پاکستان اور بدلتے ہوئے عالمی حالات


\"\"دنیا بھر سے امریکی صدر کے متعصبانہ اور مسلمان دشمن اقدامات کے خلاف آواز بلند ہونے کے تین روز بعد بالآخر اسلامی تعاون تنظیم OIC نے ایک بیان میں سات مسلمان ملکوں کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ بند کرنے کے فیصلہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے انتہا پسند عناصر کو تقویت ملے گی اور وہ اپنی پروپیگنڈا مہم کو تیز کریں گے۔ آج ہی پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دہشت گردوں کی بجائے، ان کے ستائے ہوئے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی اور وہ متاثر ہوں گے۔ چوہدری نثار علی خان نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت جماعت الدعوۃ کے خلاف کارروائی کرنے والی ہے۔ اس کا اعلان کل کیا جائے گا۔ اس دوران یہ خبریں بھی موصول ہوئی ہیں کہ لشکر طیبہ کے سربراہ کو جو اب جماعت الدعوۃ کے نام سے ملک بھر میں متحرک تنظیم چلاتے ہیں ۔۔۔۔۔ لاہور میں ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے یہ اقدام مبینہ طور پر اس امریکی دھمکی کے بعد کیا ہے کہ اگر پاکستان نے لشکر طیبہ کے خلاف کارروائی نہ کی تو پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔ اگرچہ امریکی صدر نے ابھی تک خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا ہے لیکن حلف اٹھانے کے فوری بعد جن عالمی لیڈروں سے انہوں نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا تھا، ان میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی شامل تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت بھارت کے ساتھ اوباما دور میں استوار ہونے والے تعلقات کو مزید فروغ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ صدر ٹرمپ ابھی میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے اور اس کے اخراجات میکسیکو سے وصول کرنے اور سات مسلمان ملکوں کے باشندوں پر امریکہ داخلہ پر پابندی لگانے جیسے احکامات کے بعد سامنے آنے والے مباحث اور مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے علاوہ آسٹریلیا ، جاپان ، فرانس اور جرمنی کے لیڈروں سے فون پر بات کی ہے۔ ان سب لیڈروں کی ترجیحات میں امیگریشن کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے اقدامات ، نیٹو کا مستقبل اور داعش کے خلاف جنگ جیسے موضوعات تھے۔ ابھی امریکی صدر کو چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کرنے اور اس کے خلاف اپنی حکمت عملی واضح کرنے کا موقع نہیں ملا ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ امریکہ چین کے خلاف جو بھی اقدامات کرے گا، ان کی تکمیل کےلئے اسے بھارت کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ صدر باراک اوباما نے بحر جنوبی چین میں چین کی نقل و حرکت اور اقتدار اعلیٰ کے تنازعہ کے باعث ہی بھارت کے ساتھ قربت اختیار کی تھی۔ امریکہ کا خیال ہے کہ بھارت کو بحر ہند اور بحر جنوبی چین میں چین کےلئے مشکلات پیدا کرنے کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی آبادی اب چین سے تجاوز کر چکی ہے اور اس کی شرح پیداوار بھی 7 فیصد سالانہ تک رہتی ہے۔ اس طرح بھارتی معیشت کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے مغربی حلیف چین کا اقتصادی و تجارتی مقابلہ کرنے کےلئے بھارت کو پرکشش منڈی سمجھتے ہیں۔ اسی لئے اوباما دور میں امریکہ نے پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ ایٹمی تعاون کا معاہدہ کیا اور جوہری آلات و ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے ملکوں کے گروپ این ایس جی میں بھارت کی یک طرفہ شمولیت کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی کیا گیا تھا جس کے تحت دونوں ملک بوقت ضرورت ایک دوسرے کے فوجی ٹھکانے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ معاہدہ سراسر امریکی مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اس کی ضرورتیں پوری کرے گا لیکن نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں دوری پیدا کرنے کےلئے اس قسم کا معاہدہ ضروری سمجھا۔

امریکہ اب برصغیر میں پاکستان کی بجائے بھارت کو اسٹریٹجک پارٹنر سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ تعلقات کو وسیع کرنا چاہتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آنے کی صورت میں بھارت کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو مزید مستحکم کریں گے۔ اس کے علاوہ چین کے بارے میں ان کا لب و لہجہ تند و تیز رہا ہے۔ بلکہ منتخب ہونے کے بعد عہدہ سنبھالنے سے پہلے عبوری مدت میں ٹرمپ نے جن عالمی لیڈروں سے ٹیلی فون پر بات چیت کی ان میں تائیوان کی صدر بھی شامل تھیں۔ اس طرح انہوں نے چین کے ساتھ ون چائنا پالیسی کے خاموش سفارتی معاہدہ کی خلاف ورزی کی تھی۔ اور یہ بھی اشارہ دیا تھا کہ امریکہ کےلئے اس پالیسی کو جاری رکھنا ضروری نہیں ہے۔ اس پر چین نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ون چائنا پالیسی‘‘ پر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ اور اگر امریکہ نے یہ ریڈ لائن عبور کرنے کی کوشش کی تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے۔ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ایشیائی ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدے ٹی ٹی پی کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سے چین کو فائدہ ہو گا۔ چین ٹی ٹی پی TTP کا رکن نہیں ہے۔ امریکہ کے اس معاہدہ سے نکلنے کے بعد وہ اس کی جگہ لینے اور قیادت کا خلا پورا کرنے کیلئے تیار ہوگا۔

اس پس منظر میں مستقبل میں چین کے بارے میں امریکی پالیسی کےلئے بھارت کو بنیادی حیثیت حاصل ہوگی۔ ایسے میں پاکستان کی اہمیت افغانستان میں امریکی پالیسیوں اور ضرورتوں تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ وہاں سے امریکی فوج واپس بلاتے ہیں یا بدستور وہاں امریکی موجودگی برقرار رکھیں گے۔ پاکستان بھی گزشتہ چند برسوں میں افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے یا افغانستان میں دہشت گرد حملوں کو کم کروانے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکا۔ اس وجہ سے افغانستان اور بھارت بھی پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور امریکہ بھی پاکستان پر افغانستان میں بدامنی کی ذمہ داری عائد کرتا رہا ہے۔ اس دوران البتہ روس اور چین نے افغان طالبان سے مراسم استوار کئے ہیں اور اس گروپ کو دہشت گرد گروپ کی بجائے اپنے ملک میں موجود غیر ملکی فوجوں کے خلاف جہدوجہد کرنے والے گروہ کی حیثیت دینے کے اشارے دیئے ہیں۔ طالبان دیگر مسلح جہادی گروہوں داعش اور القاعدہ کی طرح ملک سے باہر دہشت گردی میں ملوث نہیں رہے۔ نہ ہی افغانستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک ان کے نشانے پر ہے۔ جبکہ شام اور عراق میں پروان چڑھنے والے گروہ داعش اور یمن اور لیبیا میں مضبوط ہونے والا گروہ القاعدہ براہ راست امریکہ کےلئے خطرہ کا سبب ہے۔ صدر ٹرمپ دولت اسلامیہ یا داعش کے خلاف جنگ کرنے اور جیتنے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے امریکی فوج کی قیادت کو حکم دیا ہے کہ وہ 30 روز کے اندر رپورٹ پیش کریں کہ کس طرح داعش کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ کے نئے صدر غیر سیاسی پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ مسائل کا غیر روایتی اور اپنے دل میں سمایا ہوا حل نافذ العمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ پوری دنیا کےلئے یہ ایک نئی صورتحال ہے۔ تمام ملکوں کے سربراہ اس حقیقت کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ امریکہ کے حلیف اور مخالف ملک یکساں طور سے صدر ٹرمپ کے مزاج اور حکمت عملی کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کےلئے بھی اپنی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی کو امریکی قیادت میں تبدیلی کے تناظر میں از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہوگی۔ اب اگر پاکستانی حکومت نے درپردہ امریکی دھونس میں فیصلے کرنے کا آغاز کر دیا تو بہت جلد اسے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسے ناقابل اعتبار لیڈر کے ہاتھوں ہزیمت یا شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ وزیراعظم نواز شریف فوج کی قیادت اور امور خارجہ کے ماہرین کے ساتھ مل کر واضح اور دوٹوک پالیسی اختیار کریں تاکہ اگر صدر ٹرمپ بھارت نوازی میں پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا مناسب طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ جماعت الدعوۃ اور حافظ سعید کے خلاف کارروائی ملک میں انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے اہم اور جرات مندانہ قدم ہوگا لیکن یہ اقدام کرتے ہوئے یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہئے کہ پاکستانی حکومت امریکی دباؤ میں کارروائی پر مجبور ہوئی ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ بے شک دنیا کے طاقتور ترین ملک کے سربراہ ہیں اور وہ ناقابل یقین قوت فیصلہ کا مظاہرہ بھی کر چکے ہیں۔ تاہم امریکہ اور اس کے صدر کی بھی کچھ حدود اور مجبوریاں ہوں گی۔ پاکستان کےلئے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ اس نے اپنے ملک اور اس خطے میں امریکی ایجنڈے کےلئے کام کرنا ہے یا اب امریکہ کے تقاضوں سے قطع نظر اپنے قومی اور علاقائی مفادات کی روشنی میں ٹھوس اور واضح فیصلے کرنے ہیں۔ اب بھی اگر اسلام آباد واضح حکمت عملی تیار کرنے اور معروضی حالات کے مطابق اپنے آپشنز کا جائزہ لینے اور اقدام کرنے میں ناکام رہا تو مستقبل قریب میں اسے امریکہ کی بھبھکیوں اور بھارت کی جارحیت کا سامنا رہے گا۔ اس صورتحال سے نکلنے کےلئے نئے ساتھی بنانے ، امکانات تلاش کرنے اور ماضی کی غلط پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔

حافظ سعید اور اس قسم کے سب لوگوں کے خلاف کارروائی صرف امریکی تقاضے پورے کرنے کےلئے نہ کی جائے۔ بلکہ ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے نقطہ نظر سے نفرت اور انتہا پسندی کے فروغ کے لئے مذہب کو ذریعہ بنانے والے سب عناصر سے نمٹا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments