تین متضاد پوسٹس


آج میں نے سوشل میڈیا پر دو متضاد پوسٹس دیکھیں، دونوں پوسٹس بھوک سے متعلق تھیں اور دونوں میں حالت حاضرہ اور انسان اور انسانیت کے لئے عبرت اور درس موجود تھا۔ پہلے والے پوسٹ میں ایک کیپشن کے ساتھ ایک تصویر دی ہوئی تھی جس میں ایک روٹی پڑی ہوئی ہے اور اس کے اوپر ایک ڈسپوزیبل چمچہ پڑا ہوا ہے جو کھانے کے بعد اس روٹی کے اوپر رکھ کر کھانے والے چوڑ چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جو منسلک تصویر کا تسلسل ہے وہ بڑا درد ناک، عبرت ناک اور انسانیت سوز ہے کہ روٹی کو ایش ٹرے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اس کے اوپر پئے ہوئے سگریٹ کے بے تحاشا ٹکڑے اور راکھ بکھری پڑی ہوئی ہے اور پوسٹس کے شائع کنندہ نے اس کے ساتھ لکھا ہے کہ جانور جب بھوکا ہوتا ہے تو بڑا خطرناک ہوجاتا ہے لیکن اس کے برعکس جب انسان کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ خطرناک روپ دھار لیتا ہے۔

اس کے ساتھ ایک اور پوسٹ دیکھی جو ایک بہی خوا نے پوسٹ کیا تھا اور اپنا ایک تجربہ لوگوں سے شیئر کیا تھا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ آج میں ایک دکان پر گیا تھا تو وہاں پر جگہ جگہ لکھا ہوا تھا کہ چوری نہ کریں مانگ کر لے جائیں۔ بولا! میں نے دکان دار سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ بولا کہ آج کل لوگ چوریاں زیادہ کر رہے ہیں اور ہم آئے دن لوگوں کو آٹا چینی اور دیگر اشیا کو چوری کرتے ہوئے پکڑ لیتے ہیں، بعض پر دیکھنے کے باوجود خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کیونکہ لوگوں کے پاس اشیاء کی خریدنے کے لئے پیسے ہی نہیں ہوتے یا پھر اشیاء کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ان کی قوت خرید سے اب باہر ہیں اور ایک خاتون کا واقعہ سنایا جو انھوں نے بچوں کی خشک دودھ لیکٹوجن چراتے ہوئے پکڑی تھی۔

جب ان سے وجہ پوچھی تو بولی کئی دنوں سے بچہ بھوکا ہے اور میں مزید بچے کو پانی پلا پلا کر دھوکہ نہیں دے سکتی اور وہ دن بہ دن کمزور بھی ہوتا جا رہا ہے تو ان کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جا سکتی تھی تو اس لئے اس دکان پر آ کر چوری کا ارتکاب کیا۔ اس طرح تیسری پوسٹس پشاور کے ایک جلسے کی کسی دوست نے شائع کی اور اس کے ساتھ لکھا تھا کہ پشاور میں پی۔ ٹی۔ آئی کے جلسے کی تصویر جس میں جگہ جگہ کرسیاں گری اور بکھری پڑی ہوئی ہیں اور لوگ بالکل نہ ہونے کے برابر ہیں۔

اب اگر ان تینوں پوسٹس پر تبصرہ نہ بھی کیا جائے تو موجودہ حکومت کی ابتدا، دورانیہ اور اختتامیہ یعنی جلسے میں کرسیوں کا جلسے کے شروع ہونے سے پہلے بھر کر گرانا اور لوگوں کا نہ ہونا بذات خود ایک تبصرہ ہے۔ لیکن بات ادھر ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے، اور وہ اس طرح کہ جس طرح گزشتہ تین سوا تین سالہ دور حکومت میں مہنگائی کپتان کی سرکردگی میں اگلے قدموں پر جاکر عوام کی سکت کی فل ٹاس بولوں پر آؤٹ اف پارک شارٹس لگاتی رہی اور ان کے ٹیم ممبران وافر مقدار کی اڑ میں مہنگائی کے شارٹ لگاتی بولوں کو دانستہ مس فیلڈ کی صورت میں باؤنڈری پار پہنچاتے رہے اور مزید یہ کہ خود انکوائری یا نظر پڑنے پر فیلڈنگ میں تبدیلی کر کے اپنے ٹیم کے فیلڈر کو مڈ اف سے مڈ وکٹ اور لانگ ان سے سلپ میں تبدیل کرتے رہے۔

اپیل پر خود ہی تھرڈ امپائر بن کر اوٹ کو ناٹ اوٹ اور ناٹ اوٹ کو اوٹ میں دیتے رہے۔ خود احتسابی تو جیسے ان کے لئے بنی ہی نہ ہو بلکہ احتساب کی انگلی دوسروں پر تو اٹھتی رہی پر اپنوں پر کسی بھی بڑے سے بڑے اپیل کے بعد ریفرل پر بھی بات تھرڈ امپائر تک نہیں پہنچتی رہی۔ تماشا بھی اپنا اور تماشائی بھی اپنے، سب کو پہلے سے ٹکٹ بلیک کر کے دلائے گئے تھے جو ہر اس شارٹ پر شور کرتے جو ان کے کھلاڑی لگواتے اور ہر اس اچھی فیلڈنگ پر چپ سادھ لیتے جو دوسرے ٹیم کے کھلاڑی کرتے۔

جیسے کہ یہ سب میچ فکس تھا پر دکھانے کے لئے کھیلا گیا تھا۔ ہار جیت پہلے سے طے تھا لیکن خانہ پوری کے لیے کھلاڑی میدان میں اتارے گئے۔ حاصل یہ کہ نیوٹرل امپائر کا مطالبہ کرنے والا کپتان خود جانب دار امپائر کے سامنے کھیلا اور جیتا، تو پھر تو رزلٹ یا نتیجہ یہی ہونا تھا۔ کیونکہ سابقہ ٹیم تو اس لئے ٹورنامنٹ کے درمیان میں ہی باہر ہو گئی تھی کہ وہ جانبدار امپائر کے سامنے کھیلنے کے لئے تیار نہیں تھی گو کہ بعد میں بہت چلائے پر دوسرے ٹیم کے تماشائیوں کے شور میں یہ چیخ و پکار کسی نے نہیں سنی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments