آخری بارش کا پانی


”اگر میں مارا جاؤں تو تم خود کو میری یادوں کے ساتھ نہ باندھے رکھنا۔ اپنی زندگی کو لمحہ موجود کے ساتھ جوڑ لینا ورنہ اپنی موت کے آنے سے پہلے بھی ہر روز مرتی رہو گی۔“ لڑکے نے کہا۔

ؒلڑکی نے بغور لڑکے کے چہرے کو دیکھا اور بولی ”کیا محبت محبوب کی موت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے؟ کیا محبت بھی کھانے کی بھوک کی طرح بس جسم کی ایک بھوک ہوتی ہے؟“ ۔ لڑکی کی آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگی۔ اس نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا گویا اپنی آنکھوں کے سیلاب کو روکنے کی ایک ناکام سی کوشش کر رہی ہو۔

چاند گہرے بادلوں سے کبھی باہر نکل آتا اور کبھی چھپ جاتا۔ پہاڑوں پہ برف پگھلنا شروع ہو چکی تھی۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ہر طرف سبزے کی بہار سے لدی یہ وادی جنت کے ٹکڑے کا سماں پیش کرتی تھی لیکن اس کے باسیوں کی زندگی پہ انہونی کا خوف ہر وقت جہنم کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔ جانے کب کہاں سے گولی چلے اور کس کے سینے میں اتر جائے؟ کتنی ماؤں نے آہوں اور سسکیوں کے ہجوم میں اپنی آنکھوں کے نہ ختم ہونے والے دریاؤں کے سیلاب میں اپنے بیٹے بہہ کے خشک ہو جانے والے سرخ خون کے ساتھ خاک کے سپرد کیے تھے۔ یہ سلسلہ رکنے میں ہی نہ آ رہا تھا۔

وادی کے لوگوں نے اپنے حقوق کے لیے جد و جہد شروع کی تو یہ لڑکا سرحد پار سے صحرا کے کنارے واقع ایک ایسی نخلستانی ریاست سے ان کا ساتھ دینے کے لیے آ گیا جو چند دہائیاں پہلے اپنا وجود ختم کر کے ایک نوزائیدہ ملک کا حصہ بن چکی تھی۔ شہر کے قریب ریلوے لائن اور سڑک کے قریب صحرائی ٹیلوں کو گرا کے نہر کے کنا رے بنائی جانے والی ایک بہت ہی خوبصورت یونیورسٹی کا وہ طالب علم رہا تھا۔ پہلے اس کے سامنے ایک انجینئر کی حیثیت سے ایک تابناک اور خوشحال مستقبل تھا لیکن سینکڑوں کلومیٹر دور سر سبز پہاڑوں، جھیلوں اور چشموں پہ مشتمل اس وادی میں ہونے والے مظالم عالمی میڈیا پہ دکھائے گئے تو اس سے برداشت نہ ہو سکا اور وہ سردیوں کی راتوں میں اپنے گھر کے گرم بستر میں آرام کرنے کی بجائے اس وادی کے لوگوں کی جدوجہد میں ساتھ دینے کے لیے وہاں آ گیا۔

اچانک فضا میں گولیوں کے چلنے کی آواز گونجی اور پھر اس آواز کا ایک تسلسل سا قائم ہو گیا۔ لڑکی کے چہرے پہ خوف کے آثار ظاہر ہو گئے۔ اس نے لڑکے کو اپنی طرف کھینچ کر بھینچ لیا مبادا گولیاں چلانے والے اس کا محبوب اس سے ہمیشہ کے لیے چھین نہ لیں کہ کتنی ہی سہاگنیں اس وادی میں اجڑ چکی تھیں۔ سرحد پار سے آئے اس لڑکے کی مقامی لڑکی کے ساتھ محبت کسی ارادے کے تحت پروان نہیں چڑھی تھی بلکہ یہ تو اس کائناتی روح کے تحت ہو گئی تھی جو اپنے اظہار کے لیے لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی۔

وادی کے تین بخرے ہو چکے تھے۔ یہ تین حصے تین علیحدہ ملکوں کے پاس تھے۔ ان میں سے دو بڑے ملک تھے اور ایک چھوٹا ملک۔ اپنے حقوق کی اس جدوجہد میں اب تک نہ جانے کتنے لوگ مارے جا چکے تھے۔ گولیوں کی آواز جاری تھی جو اس بات کی علامت تھی کہ وادی کی سڑکوں پہ ایک بار پھر بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا تھا۔ فائرنگ کی نہ تھمنے والی آواز نے لڑکے میں اضطراب کی کیفیت پیدا کی تو اس نے لڑکی کا ماتھا چوما اور زیر لب شعر پڑھے۔

مر رہے ہیں انسان اکبر میاں جیسے ٹپکتی چھت سے آخری بارش کا پانی
کھڑی ہے زندگی محو حیرت یہاں، سوائے خدا سب کچھ ہے فانی
کچھ غم کچھ حسرتیں، کچھ ظلم کچھ ضابطے، کہیں تو حساب ہو گا ضرور
کہیں ہوس کہیں بے بسی، زندگی رات، موت صبح، ختم ہوئی کہانی
۔ ۔ ۔

صبح صبح باہر دھند کا راج تھا۔ کیفے میں ناشتہ ختم کرنے کے بعد لڑکا دوسری بار گرم چائے کے سپ لے رہا تھا۔ ساتھ والی میز پہ تین افراد آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ دہائیوں سے وادی پہ چھائے ظلم کے سیاہ بادل اب چھٹنے کو ہیں۔ ”اقوام عالم کے اجلاس میں قرارداد پاس ہو گئی ہے کہ وادی کا کنٹرول مختصر عرصہ کے لیے عالمی امن فوج سنبھال لے گی اور پھر مقامی آبادی کو اختیار دے دیا جائے گا کہ آیا وہ خود مختار حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں؟ یا پہلے سے جس ملک کے زیر کنٹرول تھے واپس اسی کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔ یا تینوں ممالک میں سے جو چھوٹا ملک ہے اس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں؟“

۔ ۔

وادی میں مغربی ممالک کے فوجیوں پہ مشتمل عالمی امن فوج کو آئے دو سال سے زیادہ عرصہ ہو چلا تھا۔ نہ تو وادی کے لوگوں سے کسی قسم کی کوئی رائے مانگی گئی نہ ہی ان کے مستقبل کا کوئی فیصلہ ہو سکا تھا۔ وادی کے تینوں حصوں میں عالمی فوج کا کنٹرول تھا۔ عجیب بات تھی کہ تینوں حصوں کے لوگ ایک دوسرے سے ملاقات نہ کر سکتے تھے۔ اگر چہ ماضی جیسا خون خرابہ نہ تھا لیکن مقامی لوگوں میں بے چینی، اضطراب اور گھٹن کی کیفیت پائی جاتی تھی۔ لوگ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ طاقتور ممالک سے آئی عالمی فوج وادی میں اپنے قیام کا عرصہ کیوں بڑھاتی جا رہی ہے؟ وادی کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کیوں نہیں کرنے دیتی؟

۔ ۔

سرحد پار سے لڑکے کو اطلاع ملی کہ اس کی ماں شدید بیمار ہے اور وہ مرنے سے پہلے اپنے لخت جگر کا منہ دیکھنا چاہتی ہے۔ پہاڑوں پہ برفباری ہو جانے سے ہوا میں بہت زیادہ خنکی آ چکی تھی۔ لڑکا اور لڑکی دونوں ایک دوسرے سے اپنے جسم لگا کے بیٹھے ہوئے تھے ایسے جیسے یخ بستہ برفانی ہوا میں پرندوں کے جوڑے درخت کی شاخ پہ ایک دوسرے سے خود کو جوڑ لیتے ہیں کہ جسموں کی حدت سے اگلی صبح کا سورج نکلنے سے پہلے ناقابل برداشت ٹھنڈ سے ایک دوسرے کو سہار ا دے سکیں کہ یہی قانون قدرت ہے۔ انسان اپنی بے چینیوں اور مشکلات میں اضافہ اس وقت کرتا ہے جب وہ قانون فطرت کے سامنے اپنے بنائے ہوئے جبر کے قوانین لاتا ہے۔ سکون تو بس فطرت کی پیروی میں ہی ہے۔

”میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی“ لڑکی منمنائی۔

”نہیں، عالمی امن فوج نے وادی کے چاروں طرف خاردار تاریں لگا دیں ہیں۔ اب پہلے کی طرح نہ تو وادی میں داخل ہوا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے باہر نکلا جا سکتا ہے“ لڑکے نے کہا۔ پھر اپنی بات مزید بڑھاتے ہوئے کہا، ”ماں سے مل کے میں لوٹ آؤں گا۔ پھر ہم دونوں شادی کریں گے، ہمارے بچے ہو گے۔ جب وادی کے مستقبل کا فیصلہ ہو جائے گا تو پھر میں تمہیں اور ہمارے بچوں کو اپنے ملک اپنی ماں کے پاس لے جاؤں گا۔“

دونوں ایک دوسرے کو کچھ دیر تک دیکھتے رہے اور پھر بغل گیر ہو گئے۔ وقت تھم گیا یا چلتا رہا، دونوں کو اس کا احساس تک نہ ہو سکا۔

۔ ۔

محکمہ موسمیات کی تین روز کی بارشوں کی پیش گوئی کے مطابق آج بارش کا آخری دن تھا۔ منصوبہ کے مطابق لڑکے کو آج رات کو ہی تنگ دریا کو عبور کر کے سرحد پار اپنے ملک میں داخل ہونا تھا۔ بارش شام سے ہی جاری تھی۔ آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی۔ لڑکا پہاڑی ڈھلوان پہ آہستہ آہستہ نیچے اترتا ہوا دریا کی جانب بڑھ رہا تھا۔ آسمان پہ گہرے بادل، تاریک رات اور شدید ٹھنڈ کا راج، لڑکے کو امید تھی کہ مورچوں میں موجود فوجی بارش اور ٹھنڈ سے بچنے کے لیے مورچوں کے عقب میں بنے کمروں میں جا چکے ہوں گے۔ اگر چہ کسی وقت بادلوں کے گرجنے کے ساتھ آسمانی بجلی بھی چمکتی تھی تاہم اسے امید تھی کہ وہ فوجیوں کی نظروں میں نہیں آ سکے گا۔

جیسے ہی وہ دریا کے قریب پہنچا۔ پہاڑ کی چوٹی پہ بنے ایک فوجی مورچے سے مشین گن سے فائرنگ ہوئی۔ گولیوں کی بوچھاڑ لڑکے کے جسم کے آر پار ہو گئی۔ لڑکا چکرا کے پتھریلی ڈھلوان پہ ہی گر گیا۔ سرخ خون اس کے جسم سے نکل کے ڈھلوان پہ پھیلا تو بارش کا پانی اسے اپنے ساتھ بہاتا ہوا نیچے اژدھے کی طرح پھنکارتے پہاڑی دریا میں لے گیا جس کے پانی کا رخ لڑکے کے ملک کی طرف تھا۔ خون اپنے پیدا کرنے والی ماں کے لیے بطور امانت دریا کے تیز پانی میں اپنی منزل کی طرف رواں تھا آخری بارش کے پانی کے ساتھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments