مرنے والا غلام رسول، مارنے والا عاشق رسول


سیاست دانوں کے لئے تو یہ مشہور ہے کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور بولتے کچھ ہیں۔ بتاتے کچھ اور جگہ کا اور جاتے کہیں اور ہیں۔ دکھاتے کچھ ہیں اور اپناتے کچھ ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر بات اور ہر عمل کو سیاست کی نذر کر دیتے ہیں۔ غیر سیاسی بات کو بھی سیاسی بنا دیتے ہیں۔ لیکن مذہبی جماعت کو مذہب کا استعمال کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرنا یہ نہ صرف ناجائز، غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے بلکہ قانونی اور شرعی لحاظ سے قابل گرفت بھی ہے۔

مثلاً حال ہی میں ٹی۔ ایل۔ پی اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے نکات تو ظاہر نہیں کیے گئے لیکن باطنی علم جاننے والے کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے نکات چھپانے کے پیچھے راز یہ ہے کہ اس تمام احتجاج کے پیچھے مقاصد سیاسی تھے۔ جس میں تحریک لبیک کے سربراہ کی رہائی کے ساتھ ساتھ دیگر کارکنوں کی رہائی، کل عدم کے سابقے کا حذف کروانا وغیرہ وغیرہ تھے۔ لیکن ان مقاصد کے لئے جو دن وقت اور نعرہ اور نعرے کے لئے جس ہستی اور مذہب کو استعمال کیا وہ کسی بھی حوالے سے جائز نہیں ہے۔

اور اس سے بڑھ کر جس مذہب اور ہستی کو اس پرتشدد واقعات کے لئے استعمال کیا ان کا تو درس ہی امن ہے، ان کا تو حکم ہی جان مال اور عزت کا تحفظ ہے، ان کا تو فرمان ہی کسی ایک انسان کا بے گناہ قتل کرنا ساری انسانیت کا قتل ہے، ان کا تو پیغام ہی لوگوں کے لئے راستے کھولنا اور انسانوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے، ان کا تو پیغام ہی یتیموں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھیرنا ہے، ان کا تو پیغام ہی ذاتی مقاصد پر عمومی مقاصد کو فوقیت دینا ہے، ان کا تو پیغام ہی اللہ کی خاطر زمین پر پچھاڑنے والے اور ان کے سینے پر بیٹھ کر تلوار میان سے نکالنے کے بعد اگر شائبہ ذاتی رنجش کا ابھر اتا ہے تو فوراً اٹھ کھڑا ہونا ہے اور ذاتی بغض اور عناد کو پس پشت ڈالنا ہے، ان کا تو پیغام ہی زمین پر شر فساد پھیلانے سے منع کرنے کا ہے، ان کا تو پیغام ہی سرے سے یہ ہے کہ تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جن کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا انسان محفوظ ہو ان کا تو پیغام ہی یہ ہے کہ تم نیکی کی طرف لوگوں کو راغب کرو اور بدی یا برائی سے روکو، ان کا تو پیغام ہی یہ ہے کہ جھوٹ، دھوکہ، فریب، دغا بازی، منافقت اور دوغلے پن سے خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ، ان کا تو پیغام ہی یہ ہے کہ دین کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جائے، ان کا تو پیغام ہی یہ ہے کہ علماء وارثین انبیاء ہیں نہ کہ تخت نشین انبیاء، کہ ذاتی تخت، بخت اور رخت کے لئے سارا تگ و دو میں مشغول اور مصروف ہوجائیں۔

جیسا کہ ہم نے گزشتہ کئی دنوں سے دیکھا۔ جس میں مذہب اور رسول خدا کے نام پر خلق خدا کو تکلیف پہنچائی گئی، راستے روکے گئے، اولولامر کے احکامات کو چیلنج کیا گیا۔ ریاستی مشینری، ریستی رٹ اور ریاستی اہلکاروں کو زخمی اور شہید کیا گیا۔ ان کے بچوں کو زچ اور یتیم کیا گیا۔ کیا یہ سب کچھ مذہب اور دین کے رو سے جائز تھا؟ یا سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب یا پیغمبر کے نام اور پیدائش کے دن کو اس طرح استعمال کرنا کہیں سے جائز ہے؟

یقیناً نہیں۔ چلیں لوگوں کو جو تکلیف پہنچی وہ تو پہنچی اب وہ رکاوٹیں ختم ہو چکی ہیں، لیکن جو پولیس والے جان سے گئے ہیں ان کا مداوا کون کرے گا۔ ان کے وارثین اور پسماندگان کو کون تسلی اور تشفی کے ساتھ قصاص اور دیت کا اہتمام کرے گا۔ اب تک تو کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے اور نہ آئندہ کوئی امکان کی امید بر آتی نظر آ رہی ہے ہاں البتہ مزید احتجاج اور اس کے نتیجے میں شہید ہونے والے پولیس اہل کاروں کی نوبت کسی بھی وقت آ سکتی ہے اور ایک اور غلام رسول کسی عاشق رسول کے ہاتھوں شہید ہو جائے گا۔ کیونکہ کہ اس بار شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں میں سے ایک کا نام غلام رسول تھا اور کیا عجب اتفاق ہے کہ مارنے والا عاشق رسول تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments