گوٹھ بالا(بلوچستان): ایک گمشدہ داستان


وندر (بلوچستان) میں پوسٹنگ کے دوران اگست کی ایک حبس زدہ رات میں ہم دفتر سے باہر اکٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ اس دوران چودھری مسرور صاحب نے کسی کوٹ بالا کا ذکر کیا۔ اور میرے علم میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ کل رات میں وکی پیڈیا پر اس علاقے کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ جو سونمیانی ساحل کے قرب و جوار میں ہے۔ جہاں وہاں صدیوں پرانے کھنڈرات اور ایک قلعہ موجود ہے۔ مذکورہ ویب سائٹ کے مطابق کیلیفورنیا کے پروفیسر جارج ایف ڈیلز نامی شخص نے 1970 میں اس جگہ کا سراغ لگایا تھا۔

مگر اس کے بعد اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اس پر ریسرچ کر کے اس پوشیدہ تاریخ پر تحقیق کرتے ہیں۔ میں چونکہ اس علاقے کے تاریخی مقامات کو پچھلے چھ ماہ سے کھنگال رہا تھا اس لئے میں نے ان کے ساتھ اتفاق نہ کیا۔ مگر وہ اپنی بات پر مصر رہے کہ ایک اور کوشش کرتے ہیں کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا۔ میں ذہنی طور پر تو اس سعئی لاحاصل کے لئے مطمئن نہ ہوا مگر ان کا یقین دیکھ کر دوسرے ہی دن ایڈمن افسر رضوان قیصر صاحب کے ساتھ سونمیانی چلا گیا۔

وہاں کافی لوگوں سے کسی کھنڈر، قلعہ یا آثار قدیمہ کے متعلق پوچھا مگر جواب صفر ملا۔ حتی کہ اکثریت نے تو بالا کوٹ کے نام سے ہی نا آشنائی کا اظہار کر دیا۔ البتہ ایک بلوچی بھائی نے ہمارے ریت آلود چہرے دیکھ کر ہم پر رحم کھایا اور ہمارا رخ ایک قبرستان کی طرف موڑ دیا اور بتایا اس طرف کھنڈرات تو نہیں البتہ بڑی بڑی قبریں موجود ہیں۔ وہاں شاید آپ کی پیاس بجھ جائے مگر وہاں پہنچ کر بھی ہمیں مایوسی ہوئی۔ کیونکہ وہ بھی ایک روایتی سا قبرستان تھا۔ یوں ہم سارا دن سونمیانی کے ساحلی علاقے میں سمندر زدہ نمکین ہوائیں اور ریت پھانک کر واپس پلٹ آئے۔

مسرور صاحب سے واپسی پر جب اس خواری کا ذکر کیا تو ان کی پھر بھی ہمت نہ ٹوٹی اور انہوں نے نئی راہ نکالتے ہوئے کہا کیوں نا یہاں کے تحصیل دار سے ملاقات کی جائے۔ چارو ناچار یہ تجویز بھی ماننا پڑی اور ہم تحصیل دفتر چلے گئے۔ اتفاق سے تحصیل دار صاحب دفتر لگا کر اپنی نشست پر براجمان تھے۔ موٹروے پولیس کی یونیفارم میں دیکھ کر انہوں نے ہمیں کافی عزت دی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد جب ہم نے اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے پہلے تو مذکورہ مقام کی کوٹ بالا کی بجائے گوٹھ بالا کے نام سے تصحیح کی۔

اور پھر لوکیشن کے محل وقوع سے آگاہ کیا۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس علاقے کے لوگوں سے آثار قدیمہ کے بارے میں میں نے بھی سنا ضرور ہے مگر وہ کیا چیز اور کہاں ہے اس بارے میں میرا ذاتی علم ناقص ہے۔ اور نہ ہی وہاں تک جا سکا ہوں۔ ان کے اتنے سے حوصلہ افزا تعاون سے ہمیں امید کا تارا نظر آنے لگا اور ہم نے اگلے ہی دن اس مقام تک پہنچنے کا پروگرام بنا لیا۔

یوں اگلی صبح یعنی 4 اگست کو ہم مذکورہ مقام کی طرف چل دیے۔ اس بار قافلے میں ڈی ایس پی افضل مجید (لالہ) صاحب، ڈی ایس پی چودھری مسرور صاحب اور عبداللہ نے راقم کا ساتھ دیا۔ تحصیل دار صاحب کے نقشے کے مطابق ہم آر سی ڈی ہائی وے پر کراچی سے کوئٹہ کی طرف جاتے ہوئے کھرکیڑہ کے مقام پر پہنچے تو وہاں ایک چھوٹی سی سڑک مشرق کی طرف مڑتی نظر آئی۔ جس پر ہمارا مختصر سا قافلہ دائیں مڑ گیا۔ بلوچستان میں حسب روایت یہاں بھی سڑک پر کوئی ایسا بورڈ یا اشارہ نظر نہ آیا جو اس طرف کسی خاص تاریخی یا سیاحتی مقام کی نشاندہی کر پاتا۔

5 کلومیٹر چلنے کے بعد تارکول کی ٹوٹی پھوٹی سڑک نے ہمیں ایک مقام پر الوداع کہہ دیا۔ جس سے آگے ہم ریتلے راستوں سے رکتے چلتیں عد از دوپہر بالآخر گوٹھ بالا پہنچ گئے۔ اب اگلا مشن اپنی منزل کو ڈھونڈنا تھا۔ وہاں ایک جگہ سڑک کنارے چھوٹی سے چائے کی دکان نظر آئی جہاں کافی لوگ بیٹھے تھے۔ یہاں حسب معمول عبداللہ کام آیا۔ جس نے لاسی زبان میں کھنڈرات کا پوچھا تو اکثریت نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ البتہ ایک بزرگ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ کہا۔

عبداللہ کے چہرے پر چمک سی آئی اور اس نے کچھ گفت و شنید کے بعد اس بزرگ کو اپنے ساتھ ہی گاڑی میں بٹھا لیا۔ اور بتایا کہ یہ بابا ہماری مطلوبہ جگہ کے بارے میں جانتے ہیں۔ اور ہمیں وہاں تک پہنچا دیں گے۔ ان کے بیٹھنے کیں عد گاڑی آگے چل پڑی تو میں نے اس بزرگ سے حال احوال کے بعد کچھ رسمی سوال کیے تو انہوں نے ٹوٹی پھٹی لاسی نما اردو میں جواب دیے کہ اسے اپنی عمر کا ٹھیک پتہ نہیں شاید 70 یا 80 سال ہو گی۔ اس نے اپنی ساری زندگی انہی ریتلے صحراؤں میں اونٹ اور بکریاں چراتے گزاری ہے۔

سب سے حیرت انگیز بات کہ اسے ملک پاکستان کا بھی بالکل پتہ نہ تھا۔ انہی باتوں کے دوران ہم گوٹھ بالا کے اندر داخل ہو گئے۔ وہاں آگے ہر طرف ریت ہی ریت تھی۔ اس جگہ آگے جانے کی سمت طے کرنے میں بابا جی تھوڑی کشمکش کا شکار ہوئے تو ہمیں گاڑی روکنا پڑی۔ گوٹھ کی حالت بیان کرنے کے لیے پسماندہ لفظ بھی کافی لگا۔ وہاں کے باسیوں نے ایسے حیرت سے ہمیں دیکھا جیسے ہم کسی اور مخلوق سے تعلق رکھتے ہوں۔ درجنوں بچے گاڑی کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔

چار دیواری اور پردے سے عاری کچے اور گھاس پھونس سے بنے گھروں کی خواتین نے بھی اپنے کام کاج چھوڑ کر ہمیں عجوبے کی طرح دیکھنا شروع کر دیا۔ بہرحال ان ملے جلے تاثرات کا مطلب ایک ہی تھا کہ اس علاقے میں کسی اجنبی نے شاید ہی کبھی قدم رنجا فرمایا ہو۔ کچھ سوچ بچار اور پوچھ گچھ کے بعد بابا جی کی سمت بھی ٹھیک ہو گئی اور ہم مختصر سے وقفے کے بعد گاؤں پار کر کے اگلی طرف نکل گئے۔

چند منٹ کی مزید ڈرائیو کے بعد ہموار سطح ختم ہو گئی آور ریت کے ٹیلے شروع ہو گئے۔ ڈبل کیبن گاڑی نے کچھ دیر تک تو جھاڑوں کے درمیان پھسلتے ،دھنستے اور بل کھاتے ہمارا ساتھ دیا مگر پھر گھنی جھاڑیوں کے پاس ایک مقام پر اس کے ہاور فل انجن نے بھی ریت کے سامنے مزاحمت چھوڑ دی اور مزید ہمیں پیدل چلنے پر مجبور کر دیا۔ ہم نے گاڑی کو مقفل کیا اور پھر بابا جی کے پیچھے چل دیے۔ بابا جی بذات خود اونچے نیچے ٹیلوں میں کئی بار رستہ بھول کر رکتے اور چلتے رہے۔

اس دوران ہم صحرا میں دائیں بائیں متلاشی نظروں سے کھنڈرات اور قلعہ کی فصیلوں کو دیکھتے رہے مگر ہر طرف ریت کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ تقریباً دو کلومیٹر کا پیدل فاصلہ طے کرنے کے بعد جب ہم نسبتاً بلند مقام پر پہنچے تو مزید ڈھائی تین سو گز دور سرمئی ریت پر ہمیں جا بجا سنہرا رنگ بکھرا نظر آیا۔ یہ دیکھ کر ہمارا اشتیاق بڑھ گیا اور قدموں میں جان آ گئی۔ مزید قریب پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں تقریباً 1 مربع کلو میٹر میں سنہرے کتبوں پر مشتمل ان گنت قبریں موجود ہیں۔

قبروں کے درمیان پہنچ کر جب اطراف کا جائزہ لیا تو تا حد نگاہ ہمیں کوئی کھنڈر یا قلعہ نظر نہ آیا۔ جس کا مطلب تھا کہ ہمارا آج کا حاصل یہ قبریں ہی تھیں۔ اگر 1970 میں اس انگریز نے یہاں کسی قلعہ یا بودوباش کے کھنڈرات نما آثار دیکھے بھی تھے تو ان کو یہاں کے بے رحم تیز ریتلے طوفانوں نے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ کیونکہ اس علاقے میں جب سمندر کی تیز ہوائیں چلتی ہیں تو ان کے ساتھ اڑنے والی ریت راستے میں آنے والی چھوٹی موٹی رکاوٹوں کو چند لمحوں میں اپنے اندر چھپا لیتی ہیں۔ یہ عین ممکن تھا کہ وہ صدیوں پرانے کھنڈرات بھی ریت کے نیچے دب گئے ہوں جو بڑے پیمانے پر کھدائی کے بعد ہی دریافت ہو سکتے تھے۔

اگر قبروں کی بات کی جائے تو یہ قبریں آج بھی بالکل ٹھیک اور تازہ حالت میں موجود تھیں البتہ کافی قبریں ایسی تھیں جو دانستہ طور پر توڑی یا کھودی ہوئی لگ رہی تھیں۔ اس بابت جب بابا جی سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں کے لوگوں کا یقین ہے کہ اس قبرستان میں ایک بہت بڑا خزانہ دفن ہے اور لوگ یہاں اس دیومالائی خزانے کو تلاش کرنے کے لئے قبریں کھودتے رہتے ہیں۔ مزید ان قبروں کا جب ہم نے بغور مشاہدہ کیا تو یہ علم میں یہ آیا کہ یہ مسلمانوں کی قبریں تھیں۔

کیونکہ اکثر قبروں پر کلمہ طیبہ درج تھا جو صدیوں بعد بھی واضح اور صاف پڑھا جا رہا تھا۔ اس کے علاوہ قبروں پر کتبے بھی موجود تھے جن پر سلمان اور ابراہیم جیسے اسلامی نام کھدے ہوئے تھے۔ چند ایک ناموں کے ساتھ تو ”حاجی“ کا سابقہ بھی لگا ہوا تھا۔ قبروں کا سائز انسانی جسامت اور عمر کے لحاظ سے تین سے سات فٹ تک تھا۔ ان قبروں کے درمیان دو چوڑی اور قدرے بڑی قبروں کو ایک شکستہ حفاظتی دیوار نے اپنی تحویل میں لیا ہوا تھا جو یقینی طور پر یہاں کے سربراہ، امیر یا اہم شخصیات کی ارام گاہیں تھیں۔

چلتے چلتے ہمیں ایک انتہائی دلخراش منظر نظر آیا۔ ایک تین سے چار سالہ انسانی جگر گوشے (بچے ) کا ہڈیوں کا ڈھانچہ ریت کے اندر آدھا دھنسا ہوا تھا جس میں سر سے لے کر پاؤں کی انگلیوں تک ہر ہڈی واضح نظر آ رہی تھی۔ جو شاید پچھلے دنوں ہونے والی مسلسل اور تیز بارشوں میں ریت کے سرکنے کی وجہ سے باہر نکل آیا تھا۔ اس بچے کے ڈھانچے کے ارد گرد پتھر رکھ کر ہم نے اس کو قبر کی شکل دے دی۔

ان قبروں میں ہمیں ایک بہت حیران کن چیز ملی۔ وہ یہ تھی کہ آج کے جدید دور میں (جنس) جینڈر کی نشاندہی کی لئے استعمال ہونے والے انٹرنیشنل سائن اور سمبل ہمیں ان قبروں پر نظر آئے۔ خاص طور پر پبلک واش رومز پہ سمبل اکثر نظر آتے ہیں۔ جو یہاں مرد اور عورتوں کی قبروں میں فرق کرنے کے لیے استعمال ہوئے تھے۔ مطلب اس ویران صحرا میں بسنے والے یہ لوگ کسی نہایت اعلی تہذیب و تمدن کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ کمال یہ تھا کہ یہاں کی ہوائیں اور ریت اپنے خود سر اور اکھڑ مزاج کے باوجود صدیوں بعد بھی ان دو ڈھائی فٹ بلند قبروں کا وجود ختم نہیں کر سکی تھیں۔

اور یہ قبریں آج بھی زندہ اور سلامت تھیں۔ جو اس نگر کے باسیوں کی جغرافیائی محل وقوع پر گرفت کی نشانی تھی۔ قبروں کے علاوہ مختلف قسم کے پتھر، برتن اور دھاتوں کے ٹکرے بھی نظر آئے۔ جو یہاں پر ماضی بعید میں زندگی کی روانی کی علامت تھے۔ اس دوران ہمیں اس بات کا جواب نہ مل سکا کہ اس ریگستان میں آس پاس سینکڑوں میل دور تک مٹی کا نشان تک نہیں ملتا۔ تو پھر اس دیس کے باسیوں نے ان قبروں کے لیے مٹی کا اہتمام کہاں سے کیا۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں قبریں موجود ہیں تو سینکڑوں کی تعداد میں گھر بھی تو ہوں گے۔ مگر ہمیں یہاں کسی گھر تو دور کسی شکستہ دیوار کا بھی سراغ نہ ملا۔ جن معماروں نے قبریں اتنی مضبوط بنائیں ان کے گھر کیسے کمزور ہو سکتے تھے۔ تو کیا پھر یہ فقط ایک قبرستان تھا۔ ان کے باسی کسی اور علاقے میں مکین تھے؟

ہم ان مشاہدات اور سوالات میں اس قدر محو ہو گئے کہ پتہ ہی نہ چلا کہ کب چمکتے سورج کو دھیرے دھیرے شام کے دھندلکے نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ جب احساس ہوا تو اندھیرا ہونا شروع ہو چکا تھا یوں ہمیں آپس میں ایسے کئی سوال اور ان کے فرضی جوابات دیتے ہوئے سب چھوڑ کر مجبوراً واپس پلٹ آئے۔ واپسی پر گاڑی میں بیٹھتے وقت بڑے بڑے درجنوں صحرائی کانٹے کیلوں کی مانند مضبوط ٹیوب لیس ٹائروں میں پیوست نظر آئے۔ ایک دو کو نکالنے کی کوشش کی تو ساتھ ہوا بھی نکلنا شروع ہو گئی۔ مطلب ٹائر پنکچر ہو چکے تھے۔ ایک ٹائر میں تو ہوا کافی کم نظر آئی۔ صورت حال تو پریشان کن تھی مگر پھر بھی پریشر اس قدر موجود تھا کے رات ہونے تک واپس کسی محفوظ مقام تک پہنچ پاتے۔

گوٹھ بالا کے اس گمشدہ صحرا میں صدیوں بعد آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں قبریں زندہ موجود ہیں۔ اگر ان میں ختم یا مٹ جانے والی قبروں کو شمار کیا جائے تو یہ تعداد یقینی طور پر ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے۔ وہ علاقہ جہاں آج بھی کوسوں دور دور تک انسانی آبادی کے آثار نہیں ملتے وہاں کسی زمانے میں زندہ لوگوں کا کوئی بہت بڑا شہر آباد رہا ہے۔ جس کے باسی انتہائی باذوق تعلیم یافتہ اور مہذب تھے۔ اس صحرا میں یہ کون لوگ تھے۔ کہاں سے آئے اور اپنے پیاروں کے جسد خاکی یہاں دفن کر کے کس نگر جا بسے۔ تھوڑی سی توجہ سے ان کے سراغ کے ساتھ ساتھ ایک اور آثار قدیمہ کا خزانہ بھی دریافت ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments