طوفان کی خبریں اور کٹھ پتلی وزیر اعظم


وزیر اعظم نے تحریک لبیک پاکستان پر اس سال اپریل میں عائد کی گئی پابندی ختم کرنے کے لئے وزارت داخلہ کی سمری پر کابینہ کے ارکان کی رائے لینے کی اجازت دے دی ہے۔ عملی طور سے اس کا یہ مطلب ہے کہ وفاقی حکومت چند روز میں ٹی ایل پی پر سے پابندی اٹھانے کا اعلان کردے گی یا اسے کالعدم قرار دینے کا حکم واپس لے لیا جائے گا۔ کسی کالعدم تنظیم کو ناجائز سے جائز قرار دینے کا یہ عمل جس تیزی سے سرانجام پارہا ہے ، ملکی تاریخ میں اس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔
عمران خان کی حکومت اس طرح 20 اکتوبر کو لاہور میں تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج اور لانگ مارچ سے شروع ہونے والے ایک سنگین بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ مہنگائی کی موجودہ صورت حال اور غیر واضح حکومتی پالیسیوں کے تناظر میں تحریک انصاف کی حکومت کے لئے بحرانوں کا نیا موسم کتنا طویل ثابت ہوسکتا ہے۔ اس دوران پاکستان جمہوری تحریک کے نام سے قائم اپوزیشن اتحاد نے ملک میں مہنگائی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ اضافے اور آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کی سخت شرائط کے خلاف احتجاج کے لئے13 نومبر سے باقاعدہ احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ پی ڈی ایم کے جنرل سیکرٹری اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قیادت کے ورچوئیل اجلاس کے بعد احتجاجی پروگرام کا اعلان کیا ۔ اور کہا ہے کہ یہ احتجاج عمران خان کی حکومت کے خاتمہ تک جاری رہے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ اس اپوزیشن اتحاد کا حصہ نہیں ہے لیکن ملک میں مہنگائی کے خلاف احتجاج میں وہ پیش پیش ہے۔ چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سخت الفاظ میں حکومتی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ ملک میں مہنگائی کا تعلق موجودہ حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی سے ہے۔ سینیٹ اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے متعدد نمائیندوں نے مہنگائی کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس پر بحث کا مطالبہ کیا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت مہنگائی کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کرتی رہی ہے۔ ان حالات میں اگرچہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ تو نہیں ہے لیکن وہ پاکستان جمہوری تحریک کے احتجاج کی بالواسطہ توثیق کرے گی اور موقع ملنے پر خود بھی احتجاجی جلسوں اور اجتماعات کا اہتمام کرے گی۔
ملک میں ابھی تک کورونا وبا کے اثرات کا پوری طرح خاتمہ نہیں ہؤا اور سعودی عرب سے غیر متوقع طور سے ملنے والی چار ارب ڈالر کی فوری امداد کے باوجود معاشی صورت حال واضح نہیں ہے ۔ مشیر خزانہ شوکت ترین نے جلد معاہدہ ہونے کی خبر ضرور دی ہے لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی ٹھوس پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ آئی ایم ایف کے ساتھ چھے ارب ڈالر کے جس امدادی پروگرام پر بات چیت ہورہی ہے ، اس کے تحت حکومت سرکاری اخراجات کم کرنے اور حکومتی آمدنی میں اضافہ کرنے کی پابند ہے۔ شوکت ترین کی سرکردگی میں تحریک انصاف کی حکومت نے آئی ایم ایف سے پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے حوالے سے رعایت لینے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن آثار بتارہے ہیں کہ حکومت اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ دو روز پہلے وزیر اعظم کے قوم سے خطاب کے بعد پیٹرول کی قیمتوں میں 8 روپے لیٹر اضافہ ہوچکا ہے۔ اس میں مزید اضافہ کا امکان بھی ہے۔ اسی طرح اس تقریر میں عمران خان نے سردیوں کے دوران گیس کی قلت کا اشارہ دیتے ہوئے، دراصل قوم کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ گیس کی قیمتوں میں اچانک اور بے پناہ اضافے کے لئے بھی تیار رہے۔
اس دوران پاکستان کے محکمہ شماریا ت نے ملک میں افراط زر کے بارے میں جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں، ان کے مطابق مسلسل تیسرے ہفتے بنیادی ضرورت کی چیزوں میں ایک اعشاریہ 23 فیصد اضافہ رجسٹر کیاگیا ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتوں میں قوم سے وزیر اعظم کے تازہ ترین خطاب کے بعد اچانک اضافہ کی اطلاعات ہیں۔ آٹا، چینی ، گھی اور دالوں وغیرہ کی قیمتوں میں اس اضافہ سے ملک کے شہریوں کے بجٹ پر عمران خان کے اعلان کردہ 120 ارب روپے کے امدادی پیکیج کا کوئی مثبت اثر مرتب ہونے کا امکان نہیں ہے۔ بلکہ سرکاری سبسڈی کے باوجود قیمتوں میں اضافہ سے عام گھروں میں یہ تاثر راسخ ہوگا کہ ملک کے وزیر اعظم نے اعداد و شمار کا گورکھ دھندا بتا کر اور اربوں روپے امداد کا اعلان کرکے دراصل سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا اشارہ خود عمران خان کی تقریر میں بھی موجود تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اگر دو خاندان ملک سے لوٹی ہوئی دولت میں سے آدھی بھی واپس لے آئیں تو وہ اشیائے صرف کی قیمتیں نصف کردیں گے۔
اس بیان سے ایک تو یہ اشارہ دیا گیا کہ عمران خان حکمرانی کے تین سال مکمل ہونے کے باوجود اپنی پالیسیوں کا نقص دیکھنے پر آمادہ نہیں ہیں اور ابھی تک سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں اور کرپشن کو ہی کو اس کی بڑی و جہ بتا کر وہ کسی بھی طرح بدستور عوام کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بیان سے یہ لگتا ہے کہ قیمتوں کا تعین دراصل وزیر اعظم کا ’اختیار‘ ہے ۔ وہ جب چاہے ان میں کمی بیشی کرسکتا ہے۔ سربراہ حکومت کی طرف سے یہ تاثر عام کرنا سیاسی طور سے انتہائی مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح وہ بین الاقوامی سطح پر قیمتوں میں اضافہ کا عذر تراش کر بھی اپنی حکومت کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ عمر ان خان کے خطاب کے بعد وزیروں اور سرکاری نمائیندوں نے ان خطوط پر رائے سازی کی کاشوں کا آغاز بھی کیا ہے۔ سرکاری میڈیا کے ذریعے بھی اس تاثر کو قوی کرنے کی مہم جوئی کی جارہی ہے۔ عمران خان کو لگتا ہے کہ اب تک کرپشن کا بیانیہ اتنا طاقت ور ہے کہ پاکستانی عوام اپوزیشن کی بجائے ان کی باتوں کو درست مانیں گے۔
اس حوالے سے البتہ دو قباحتیں موجود ہیں۔ ایک تو جن گھروں کو شدید مہنگائی کی وجہ سے بھوک و احتیاج کا سامنا ہے، ان کے لئے یہ مباحث اور دلائل بے معنی ہیں۔ وہ زمینی حقائق کی روشنی میں ہی فیصلہ کریں گے کہ ان کی کسمپرسی کا کون ذمہ دار ہے۔ اپوزیشن اس حوالے سے عمران خان کے پرانے دعوؤں کی ریکارڈنگ عام کرکے اس رائے کو مستحکم کررہی ہے کہ ’اگر ڈالر مہنگا ہو تو سمجھ لو وزیر اعظم چور ہے‘۔ ایسے بے شمار بے سر و پا نعرے اب عمران خان کے لئے سیاسی مشکل کا سبب بن رہے ہیں۔ اس تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اب اپوزیشن عمران خان کی حکومت پر بدترین بدعنوانی کا الزام عائد کرکے انہی کا نعرہ ان کی حکومت ہی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ پی ڈی ایم نے جس تازہ احتجاج کا اعلان کیا ہے، اس کے دوران اس الزام کی گونج نمایاں ہو گی۔ عمران خان کے لئے یہ الزام قابل غور ہونا چاہئے۔ انہوں نے پچھلے سال چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافہ کے معاملہ پر سخت مؤقف اختیار کرکے اور جہانگیر ترین جیسے قریب ترین ساتھی کے خلاف ’کارروائی‘ کرکے ہر قیمت پر شوگر مافیا کی طاقت ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اب ملک میں چینی کی قیمت گزشتہ برس کے مقابلے میں دو گنا ہو چکی ہے۔ یہ ایک ایسا سچ ہے جسے بدعنوانی کے نعرے سے چھپایا نہیں جاسکے گا۔
آئی ایم ایف درحقیقت پاکستانی حکومت کو دفاعی اخراجات میں کمی کا مشورہ دیتی ہے تاکہ بجٹ میں توازن پیدا ہو اور ملک غیر ترقیاتی مصارف کی بجائے عوامی بہبود اور پیداواری منصوبوں کے لئے وسائل بہم پہنچا سکے۔ حکومت کے لئے بوجوہ اس تجویز کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ثانوی تجاویز میں بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں حکومتی مصارف عوام کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ شوکت ترین  نے اس بارے میں کچھ رعایت لینے کی کوشش کی تھی ۔ اپنی بجٹ تقریر میں انہوں نے اس بارے میں بلند بانگ دعوے بھی کئے تھے۔ تاہم ابھی تک آئی ایم ایف سے امدادی پیکیج بحال نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو مسلسل معاشی اندیشوں کا سامنا ہے۔ یہ پیکیج منظور ہونے پر محصولات میں مزید اضافہ ہوگا۔ ملک میں تنخواہ دار طبقے کی آمدنی تو جمود کا شکار رہے گی لیکن محاصل کی وجہ سے بنیادی ضرورت کی تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔
اس مشکل صورت حال سے نکلنے کے لئے سیاسی افہام و تفہیم ایک مناسب اور متوازن راستہ ہوسکتا تھا لیکن عمران خان بدستور یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی دو اہم اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت ان کے سیاسی امیج کو تباہ کردے گی۔ حتی کہ انہوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری اور تحریک لبیک کے احتجاج سے پیدا ہونے والی صورت حال میں بھی وسیع تر سیاسی پلیٹ فارم استوار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ملکی پارلیمنٹ کو بھی ان اہم معاملات میں بے خبر رکھا گیا۔ حالانکہ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدہ میں حکومت کو بالواسطہ طور سےاسٹبلشمنٹ کی ’ڈکٹیشن‘ قبول کرنا پڑی اور اس کا انتظامی اختیار متاثر ہؤا۔
اب ٹی ایل پی پر سے پابندی اٹھا کر مذہبی انتہا پسندی کو ایک جائز اور مؤثر ہتھکنڈے کے طور پر قبول کیا جارہا ہے۔ اس خطرناک سیاسی روایت کو مستحکم کرکے پاکستانی معاشرے کو ایک دشوار سیاسی راستے کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ پہلے یہ تجربہ فیض آباد دھرنے کے موقع پر کیا گیا تھا اور اب اسے دہرایا گیا ہے۔ ایک عہدیدار کی تعیناتی کے سوال پر اتھارٹی کی بات کرنے والے وزیر اعظم کو کیا اس بات کا احساس ہے کہ اس ایک فیصلہ سے کیسے اور کیوں کر ان کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں رہے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments