صحافیوں پر ملبہ ڈال کر عدالتی وقار بحال نہیں ہو گا


اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے خلاف الزامات پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اسے عدالت کے وقار پر حملہ قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جسٹس (ر) ثاقب نثار کے خلاف کسی قسم کی تحقیقات کا حکم دینے کی بجائے دی نیوز میں خبر کی اشاعت پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ خبر شائع کرنے والے اخبار کے مدیران اور صحافی کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرکے عدالت عالیہ نے دراصل عدالتی خود مختاری پر ہونے والی بحث کو دبانے اور اس معاملہ کا سارا ملبہ صحافیوں پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ بدقسمتی سے ایسے عدالتی طرز عمل سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کا وقار بحال ہونے کا امکان نہیں ہے۔

اب معاملہ صرف ایک سابق جج کے الزامات اور سابق چیف جسٹس کی تردید تک محدود نہیں ہے۔ یہ واقعات کا تسلسل ہے اور عدالتوں کی خود مختاری اور غیر جانبداری کے بارے میں مسلسل سوال اٹھائے جارہے ہیں۔ ان سوالات کا جواب دینے کی بجائے اگر صرف یہ دعویٰ کیا جائے گا کہ عدالتوں اور ججوں کا احتساب بھی ہو سکتا ہے لیکن ان کے وقار پر حملہ نہ کیا جائے اور ان کی شہرت داغدار کرنے کی کوشش نہ ہو تو اس رویہ سے مزید سوالات جنم لیں گے۔ پوچھا جائے گا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کوئی مشتبہ خبر سامنے آنے، الزام عائد ہونے، کسی جج کی ویڈیو لیک ہونے یا کسی سابق چیف جسٹس کے کردار پر لگنے والی تہمت کا جواب دینے کی بجائے ذی وقار جج حضرات توہین عدالت کی ڈھال کے پیچھے کیوں چھپنا ضروری خیال کرتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس معاملہ میں ناجائز طور سے ایک اخبار کے مدیران اور صحافی کو فریق بنانے کی کوشش کی ہے۔اس طرح نہ تو رانا شمیم کے الزامات کی شدت کم ہو گی اور نہ ہی ان الزامات کی گونج میں ملک کے عدالتی نظام کے بارے میں پیدا ہونے والے شبہات کم ہو سکیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ توہین عدالت کے نوٹس کے ذریعے شاید فوری بحران سے تو نکل آئے گی اور ثاقب نثار کے چال چلن کے بارے میں تنازعہ بھی فوری طور سے دب جائے گا لیکن اس سے ملک کے نظام انصاف پر اعتماد بحال نہیں ہوسکے گا۔ یہ اعتماد بحال کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے جو کسی بھی الزام کی صورت میں ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ متعلقہ شخص اپنی بے گناہی کا ثبوت پیش کر دے۔

رانا شمیم کی طرف سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر لگنے والے الزامات کی صورت حال کی وضاحت کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہوسکتا تھا کہ ثاقب نثار کو طلب کرکے پوچھا جاتا اور وہ عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہوکر حلفاً یہ بتا دیتے کہ وہ جولائی 2018 میں نہ تو سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان کے مہمان ہوئے تھے اور نہ ہی انہوں نے کسی بھی جج کو فون پر کسی بھی قسم کی ہدایات دی تھیں۔ عدالت کے روبرو سابق چیف جسٹس کا ایک بیان اس سارے قضیہ کو ختم کرسکتا تھا۔ پھر نہ جسٹس اطہر من اللہ کو عدالتی وقار اور عوام میں اس کی شہرت کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت تھی اور نہ ہی میڈیا کی ذمہ داریوں اور سوشل میڈیا اور روائیتی میڈیا کے فرق کو واضح کرنے کے لئے آبزرویشن دینا پڑتی۔ اب الزام عائد کرنے والے سابق جج کے علاوہ تین صحافیوں کو فریق بنا کر اس معاملہ دبانے کی ناروا کوشش کی گئی ہے۔ کہنے دیا جائے کہ اس طریقہ سے یہی سمجھاجائے گا کہ عدالت حقائق کا سامنا کرنے سے گریز کررہی ہے اور کسی بھی طرح عوامی سطح پر اٹھنے والے مباحث کا رخ میڈیا جیسے کمزور فریق کی طرف موڑ کر اس معاملہ سے گلو خلاصی چاہتی ہے۔

ثاقب نثار نے رانا شمیم کے حلف نامہ کی بنیاد پر سامنے آنے والی خبر کے بعد تقریباً ہر قابل ذکر میڈیا سے بات کی ہے اور اس خبر کی تردید کرنے کے علاوہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس تردد کی بجائے کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ خود اپنے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہو جاتے اور حلف اٹھا کر سار ا سچ بیان کردیتے۔ اس طرح جسٹس اطہر من اللہ میڈیا کی بے اعتدالی پر برہم ہونے کی بجائے آسانی سے رانا شمیم پر جھوٹا الزام عائد کرنے اور ایک سابق چیف جسٹس پر کیچڑ اچھالنے کا چارج فریم کرنے کا حکم دے سکتے تھے۔ نہ تو ثاقب نثار نے یہ اقدام ضروری خیال کیا اور نہ ہی جسٹس اطہر من اللہ نے معاملہ کے اصل فریق کو طلب کرنے کی زحمت کی بلکہ انہیں یہ پریشانی لاحق ہے کہ ایک خبر کی اشاعت سے عدالتوں کا وقار خطرے میں پڑا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سابق ججوں کے غیر ذمہ دارانہ طرزعمل کی وجہ سے ملکی عدالتی نظام کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے ہیں لیکن اس کا جواب میڈیا سے طلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بی بی سی نے جب سابق چیف جسٹس سے پوچھا کہ’ کیا وہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس کے اس بیان پر ان کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کریں گے؟ تو میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ’جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس لئے وہ اس بیان پر چارہ جوئی کر کے رانا شمیم کے اس بیان کو اہمیت نہیں دینا چاہتے‘۔ سابق چیف جسٹس کے اس بیان کو اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سامنے آنے والی پریشانی کے ساتھ ملاکر پڑھا جائے تو تصویر مزید دھندلی ہوجاتی ہے۔ ایک معاملہ کو سابق چیف جسٹس پاکستان غیر اہم اور غیر ضروری قرار دے رہے ہیں لیکن جسٹس اطہر من اللہ کو لگتا ہے کہ اس بیان سے عدالتی وقار پر ایسا شدید حملہ ہؤا ہے جس کے ازالے کے لئے صرف خبر کا سبب بننے والے شخص کو ہی نہیں بلکہ ایک اخبار کے دو ایڈیٹروں اور ایک صحافی کو عبرت کا نشان بنانا ضروری ہے۔ دی نیوزکے رپورٹر انصار عباسی نے عدالت میں یہ کہا کہ بے شک انہیں سزا دی جائے لیکن اس معاملہ کی تحقیقات بھی کی جائیں ۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو اس میں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ صحافی کی یہ پکار بھی سننے پر آمادہ نہیں تھے کہ ’میں تو صرف میسنجر ہوں‘۔

انصار عباسی کی اس درخواست پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا برطانیہ کا اخبار گارڈین ایسا حلف نامہ شائع کرنے کی اجازت دے سکتا ہے؟ چیف جسٹس کو یہ اعتراض بھی تھا کہ صحافی نے رپورٹ کرتے ہوئے متعلقہ لوگوں سے اس بارے میں استفسار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جبکہ انصار عباسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے رانا شمیم اور ثاقب نثار سے بات کرنے کے بعد خبر فائل کی تھی۔ اس معاملہ میں دی نیوز کی خبر متنازع نہیں ہے بلکہ اس میں لگائے گئے الزامات پر تنازع ہے۔ جب وہی شخص جس نے اس نام نہاد حلف نامہ پر دستخط کئے تھے، خود ہی صحافی کو بتا رہا ہے کہ یہ الزامات سو فیصد درست ہیں تو پھر اخبار اور صحافیوں کو مورد الزام ٹھہرانے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟

جسٹس اطہر من اللہ کا مؤقف تھا کہ ’ایک ایسے بیان حلفی کی بنیاد پر خبر کی اشاعت جو کسی عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے، تمام صحافتی اصولوں سے متصادم ہے‘۔ نہ جانے قابل احترام چیف جسٹس صحافت کی کون سی کتاب کا حوالہ دے رہے تھے۔ رانا شمیم نے صرف انصار عباسی کے ساتھ انٹرویو میں ہی نہیں بلکہ دیگر میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے بھی اس دستاویز میں عائد کئے گئے الزامات کی تصدیق کی اور ان کو درست طور سے خود سے منسوب قرار دیا۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے بیان حلفی میں لکھی تحریر پر قائم ہیں ۔ وہ بڑے عرصے سے اس بات کا بوجھ اپنے ضمیر پر لے کر چل رہے تھے لیکن اب مزید اس بوجھ کو اٹھانے کی ہمت نہیں تھی ۔ اس لئے انہوں نے اس واقعہ سے متعلق بیان حلفی میں سب کچھ کہہ دیا ہے۔ رانا شمیم کا کہنا تھا کہ’ اگر اس سلسلے میں حقائق جاننے کے لئے کوئی کمیشن بنایا جاتا ہے تو وہ اس کے سامنے پیش ہونے کو تیار ہیں‘۔ تاہم ملک کا نظام انصاف اس قدر حساس بنا دیا گیا ہے کہ جو کسی معاملہ کی تہ پہنچنے کا تہیہ کرنے کی بجائے توہین عدالت کے مختصر نوٹس سے کام چلانا ضروری خیال کرتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ معاملہ ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص پر عائد کئے گئے الزامات اور ان کی روشنی میں انہیں سنائی گئی سزا کے بارے میں ہے۔ رانا شمیم تو پھر بھی ایک عدالت کے اعلیٰ جج کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اگر اس معاملہ میں ججوں کی نیت اور طریقہ کار کے بارے میں کوئی غیر اہم شخص بھی کوئی الزام عائد کرے گا یا’انکشاف‘ کرے گا تو ملک کا کوئی بھی میڈیا اسے شائع کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دی نیوز میں شائع ہونے والی اس بریکنگ نیوز کو ملک کے ہر قسم کے میڈیا نے خبر بنایا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کو اس پر نوٹس لینا پڑا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا یہ دعویٰ کہ صحافی ملکی عدلیہ کا وقار خاک میں ملا رہے ہیں، اور ایک اہم خبر کو شائع کرنے پر توہین عدالت کے نوٹس سے ملک کے پہلے سے پابند و مجبور میڈیا پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح آزادی اظہار کے امکانات محدود ہوں گے اور سچ تک عوام کی رسائی کو مشکل ہوجائے گی۔ یہ طریقہ ملکی آئین کی روح کے برعکس اور جمہوری روایات کے خلاف ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments