پاکستان میں مذہبی  آزادی: امریکی تشویش کس حد تک جائز ہے


وزارت خارجہ نے مذہبی آزادی پر تشویش کے حوالے سے جاری ہونے والی نئی فہرست میں پاکستان کا نام شامل کرنے کے امریکی فیصلہ کو مسترد کیا ہے۔ امریکی حکومت یہ فہرست امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سفارش پر ترتیب دیتی ہے۔ تاہم حیرت انگیز طور پر کمیشن کی طرف سے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ابتر سلوک کے باوجود انڈیا کو شدید تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

امریکی حکومت کے اس اقدام سے انسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے امریکی حکمت عملی کا دوغلا پن ظاہر ہوتا ہے اور یہ اندازہ کرنا بھی مشکل نہیں رہتا کہ واشنگٹن سیاسی اور اسٹریٹیجک مفادات کی تکمیل کے لئے بھارت جیسے بڑے ملک میں اقلیتوں کے خلاف روا رکھےجانے والے سلوک پر حرف تنقید سامنے لانا اپنے ’قومی مفاد‘ کے خلاف سمجھتا ہے۔ اس طرح امریکی حکومت کا یہ نعرہ بے بنیاد اور ناقابل اعتبار ہو کر رہ جاتا ہے کہ ’بائیڈن انتظامیہ ہر فرد کے مذہب اور عقیدے کی آزادی کے حق کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔ ہم تمام حکومتوں پر زور دیتے رہیں گے کہ وہ اپنے قوانین اور ان کے اطلاق میں پائے جانے والے سقم دور کریں اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں ملوث افراد کو جوابدہ بنائیں‘۔

 بھارت میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران مسلمان اقلیتوں کو خاص طور سےظلم و جبر اور قانونی امتیاز کا سامنا رہا ہے۔ بھارتی میڈیا میں ایسی رپورٹیں سامنے آتی رہی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ سرکاری مشینری مسلمانوں کے خلاف تشدد اور جرائم میں ملوث ہونے والے ہندو انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ ان عناصر کو کھلی چھوٹ حاصل ہے کہ وہ اقلیتی گروہوں پر حملے کریں اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنائیں۔ واضح رہے آر ایس ایس کی ہندو توا پالیسی کے تحت ہندوستان میں ہندوؤں کے سوا کسی دوسرے عقیدے کو رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس صورت میں وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مسلمان یا دوسرے عقائد ہندو برتری کو تسلیم کریں اور اس عقیدے کے مقابلے میں دوسرے درجے کے شہری بن کررہیں۔ یا پھر اپنا مذہب چھوڑ کر ہندو بن جائیں۔ بھارت میں نریندر مودی حکومت کے دور میں ہندو جن سنگھ عناصر کو عسکری تربیت دینے اور انہیں خاص طور سے مسلمان اقلیتوں پر حملے کرنے اور ہراساں کرنے پر راغب کیا جاتا ہے۔ یہ گروہ مسلمانوں کے بارے میں یہ نعرہ بھی بلند کرتے رہتے ہیں کہ اان کے پا س ایک ہی حل ہے کہ ’ پاکستان جاؤ یا قبرستان ‘۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک کی 20 کروڑ سے زیادہ بڑی اقلیت کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس بھیانک اور ہولناک سلوک پر امریکی حکومت کی خاموشی ایک ایسا مجرمانہ فعل ہے جو انسانی اقدار اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی امریکی پالیسی سے براہ راست متصادم ہے۔ امریکہ حکومت جب اپنے ہی ملک کے حقوق کمیشن کی سفارشات پر فیصلہ کرتے ہوئے سیاسی ضرورتوں کو پیش نظر رکھے گی تو خود اس کا اعتبار ختم ہوگا اور ’آزاد دنیا ‘ کے نام نہاد لیڈر کے طور پر اس کی حیثیت پر متعدد سوالات سامنے آئیں گے۔

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے مذہبی آزادی سے متعلق خدشات والے ممالک کی فہرست’ سی پی سی ‘ میں بھارت کا نام ڈالنے کی تجویز دی تھی لیکن بائیڈن انتظامیہ انڈیا کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتی ہے اور چین کے معاملے میں اس خطے میں انڈیا کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے کہا تھا کہ انسانی حقوق اس کی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھیں گےلیکن یہ انتظامیہ کی جانب سے اس ترجیح کو ترک کرنے کی ایک اور مثال ہے۔ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی جانب سے نئی فہرست کا اعلان سامنے آنے کے بعد انڈین امریکن مسلم کونسل نے انڈیا کو سی پی سی کی فہرست میں شامل نہ کرنے پر امریکی وزیر خارجہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انڈین امریکن مسلم کونسل نے ٹویٹ کیا کہ ’آئی اے ایم سی بلنکن کے فیصلے کی مذمت کرتی ہے حالانکہ امریکی کمیشن اس فہرست میں انڈیا کو شامل کرنے کی سفارش کرتا ہے‘۔ انڈین امریکن مسلم کونسل نے مزید لکھا ہے کہ ’یہ افسوسناک ہے کہ بائیڈن انتظامیہ انڈیا میں مذہبی آزادی پر بڑے پیمانے پر حملوں کے بارے میں خاموش ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نریندر مودی حکومت کو انڈیا میں مذہبی اقلیتوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہی ہے‘۔

انڈیا میں شہریت ترمیمی قانون ان نکات میں سب سے اہم تھا جن پر کمیشن نے انڈیا کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’دہلی کے فسادات کے دوران ہندو ہجوم کو کلین چٹ دی گئی تھی اور مسلمانوں پر ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا تھا‘۔ نئی دہلی میں اس متعصبانہ اور غیر منصفانہ قانون کے خلاف مسلمانوں کے احتجاجی کیمپ کے دوران ہندو گروہوں کی غنڈہ گردی اور قتل و غارت گری کے معتدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ معلومات سامنے آچکی ہیں کہ مسلمانوں پر حملے کرنے کے لئے پولیس شہر کے باہر سے مسلح ہندو غنڈوں کو لے کر آئی تھی اور اسی کی سرپرستی میں ان حملوں کو منظم کیا گیا تھا۔ ان حملوں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ حال ہی میں ایک برطانوی ٹی وی چینل نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ انتہا پسند ہندو گروہ مختلف ناموں سے برطانیہ میں چیریٹی کے نام پر کثیر رقوم جمع کرتے ہیں ۔ پھر یہ وسائل بھارت میں مسلمان اور عیسائی اقلیتوں پر حملے کرنے والے گروہ منظم کرنے پر صرف ہوتے ہیں۔ گجرات کے ایک ایسے گروہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے ٹی وی کے نمائیندے کو بتایا تھا کہ ’وہ اپنے گاؤں میں بنے ہوئے چرچ کو جلد یا بدیر مسمار کردیں گے‘۔

گزشتہ روز امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے پاکستان، روس، سعودی عرب، چین، برما، اریٹریا، شمالی کوریا، تاجکستان اور ترکمانستان کو مذہبی اقلیتوں کے خلاف ’منظم، متواتر اور سنگین خلاف ورزیوں‘ کے مبینہ الزامات کے پیشِ نظر ’سی پی سی‘ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ الجیریا، کوموروس، کیوبا، اور نکوراگوا کو سپیشل واچ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ ان ممالک کے بارے میں خدشات ضرور ہیں تاہم یہاں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیاں سی پی سی کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے طالبان حکومت پر خصوصی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس ملک میں اقلیتوں کے خلاف اقدامات کے بارے میں شدید تشویش موجود ہے۔

امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے 2002 کے بعد سے ہر سال یہ تجویز دی ہے کہ پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا جائے۔ وزارت خارجہ نے 2018 میں پہلی بار پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا تھا اور 2019 میں اسے برقرار رکھا۔ پاکستان کو 2020 میں استثنیٰ دیا گیا تھا۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ’حکومت نے منظم انداز میں توہین مذہب اور احمدی مخالف قوانین پر عمل درآمد کیا اور مذہبی اقلیتوں کو غیر ریاستی عناصر سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی‘۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں ’ٹارگٹڈ کلنگ، توہین مذہب، عقیدے کی جبری تبدیلی، نفرت پر مبنی بیانات، اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جن میں احمدیوں، شیعہ مسلمانوں، ہندوؤں، مسیحی برداری اور سکھوں کو نشانہ بنایا گیا‘۔ احمدی برادری کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا خاص طور سے ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بعض واقعات کا خاص طور سے ذکر موجود ہے۔ 57 سالہ پاکستانی نژاد امریکی شہری طاہر نسیم کو خیبرپختونخوا کی ایک عدالت میں فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا۔ گزشتہ سال مئی میں حکومت نے مذہبی اقلیتوں کا قومی کمیشن بنایا تاہم اس میں کسی احمدی کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس بارے میں ایک سوال پر پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی ہم آہنگی نور الحق قادری نے کہا تھا کہ’ جو کوئی احمدیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے، وہ اسلام اور پاکستان سے مخلص نہیں ہوسکتا‘۔ رپورٹ کے مطابق ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو بدستور اغوا، مذہب کی جبری تبدیلی، ریپ اور جبری شادی کا حقیقی خطرہ درپیش ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی طرف سے مذہبی آزادی سے متعلق خصوصی تشویش کے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام شامل کرنے سے شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہر معاملے پر تعمیری انداز میں دو طرفہ بات چیت ہوتی رہتی ہے لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ اس معاملے میں ان رابطوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے اور انہیں یقینی بنانے کے لیے قانونی اور انتظامی سطح پر اقدامات کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی آہنگی طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کے جان و مال اور اس کے عقائد کو تحفظ دینا پاکستانی ریاست کی ذمے داری ہے۔ حکومت نے اقلیتی برداریوں کے نمائیندوں کی شکایات کے ازلے کے لیے کوششیں کی ہیں۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے دعوی کیا کہ ’پاکستان میں کئی دیگر ممالک کے مقابلے میں اقلیتی برداریوں کے لوگ بہت اچھے انداز میں رہ رہے ہیں‘۔

 مذہبی آزادی پر حملوں کے حوالے سے پاکستانی حکومت کی وضاحت بھی امریکہ کی طرف سے بھارت جیسے ملک میں پائے جانے والے مذہبی تعصب، ظلم و جبر اور شدید ناانصافی کو نظر انداز کرنے کے طریقہ سے مماثل ہے۔ پاکستان میں انتہا پسند مذہبی گروہوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے معاشرے میں عام طور سے باہمی احترام اور دوسرے عقائد کو مسترد کرنے کے رویہ میں شدت پیدا ہوئی ہے۔ یہ کہنابھی درست نہیں ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی نصاب میں مذہبی اقلیتوں کے بارے میں احترام کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں پڑھائی جانے والی کتابیں اور تدریس پر مامور اساتذہ کی اکثریت یک طرفہ اور متعصبانہ خیالات کا پرچار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو کسی تنازعہ کی صورت میں کسی بھی شدت پسند مذہبی گروہ کے سامنے پسپا ہونا پڑتا ہے۔

اس معاملہ کو امریکی پالیسی یا واشنگٹن میں تیار کردہ کسی فہرست کے حوالے سے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ نہ ہی بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا حوالہ دے کر پاکستانی مذہبی اقلیتوں کو لاوارث چھوڑا جاسکتا ہے۔ اپنی مرضی کے عقیدے پر عمل کرنے کا حق انسانی حقوق کے چارٹر کے علاوہ اسلامی تعلیمات سے بھی ثابت ہے۔ دوسرے عقائد کے بارے میں وسیع المشربی اور قبولیت کے مزاج کو فروغ دے کر ہی معاشرے میں وسیع تر ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام کو امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے دباؤ سے قطع نظر اس حوالے سے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments