ایماندار خان ساماں


پچھلے کئی سالوں سے ایک فقرہ شب و روز ہماری سماعت پر وارد ہو تا رہتا ہے کہ حاکم وقت ایماندار ہے اور پھر حاکم کی شہرہ آفاق ایمانداری کی تعریف یوں بیان کی جاتی ہے کہ بحر الکاہل کے گم گشتہ جزائر سے لے کر افریقہ کے لق دق صحرا تک۔ کہیں بھی حاکم کی کوئی جائیداد نہیں ہے۔ حاکم کا سمندر پار کوئی بھی خفیہ یا عیاں کھاتہ نہیں ہے۔ حاکم سادہ کپڑے، جوتے پسند کرتا ہے، رولیکس کی گھڑیاں نہیں پہنتا، فراری میں فراٹے نہیں بھرتا اور ہمہ وقت بدعنوانی سے لڑنے کا وعظ دینے پر کمربستہ نظر آتا ہے۔ ایمانداری کی اس تعریف کو ہم ایک فرضی کہانی پر چسپاں کر کے دیکھتے ہیں۔

ایک نواب کو خانساماں کی ضرورت پڑ گئی۔ اس نے اسامی کا اشتہار لگا یا تو امیدواروں کی لائن لگ گئی۔ جاب انٹرویو کے دوران نواب نے ایک امیدوار خانساماں سے سوال کیا کہ میں تمھیں یہ نوکری کیوں آفر کروں؟ امیدوار خانساماں بڑے جوش سے سینے پر ہاتھ مار کر بو لا۔ ”کیونکہ میں ایماندار ہوں“ ۔ نواب کو امیدوار کا یہ جواب پسند آیا اور یوں ایماندار خانساماں نے نواب کا باورچی خانہ ”سنبھال“ لیا۔ نئے خانساماں کی تعیناتی کی خوشی میں نواب نے اپنے دوستوں کو دعوت دے ڈالی۔

دعوت کے موقع پر جب نواب کے دوستوں نے ایماندار خانساماں کے پکوان چکھنا شروع کیے تو ان بے چاروں کے منہ سے چیخیں اور کانوں سے دھواں نکلنے لگا، وہ بد حواسی کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ نواب نے خانساماں کو خوب برا بھلا کہا لیکن خانساماں کی زبان پر یہی کلمات جاری تھے۔ ”جناب! میں نے آج تک کسی کے باورچی خانے سے مٹر کا ایک دانہ بھی نہیں چرایا۔ جناب! میں نے آج تک حساب کتاب میں ایک پیسے کی ہیرا پھیری نہیں کی۔ جناب! میں ایک ایماندار خانساماں ہوں“ ۔

خود حاکم وقت اور حاکم وقت کے پرستار ایمانداری کی جو تعریف پیش کرتے ہیں عین وہی تعریف فرضی کہانی کا خانساماں اپنے لیے تراشتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ خانساماں ایماندار نہیں بلکہ دروغ گو اور فریبی تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ انڈا بھی نہیں ابال سکتا۔ خانساماں کو اپنی نا اہلی کا خوب علم تھا لیکن اس کے باوجود وہ امیدواروں کی لائن میں لگا۔ بعد ازاں اس نے نواب کو بھی سچ نہیں بتایا کہ مزے دار پکوان تیار کرنا تو دور کنار۔ وہ پیاز بھی سلیقے سے چھیل نہیں سکتا۔

حاکم وقت نے بھی عوام کو مزے مزے کے سہانے خواب دکھائے لیکن ہر سہانا خواب چکنا چور ہو تا چلا گیا۔ اب لوگ اعتراض کرتے ہیں، خفا ہوتے ہیں تو آگے سے جواب ملتا ہے۔ ”میں ایماندار ہوں“ ۔

ایمانداری کا آغاز سچ سے ہو تا ہے اور انجام بھی سچ پر ہی ہو تا ہے۔ اصل ایماندار انسان سب سے پہلے خود سے سچ بو لتا ہے۔ وہ اپنی کوتاہیوں، کمزوریوں، نالائقیوں، غلطیوں، خامیوں اور نا اہلیوں کو تسلیم کر تا ہے۔ وہ کبھی اس کام میں ہاتھ نہیں ڈالتا جو کام اس کی صلاحیت و اہلیت سے باہر ہو (یعنی وہ ایماندار خانساماں نہیں بنتا) ۔ ایک ایماندار انسان جیسا ہو تا ہے ویسا ہی لوگوں پر ظاہر کر تا ہے، وہ اداکاری نہیں کرتا، ڈھونگ نہیں رچا تا۔ غرض ایمانداری صرف مالی امور تک محدود نہیں ہوتی، اس کا دائرہ وسیع ہے اور اس کا آغاز خود احتسابی سے ہو تا ہے۔

اگر حاکم وقت فہم و فراست، فکر و دانش، دور اندیشی، عدل و مساوات اور انکساری و عاجزی سے عاری ہوتو کیا ہم ایسے حاکم کو ایماندار مان سکتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر ایماندار خانساماں کے ”پکوانوں“ کا لطف اٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments