاہرہ دیگر اہم سیاسی امور طے کرتے ہوئے بھی کرنا چاہیے۔ اور اگر اس ملاقات میں منت سماجت سے اپنی عزت کا واسطہ دے کر کوئی ’رعایت‘ لینے کی کوشش کی گئی تھی تو آئین و قانون کی بالادستی اور طریقہ کار کی دہائی دینا ایک ایسا جھوٹ ہے جو انتہائی ڈھٹائی سے بولا جا رہا ہے۔ عمران خان اور ان کے سب ساتھیوں کو علم ہونا چاہیے کہ عوام اب بہر حال نہ اتنے بے خبر ہیں اور نہ ہی وہ اس قدر بھولے ہیں کہ ایسی وضاحتوں سے حکومت کو واقعی طاقت ور سمجھنے کے گمان میں مبتلا ہوجائیں۔

حکومت پر عدم اعتماد سے کسی بھی ملک کا وہی حال ہوتا ہے جس کا سامنا اس وقت پاکستان کو ہے۔ افسوس صرف یہ ہے کہ حکومت کے کارپرداز اس سنگینی کو سمجھنے اور اپنا راستہ درست کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ایک عہدیدار کی تعیناتی کے سوال پر گزشتہ ایک ہفتہ سے ملک میں شدید بے چینی کا ماحول موجود رہا ہے۔ سرگوشیوں اور اشاروں کنایوں میں حکومت اور فوج کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاف کے بارے میں باتیں کی جاتی رہی ہیں۔ متعدد وزیروں کے اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان دوروں کی رپورٹنگ ہوتی رہی لیکن حکومت کے کسی ترجمان کو اس صورت حال پر ایک لفظ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ نہ ہی وزیر اعظم کو یہ ہمت ہوئی کہ وہ اپنے روایتی جاہ و جلال کے ساتھ کسی تقریب، پریس کانفرنس، انٹرویو یا کم از کم ایک ٹویٹ میں ہی یہ اعلان کر دیتے کہ ’اے میرے پیارے ہم وطنو! میں خیریت سے ہوں اور ابھی تک تمام اختیارات میرے پاس ہی ہیں‘۔ تاکہ ان کی جرات، استقامت اور اولوالعزمی کا بھرم ہی قائم رہتا اور میڈیا، مارکیٹ اور عوام بھی اس گمان میں مبتلا نہ ہوتے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ اب ’کالی دال کی ہانڈی‘ کابینہ اجلاس اور فواد چوہدری کی پریس کانفرنس کی صورت میں بیچ چوراہے پھوٹی ہے تو بھلا کون اعتبار کرے گا کہ ’ایک پیج‘ پرانی آن بان کے ساتھ سلامت ہے اور عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ میں محبت و اعتماد کا ایسا ٹھوس رشتہ ہے کہ تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی۔

کل تک صحافی یہ سوچ کر اس معاملہ پر بات کرنے سے گریزاں تھا کہ ایسی سرگوشیاں اور افواہیں بدقسمتی سے پاکستان جیسے ملک میں عام طور سے گردش میں رہتی ہیں اور ان میں صداقت نہیں ہوتی۔ خاص طور سے جب ملک کا وزیر اطلاعات تواتر سے بتاتا رہا ہو کہ ملک دشمن عناصر ’فیک نیوز‘ کے ذریعے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اور کور کمانڈروں کے اجلاس میں آرمی چیف یہ اعلان کریں کہ ’دشمن ملک ہائبرڈ وار کے ذریعے پاکستان کی سلامتی پر حملہ آور ہے جس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا‘ ۔ ایسے میں جب یہ خبر عام ہوگی کہ فوج کے سربراہ نے وزیر اعظم سے پوچھے بغیر ہی آئی ایس آئی کا سربراہ تبدیل کر دیا اور اس کے نام کا اعلان بھی کر دیا گیا تو صحافی سمیت کوئی بھی ’محب وطن‘ اسے فیک نیوز یا ہائبرڈ وار فیئر کا ہتھکنڈا سمجھ کر ایسی ’افواہوں‘ کو سننے اور پھیلانے سے گریز کرے گا۔ اب ملک کا وزیر اطلاعات بتا رہا ہے کہ آئی ایس آئی کے ڈی جی کی تقرری وزیر اعظم کا استحقاق ہے اور اس کے لئے مقررہ طریقہ کار پر عمل کرنا ضروری ہے۔ وزیر اعظم کسی ایسے اقدام کو نہیں مانتے جو قانون و ضابطے کے مطابق نہ ہو۔ بتایا جائے کہ اب فیک نیوز کے خوف میں کان بند کرنے والا سامع کسے اپنا قصور وار سمجھے۔

اب تو خود حکومت کا سب سے معتبر نمائندہ شک کو یقین بتاتے ہوئے پیغام دے رہا ہے کہ کوئی کام خلاف ضابطہ نہیں ہو گا۔ یعنی آئی ایس پی آر نے 6 اکتوبر کو جو پریس ریلیز جاری کی تھی اور جس میں لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو آئی ایس آئی کا نیا ڈائریکٹر جنرل بنانے کا اعلان کیا گیا تھا، وہ درست نہیں تھا۔ کیوں کہ وزیر اعظم نے ملک کی سب سے طاقت ور خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی تقرری کی اجازت نہیں دی تھی۔ واضح رہے کہ یہ وزیر باتدبیر کوئی اور نہیں وزیر اطلاعات فواد چوہدری ہیں جن کے بارے میں کابینہ کے سب سے باخبر، ہوشیار اور کائیاں وزیر داخلہ شیخ رشید ایک روز پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ سول ملٹری تعلقات کے بارے میں بات کرنے کا حق صرف فواد چوہدری کو ہے۔ یعنی ایک روز پہلے بالواسطہ طور سے حکومت یہ اعلان کر رہی تھی کہ سول ملٹری تعلقات میں سب کچھ ’نارمل‘ نہیں ہے بلکہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ چل رہی ہے۔

اب اس گڑبڑ کو معمولی اختلاف اور مروجہ طریقہ کار جیسی غیر واضح اصطلاحات میں چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم اور فوج کے درمیان اعتماد و احترام کے رشتے اور ایک پیج کی سلامتی کی خبر سامنے لائی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی عامر ڈوگر ٹی وی انٹرویو میں یہ بتانے کا حوصلہ کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو مزید چند ماہ تک اسی عہدہ پر فائز رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اب نئے ڈی جی کی تقرری طریقہ کار کے تحت ہوگی۔ گویا سرکاری طور سے یہ تصدیق کردی گئی ہے کہ جس معاملہ پر گزشتہ ایک ہفتہ سے عمران خان سمیت پوری کابینہ نے منہ میں گھنگھنیاں ڈالی ہوئی تھیں، وہ فوجی قیادت کا ایک ایسا فیصلہ تھا جو وزیر اعظم کی مرضی کے بغیر کیا گیا تھا۔ اس اختلافی فیصلہ پر چھے روز تک مراقبے میں رہنے، اور راولپنڈی سے سلسلہ جنبانی کرنے کے بعد باجوہ عمران ملاقات میں اس ’مسئلہ‘ کو حل کر لیا گیا اور ایک پیج کے ثابت و سلامت ہونے کا تصدیق نامہ بھی جاری ہو گیا۔

یہی نہیں بلکہ فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان بہت ہی قریبی اور خوشگوار تعلقات ہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر دونوں کا اتفاق رائے ہے۔ اس میں اتھارٹی وزیر اعظم کی ہے۔ وزیر اعظم آفس ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائے گا جس سے فوج کا وقار کم ہو۔ اسی طرح آرمی چیف کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے کہ سول سیٹ اپ کی عزت میں کمی آئے‘ ۔ فواد چوہدری کی اس بات کو دست مان لیا جائے تو بتایا جائے کہ 6 اکتوبر کو نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے اعلان کو کیا وزیر اعظم کی عزت افزائی سمجھا جائے یا ان کی اتھارٹی اور اختیار کو نظر انداز کرنے کی کوشش قرار دیا جائے؟ اگر عمران خان کو آئی ایس پی آر کے اعلان میں اپنی شان دکھائی دے رہی ہے تو چھے روز تک اسلام آباد اور راول پنڈی کے درمیان قلابازیوں کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی اور اگر یہ وزیر اعظم کے اختیار سے انکار تھا تو قصور وار کون ہے اور ملک کے ’مروجہ طریقہ کار‘ کے مطابق اس کا احتساب کیسے ہو گا؟ یا عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان یگانگت کا ایسا رشتہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ’اونچ نیچ‘ بھی کر لیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

عمران خان اپنے اختیار پر اصرار کے حوالے سے جس سیاسی تنہائی کا سامنا کر رہے ہیں، یہ خود ان کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ اگر انہوں نے اس بات پر کان دھرے ہوتے کہ ملک میں جمہوری و آئینی نظام چلانے کے لئے جی ایچ کیو کی بجائے پارلیمنٹ کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ اسٹبلشمنٹ کا نمائندہ بن کر ملک کی سیاسی قیادت کو بے اعتبار و بے توقیر کرنے کی مہم کا حصہ نہ بنتے اور منتخب جمہوری لیڈر کے طور پر اس بات پر یقین رکھتے کہ اپنی اتھارٹی قائم رکھنے کے لئے انہیں فوجی سرپرستی کی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے اعتبار اور سیاسی عناصر کے ساتھ ہم آہنگی کی ضرورت ہے تو وہ اس وقت جنرل باجوہ کے سامنے سرنگوں ہونے کی بجائے، ان سے جواب طلبی کا حوصلہ کر سکتے تھے۔ اور حقیقی معنوں میں واضح کرتے کہ ’آرمی چیف میرے نیچے‘ ہے۔ اور اگر وہ میری مرضی کے بغیر کوئی کام کرے گا تو اس پر جوابدہی ہو گی۔

یہ وہی دوراہا ہے جس پر کبھی نواز شریف بھی پہنچے تھے اور پھر سول اختیار کی دہائی دیتے ہوئے تنخواہ نہ لینے کی پاداش میں نا اہل ہو کر مجھے کیوں نکالا یا ووٹ کو عزت دو ’کے نعرے لگاتے رہے۔ عمران خان اگر سچائی کا سامنا کرسکیں تو حقیقت یہی ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو مضبوط کر کے ہی ملک میں جمہوری استحکام کا سبب بن سکتے ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی سے حکومت لینے اور چلانے کے لئے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا انجام وہی ہوتا ہے جس کا سامنا اس وقت ملک کے‘ با اختیار اور دیانت دار ’وزیر اعظم کو ہے۔ ایک دو روز میں‘ متفقہ ’ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کا نوٹی فیکیشن رہا سہا شبہ بھی دور کردے گا۔ تب دیوار پر تحریر کندہ ہوگی: کاٹھ سے بنا کوئی لیڈر سچ کی آنچ برداشت نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2770 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments