نوجوان بھاگ کر شادی کیوں کرتے ہیں؟


حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق کل آبادی کے قریبا 6 سے 7 فیصد لڑکیاں اور لڑکے گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہیں جبکہ ان میں سے 1.99 فیصد اپنی شادی کے بعد اپنے گھر لوٹ آتے ہیں۔ گھر سے بھاگنے کا رجحان سب سے زیادہ 15 سے 19 سال کے نوجوانوں میں دیکھا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 1.5 ملین سے زائد نوجوان گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وجوہات ہو سکتی ہیں کہ نوجوان طبقے کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے والدین سے بغاوت کر کے اپنی نئی زندگی کی شروعات کرتے ہیں؟

پہلے 1.99 فیصد جو گھر لوٹ آتے ہیں ان کی بات کر لی جائے کہ وہ کیوں لوٹ کر آتے ہیں؟ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان ٹین ایجرز کا دوسرا پارٹنر ان کے ساتھ بے وفائی کر جاتا ہے اور انھیں اس بات کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ جو انھوں نے خود فیصلہ لیا تھا وہ غلط تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ ٹین ایجرز بہت احساس ہوتے ہیں۔ اپنوں کا دکھ ان سے دیکھا نہیں جاتا۔ وہ اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر گھر آ کر والدین کے قدموں میں گر جاتے ہیں۔ اب یہ ان والدین پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس کے پارٹنر کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔

اب ذرا بات اس بڑی تعداد کی جائے کہ آخر وہ گھر سے بھاگ کر شادی کیوں کرتے ہیں اور بعد میں گھر لوٹ کر بھی نہیں آتے؟ وہ والدین جو سب کچھ ان کے سامنے لا کر رکھتے ہیں، ٹین ایجرز ان سے بغاوت کیوں کرتے ہیں؟ اس کی وجوہات کافی ساری ہو سکتی ہیں۔ کیوں کہ ہر انسان کی اپنی ایک ڈفرنٹ سٹوری ہوتی ہیں۔ لیکن کچھ وجوہات ایسی ہیں جو موسٹ کامن ہیں یا پھر یوں کہہ لیجیے کہ ہر ڈفرنٹ سٹوری میں ان وجوہات کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔

سب سے پہلے تو والدین کا وہ کلیم ہے کہ ان کے سوا بچے کو کوئی اچھی طرح سمجھ نہیں سکتا۔ بچہ خود بھی نہیں۔ بچوں کو کیا معلوم کہ صحیح اور غلط کیا ہے؟ بچوں کو زندگی کے ہر اک موڑ پر اتنا ڈانٹ کر رکھا ہوتا ہے کہ شادی جیسی اہم بات بھی وہ اپنے والدین سے نہیں کر پاتے۔ اور اگر لڑکیوں کی بات کی جائے تو انھیں شروع ہی دب کر جینا سکھایا جاتا ہے اور انھیں اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کا فیصلہ والدین کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ والدین کو لگتا ہے جو فیصلہ وہ کریں گے صحیح کریں گے۔ اسی بات سے ساری کشمکش شروع ہوتی ہے۔ انھیں لگتا ہے شادی صرف جنسی خواہش پوری کرنے کا نام دوسرا نام ہے۔

دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ لڑکی کی شادی کرتے وقت لڑکے کا سوشل سٹیٹس دیکھا جاتا ہے کہ آیا اس کے پاس نوکری ہے یا نہیں۔ گھر ہے یا نہیں۔ اس چکر میں وہ لڑکی کی پسند بھول جاتے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ اس لڑکے کو ان کی بیٹی چاہتی ہے اور ساری زندگی اس کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اس سلسلے میں لڑکے سے بات کریں کہ اگر واقعی تو بھی ہماری بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو دو تین سال کے دوران کچھ اپنا بنا کے دکھائے۔

اگر وہ واقعی سچ میں چاہتا ہوا تو بنا کر دکھائے گا۔ لیکن کسی دوسرے کے ساتھ شادی طے کر دینا سراسر غلط ہے۔ پھر شادی سے ایک دو دن پہلے لڑکی گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ پھر سارا الزام لڑکی پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ لڑکوں کے کیس بھی زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے۔ بچپن میں ہی اس کی کسی ماما یا پھوپھو کے لڑکی سے منگنی کر دی جاتی ہے۔ جب اسے یہ بھی صحیح سے پتا نہیں ہوتا کہ اسے کون سی چیز زیادہ پسند ہے۔ اب یہاں ایک نہیں بلکہ دو زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ ایک لڑکے کے ساتھ اور دوسری لڑکی کے ساتھ۔

پھر وہ ذات پات والی وجہ سامنے آتی ہے کہ چاہے جو بھی ہو خاندان سے باہر شادی نہیں کرنی۔ آج کے دور میں بھی خاص کر سید خاندانوں میں یہ کاسٹ سسٹم پایا جاتا ہے کہ ایک سید زادی سے ایک سید زادہ ہی شادی کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی کافی سارے لڑکے اور لڑکیاں گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہیں۔ پھر آتے ہیں بڑے گھرانے کے وہ لڑکے اور لڑکیاں جن کی بہت بڑی فیملیز ہوتی ہیں۔ بہت بڑی فیملی کی وجہ سے انھیں لگتا ہے کہ اگر پسند کی شادی کی تو کافی سارے رشتے دار ہمارے والدین سے منہ موڑ لیں گے، اس لیے وہ یہ قدم اٹھا کر سارا کرتا دھرتا خود کو بنا لیتے ہیں۔

یہ وجوہات تو وہ ہیں جو بہت زیادہ عام ہیں اور ان وجوہات کو ختم کرنا زیادہ مشکل نہیں، بس سوچ میں تھوڑا سا بدلاؤ لانا ہے۔ والدین اپنے بچوں کے لیے سب کچھ قربان کر دیتے ہیں، سوائے اس سوچ کے جو ان پر معاشرے اور خاندان سے تھوپی جاتی ہے۔ ان وجوہات کو اگر اب بھی ختم نہ کیا گیا تو اسی طرح نوجوان حضرات بغاوت کر کے گھر سے بھاگتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments