گینجی کی کہانی: قدیم روایت کا جدید آہنگ



بعض ناقدین ادب ہست افسانہ کو جواز فراہم کرنے کے لیے ناول کی معدومیت کا راگ الاپنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ قارئین ادب میں ایک تعداد ان کی ہم نوا اور ہم خیال ہو لیکن اس نقطہ نظر پر اگر ہم غیر جذباتی انداز میں سوچیں تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ مذکورہ بالا رائے سے جزوی اتفاق تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے کلی طور پر قبول کرنے سے کئی پیچیدہ سوالات جنم لیں گے۔ مثلاً یہ کہ اگر ناول کا باب مکمل ہونے پر افسانے کا باب شروع ہوا تو پھر آج بڑے بڑے پبلشرز اور لکھاریوں سمیت، کتب خانوں میں نئے اور جدید ناولوں کا جنم اور موجودگی چہ معنی دارد؟ اگر ہم آج کے عہد برق رفتار میں عدیم الفرصتی کے باعث ناول کی طوالت پر نکتہ چینی کر کے اسے رد کریں گے تو ”علی پور کا ایلی“، ”الکھ نگری“، ”اداس نسلیں“، ”آگ کا دریا“ کی طوالت پر کیا کہیں گے؟ اگر کوئی اس نکتے کو ماضی بعید کہ کر انکاری ہو تو پھر ماضی قریب اور فی زمانہ، ”خس و خاشاک زمانے“، (مستنصر حسین تارڑ)، ”بے پناہ شادمانی کی مملکت (ارون دھتی رائے )“، ”غلام باغ (مرزا اطہر بیگ)“، ”کئی چاند تھے سر آسماں (شمس الرحمان فاروقی)“ اور ایسے کئی ایک بڑے ناولوں کی قبولیت اور پذیرائی کا سبب کس چیز کو ٹھہرائیں گے جن میں نو سو سے لے کر ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ صفحات پر کہانی پھیلی ہوئی ہے۔ مغرب میں تو سلسلہ وار ناول لکھنے کی روایت اب بھی پوری شدت سے جاری ہے۔

یہ تمہید باندھنی اس لیے ضروری تھی کہ آج کی یہ محفل دنیا کے اولین ناول ”گینجی کی کہانی“ پر مکالمے کے لیے برپا کی گئی ہے جو اپنی تمام تر طوالت اور ضخامت کے باوجود کئی حوالوں سے مسلمہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ مورا ساکی شی کی بو جب یہ کہانی ضبط تحریر میں لا رہی تھی تو اس وقت اس کے ذہن میں کیا تھا لیکن کہانی میں اس کے ایک ہم نام کردار سے قاری بہت سی گرہیں کھولنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

یہ ناول دراصل ایک شہزادے گینجی کے معاشقوں اور زندگی کے نشیب و فراز کی کہانی ہے جس میں اس دور کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور نفسیات کو بھر پور طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ پیش نظر رہے کہ اس دور میں ناول کا کوئی باضابطہ سانچہ موجود نہ تھا جس کی بنیاد پر اس کے حسن و قبح کو پرکھا جائے، بلکہ یہاں ایک حیران کن بات تو یہ ہے کہ یہ ناول سے بھی قدیم ترین صنف داستان سے قبل لکھا گیا، لیکن اس کے باوجود اس پر داستان کے اثرات کا سایہ تک نظر نہیں آتا، البتہ کہیں کہیں بعض واقعات کے بیان میں داستانوی رنگ ضرور جھلکتا ہے مگر بغور دیکھا جائے تو ایسا محض کہانی میں تجسس ابھارنے کے لیے کیا گیا ہے یا اس قسم کے عناصر کہانی میں ضمنی حیثیت کے حامل ہیں۔ مثلاً بعض مقامات پر مذہبی نظریات اور بیماریوں کے حوالے سے ضعیف الاعتقادی سامنے آتی ہے جو عموماً داستانوں کا جزو لاینفک سمجھا جاتا ہے لیکن اس حوالے سے ایک حقیقت پسندانہ نقطہ نظر یہ بھی بھی ہے کہ اس قسم کی قباحتیں آج کے سائنسی دور میں بھی موجود ہیں۔

جہاں تک ناول کے ہیرو ”گینجی“ کا تعلق ہے تو اس ضمن میں یہ بات توجہ طلب ہے کہ ایک ہزار سال قبل معرض وجود میں آنے والا یہ کردار کسی داستانوی ہیرو کی طرح مافوق الفطرت اور سپر نیچرل صلاحیتوں کا حامل نہیں بلکہ یہ ایک ایسا کردار ہے جو پر مسرت لمحوں میں خوشیاں سمیٹتا ہے اور پریشانیوں میں پریشان نظر آتا ہے۔ اس کی عشق بازیاں اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مزاج میں آنے والی تبدیلیاں یہ ثابت کرتی ہیں کہ ایک مہذب انسان کے روپ میں ڈھلنے تک کے اس سفر میں اس نے کئی ارتقائی مراحل طے کیے۔ اس حوالے سے یہ چند جملے ملاحظہ ہوں :

”گینجی اب بھی سانجو جاتا اور پہلے کے مقابلے میں وہاں کی عورتوں سے مہذب اور ان کی بیٹوں کی تعلیم کے معاملے میں زیادہ توجہ دیتا تھا۔ اب اسے عشق بازیوں میں دل چسپی نہیں رہ گئی تھی۔“ ص۔ 24۔ 223

”گینجی کی زندگی متواتر ناکام تبدیلیوں اور مصیبتوں کا مجموعہ بن گئی تھی۔ اس کے ذہن میں ماضی اور مستقبل کے پریشان کن خیالات ایک دوسرے کا پیچھا کر رہے تھے۔“ ص۔ 246

جاپان کے تاریخی شہر کیوتو سے اٹھنے والی یہ کہانی کئی حوالوں سے ماورائے زمان و مکان کا احساس دلاتی ہے، لیکن اس میں جس طریقے سے دیہاتوں اور شہروں کی تصویر کشی کی گئی ہے اسے پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ دیہات اور شہر میں موجود یہ خلیج آج کا بھی بیانیہ ہے۔ جاپانی تہذیب و تمدن کے ترقی پذیر اور پسماندہ محروم علاقوں کا مطالعہ کرتے وقت بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ آج کے دور میں موجودہ تفریق کی بات ہو رہی ہے۔ شاید کچھ ناقدین اور قارئین یہ کہیں کہ شہر اور گاؤں کے مسائل اور وسائل کا تذکرہ کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جس زمانے میں ان چیزوں کو ایک ادب پارے کا حصہ بنایا گیا وہ کتنا اہم اور توجہ طلب ہے۔

گینجی کی یہ کہانی دراصل اس زمانے اور ماقبل کے آرٹ اور ادب کی تاریخ ہی نہیں بلکہ اس میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کچھ خاص فلسفہ ہائے حیات اور رویوں پر سیر حاصل بحث بھی ملتی ہے۔ باقاعدہ ایک منظم اور مربوط نظام حکومت میں بادشاہوں، شہزادوں، شہزادیوں، وزیروں کے کارنامے، ناکامیاں، عہدے اور استعفے، باہمی مشاورت سے منصوبہ بندی کے علاوہ قدم قدم پر ہماری ملاقات شاعروں اور فن کاروں سے ہوتی ہے۔ ان کے نامانوس ناموں سے تھوڑی بہت الجھن ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن یہ نام کہانی کی روانی میں رخنہ ڈالنے کا سبب ہرگز نہیں بنتے، بلکہ یہ اول تا آخر حرکت کرتی اور آگے بڑھتی ہوئی کہانی ہے۔

دیکھا جائے تو واقعاتی سطح پر یہ انہونیوں کا مجموعہ نہیں بلکہ اس میں ہمیں معمول کے کر دار، معمول کے واقعات میں نظر آتے ہیں۔ مصنفہ نے مختلف موڑ اور مراحل پر بوقت ضرورت تصادم کی صورت حال ضرور پیدا کی ہے لیکن اس کہانی میں کردار ایک دوسرے سے زیادہ حالات سے لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک ناول کے موجودہ اسلوب اور ڈکشن کا تعلق ہے تو یہاں ایک اعتراف ضروری سمجھتا ہوں کہ اس پہلو پر رائے دیتے ہوئے میں خود ایک الجھن کا شکار ہو جاتا ہوں کہ ناول کی تعریف کروں یا ترجمے کو سراہوں۔ کیونکہ زبان و بیان کا جو آہنگ ہمیں اپنی گرفت میں رکھتا ہے وہ قدیم اور جدید کی ایک خوب صورت آمیزش ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس اسلوب پر دور حاضر کی چاپ زیادہ گہری محسوس ہوتی ہے۔ جس کے باعث نامانوس ہونے احساس کہیں بھی نہیں ابھر تا۔ اس کے سادہ اور سلیس اسلوب پر کہیں بھی تصنع کا شائبہ نہیں ہوتا حالانکہ متن میں اشعار کی کثرت سے اس بات کا قوی امکان پیدا ہونے کا خدشہ تھا، تاہم جس چابک دستی سے اس ممکنہ در آنے والے سقم سے دامن بچایا گیا ہے اس کے لیے مصنفہ سمیت مترجم اور مدون لائق صد ستائش ہیں۔ ذیل میں درج یہ چند جملے میری بات کو سند فراہم کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔

”قدیم زمانے کے لوگ کہا کرتے تھے، خفیہ محبت عیاں محبت سے زیادہ گہری ہوتی ہے۔“
”عورت خوف زدہ رہتی تھی، جیسے گینجی قدیم کہانیوں کا کوئی آسیب ہو۔“ ص۔ 95
”یہ اس کے خواب کی عورت تھی، کسی قدیم رومانوی پریت کی مانند زائل ہو گئی تھی۔“ ص۔ 102

مذکورہ بالا تمام حوالے جہاں قدیم سے قدیم تر کی طرف مراجعت کر کے دیکھنے کے کچھ نئے دریچے وا کرتے ہیں وہاں انسانی نفسیات اور رسم و رواج کو عصر حاضر سے ہم کنار بھی کرتے ہیں۔ غرض اس ناول کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اس میں علمی حوالے سے تحقیق کی باتیں اس دور کے علم دوستی کو سامنے لا رہی ہے تو بعض مقامات پر کرداروں کا مکالمہ سنہرے اقوال معلوم ہوتے ہیں، جن میں زندگی کی ترتیب و تنظیم ایک پیغام پوشیدہ ہوتا ہے۔ ناول میں ایک گارڈ افسر اور وزارت کے ایک کار پرداز کے مابین عورت پر ہونے والا مکالمہ خاصے کی چیز ہے جو مختلف پہلوؤں کا احاطہ کر کے اس معاشرے اور سماج کے کئی رویوں کو سامنے لاتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان مضبوط رشتے میں مصلحت اور قربانی کا جذبہ عورت کی فطرت ہے۔ ذیل میں درج یہ ایک ہی جملہ اس حوالے سے اپنے اندر بے پناہ گہرائی گیرائی رکھتا ہے۔

”ہم سب معیار کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اس کے پانے میں ناکام بھی رہتے ہیں۔“ ص۔ 63

گینجی کی کہانی ”میں معاشرتی تصویریں ہوں یا کسی مخصوص منظر کے جزئیات کا تذکرہ و تفصیل، مصنفہ نے لفظوں سے ایسی ایسی تصویریں تراشی ہیں کہ پڑھ کر رشک آتا ہے، بلکہ اس تمثال کاری میں تو بعض اوقات ایسے مقامات بھی آ جاتے ہیں کہ لاشعوری طور پر قاری کی قوت شامہ تک متحرک ہو جاتی ہے۔ ذیل کے یہ اقتباسات مذکورہ دعوے پر دال ہیں۔

”چمک دار چاندنی کا سیلاب آ گیا تھا، بنگلے کے سارے کونے روشن ہو گئے تھے۔ کسی شاعر کی نقل کرنا چاہ رہا تھا، جو برآمدے میں گئے بغیر رات کا آسمان دیکھ سکتا تھا۔ غروب ہوتے چاند میں جادوگری جیسی افسردگی تھی۔“ (ص۔ 266

ایک مقام پر تو خوشبو کے حوالے سے پڑھتے ہوئے محسوس ہونے لگتا ہے جیسے خوشبو کا عکس مجسم اور متحرک صورت میں بصارتوں سے ٹکرایا ہے۔

”اس کی پسپائی سے غم کا دل خراش ثبوت مل گیا تھا۔ اس کی عورتوں کی بے حجابانہ آمدورفت سے ریشم کی نرم سرسراہٹ پھیل رہی تھی۔ ہوا تیز ہو گئی تھی، قربان گاہوں اور گینجی کی اپنی ہلکی ہلکی خوشبو میں، گھل مل جانے کے لیے، جس میں مغربی جنت کے خیالات شامل تھے اور سیاہ بخور کی پر اسرار خوشبو چلمن سے گزر کر آ رہی تھی۔“ ص۔ 36۔ 235

اس ناول کے متن میں استعمال ہونے والی موثر علامتوں، خوب صورت تشبیہات و استعارات کا ایک سلسلہ ہے جو کسی مواج سمندر کی مانند کہانی کے تاثر کو مد و جزر کی صورت متحرک رکھتا ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ اس نثر میں شعریت کے عناصر باہم ملے ہوئے ہیں جس نے نہ صرف اس ناول کو بلکہ اردو میں ہونے والے اس ترجمے کو بھی ایک ادبی شان کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے۔ گینجی کے سفر پر روانہ ہوتے وقت عورتوں کی کیفیت ہو یا روانگی سے قبل والد کی قبر پر اس کا ملال، دونوں مناظر بھر پور جذبات و احساسات سے مملو ہیں جو قاری کے قلب و ذہن کو متاثر کرتے ہیں۔

”اس کا ملال ایسا تھا کہ چیتوں اور بھیڑیوں تک کو آبدیدہ کر دیتا۔“ ص۔ 249

مضمون کی طوالت سے بچنے اور آپ کو مزید کوفت سے بچانے کے لیے اپنی بات سمیٹتے ہوئے یہاں اگر دو سوالات آپ کے سامنے رکھوں تو ادب کے ایک کمزور قاری کی حیثیت سے بھی ان کا جواب آپ کے لیے سہل ہو گا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ناول کے موجودہ سانچے اور تنقیدی معیارات پر یہ ناول پورا اترتا ہے؟ تو تمام داخلی شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا جھجک اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں دیا جا سکتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ لانجائنس نے اعلیٰ اور عظیم ادب کے حوالے سے جو نظریۂ ترفع پیش کیا تھا کیا یہ فن پارہ اس پر پورا اترتا ہے۔ تو ناول کی آفاقیت کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ یہاں بھی جواب اثبات کی صورت میں ملے گا۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ ناول کے ابتدائی خد و خال کا تعین اگر اس کہانی کو مد نظر رکھ کر کرنا ہے تو میرے نزدیک اسے عالمی ادبیات کے کلاسیک میں شمار ہونا چاہیے۔

یہ ایک مختصر سا جائزہ تھا جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا۔ اگر حواشی میں مدون و محقق کے آخری انکشاف کو درخور اعتنا سمجھا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ناول کے مزید نئے گوشے اور پہلو روشن ہونے کے امکانات موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments