افغان حکومتی نظریاتی اختلافات اور ابتر عوامی حالت زار


اپنی حکومت کو تسلیم کرانا، عوام کو قحط سے بچانا اور ملک کو انتشار اور بدامنی کی آگ سے محفوظ رکھنا، یہ وہ مسائل ہیں جو طالبان کے لئے فوری طور پر حل طلب ہیں، جبکہ فکری، نظریاتی اور عملی لحاظ سے بھی طالبان اس وقت امتحان سے گزر رہے ہیں۔ طالبان پر مغربی تہذیب کے نظریات اور ادوار کو قبول کرنے کا دباؤ بھی ہے اور دوسری طرف ان کا اپنا ایجنڈا ہے جس میں افغان عوام کی دینی تعلیم و تربیت اور فکری اصلاح کے پہلو شامل ہیں۔

بیس سال کی انتھک جدہ جہد اور جان و مال کی قربانیاں دے کر افغان طالبان اپنی تحریک مظاہرت میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کی تحریک کا مقصد ہدف امریکی و یورپی استعمار کو ملک سے نکالنا تھا۔ افغان طالبان اپنے مشن کے پہلے ہدف کو تو حاصل کر چکے ہیں، مگر دوسرا مرحلہ مشکل، صبر آزماء اور چیلنجنگ ہے کہ کس طرح ملکی نظام کو اسلامی تصورات کے مطابق چلایا جائے۔ سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم، میڈیا، تجارت اور امن غرض زندگی کے ہر شعبے میں موجود مسائل طالبان کی توجہ کے منتظر ہیں۔

قحط کا خدشہ حقیقی ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ جس نے جنگ میں طالبان سے شکست کھائی وہ افغان قوم کو سنبھلنے اور استحکام کا موقع کیوں دیں گے، بلکہ وہ تو سازشیں کریں گے اور جتنا ہو سکا مخالفت ہی کریں گے۔ افغانستان میں اگر بھوک اور قحط آتا ہے تو پاکستان اس سے متاثر ہونے والا براہ راست پہلا ملک ہو گا۔ پاکستان اپنے مفاد کی خاطر ان مسائل حل کرنے کی خاطر دنیا میں بھاگ دور تو کر رہا ہے، چین اور روس بھی ناصرف ان مسائل سے واقف ہیں بلکہ ابھی تک پردے میں وہ طالبان کے لئے ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں۔

امریکہ اور یورپ جن بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت اور خواتین کے حقوق کا پرچار کرتے ہیں وہ نا تو آفاقی ہیں اور نہ ہی عالمی ہیں۔ بلکہ یہ تمام دیگر مذاہب اور معاشروں میں الگ اور مختلف تصورات ہیں۔ لہٰذا اپنی فکر اور تہذیب کو زبردستی دوسروں پر مسلط نہ کریں۔ یورپی تہذیب کی گلوبلائزیشن اور یونیورسل حمایت کی بجائے پلورلزم اور تنوع کی حمایت کریں۔ دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں جو امریکہ اور یورپ سے ڈنکے کی چوٹ پر اختلاف کرتے ہین جن میں چین اور روس شامل ہیں۔

ان ممالک کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد نہ صرف افغانستان کو تسلیم کریں بلکہ ممکن حد تک ان کی مدد بھی کریں۔ طالبان کا سوال ہے کہ وہ مغربی فکر و تحریک کو کیوں قبول کریں۔ وہ اسرار و تکرار کے ساتھ یہ بات کہتے رہے ہیں کہ عالم اسلام کو جس بحران کا سامنا ہے اس کا تعلق وسائل سے نہیں افکار سے ہے۔ اس کا ثبوت جنرل کلارک کا وہ بیان ہے، سوشل ازم کے خلاف مسلم ممالک میں جو تحریکیں چلائی گئیں وہ امریکی سپانسرڈ تھیں۔ ہم الل اعلان یہ بات تو کہتے ہیں کہ ہم نے امریکی مدد سے روس جیسی عالمی طاقت کو افغانستان سے بھگایا، مگر اس طاقت کا نام عوام سے کیوں چھپا رہے ہیں جس کی مدد سے امریکہ کو افغانستان سے نکالا۔

اس سے پہلے کہ افغانستان میں کوئی بڑا انسانی المیہ جنم لے دنیا کو اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر افغانستان میں 5 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہونے افراد، ایک کروڑ ستر لاکھ افراد جو غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور اس سے آدھی تعداد میں بچے کورونا کی وجہ سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ ہفتہ وار بیس سے تیس ہزار افغانی، افغانستان چھوڑ کر ترکی اور پاکستان جا ر ہے ہیں حالات اس قدر پیچیدہ ہیں کہ وہ ممالک جو کابل میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ افغانستان کو باضابطہ طور پر قبول کر سکیں۔

طالبان حکومت کو اس وقت دنیا کی شرائط مان کر اپنے 9.5 بلین ڈالرز حاصل کرنے چاہئیں تاکہ افغان عوام ان سے کہیں متنفر ہی نہ ہو جائیں۔ اس طرح کے اقدامات اب افغان طالبان کے لیے ضروری ہو چکے ہیں جبکہ بین الاقوامی اداروں کے ذریعے بے کس و مجبور افغان عوام کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے، فی الوقت امریکہ انفرادی طور پر افغانستان کی کسی بھی طرح کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے البتہ اگر برطانیہ اور یوری ممالک اس طرح کا کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو امریکہ بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر افغانستان کی کچھ مدد کر سکتا ہے مگر حتمی فیصلہ تو طالبان کی حکومت نے کرنا ہے جو اس وقت دو طرح کی نظریاتی فکروں میں بٹ چکی ہے۔

حکومت میں موجود ایک حصہ اس فکری سوچ کا حامل ہے ان کو دنیا حکومتوں کو چلانے کے لیے جو مروجہ نظام ہے اس کے ساتھ ہی چلنا ہے اس طرح وہ افغان عوام کی مدد کر سکیں گے اور ان کو اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے افغان عوام کی حمایت حاصل ہو گی اور یوں وہ آہستہ آہستہ افغانستان کو اسلامی ریاست کے ڈھانچہ میں ڈھال لیں گے جبکہ دوسرا گروپ اس بات پر مضر ہے کہ ان کی دہائیوں پر مشتمل جدوجہد اس مقصد کے لیے نہیں تھی کہ وہ اپنے بنیادی نظریات سے ہی انحراف کر لیں ان کا خیال ہے کہ ان کے نظریات کے سامنے حکومت کی ثانوی حیثیت ہے وہ ابھی تک چوری کی سزا کے طور پر ہاتھ تو نہیں کاٹ رہے مگر کاٹنا چاہتے ہیں۔ دنیا نے ابھی تک افغان حکومت کے ہاتھ مکمل طور پر نہیں کاٹے افغان حکومت چین، روس، ترکی اور پاکستان کی مدد سے اپنے ہاتھ مضبوط کر کے عوامی مشکلات کم کر سکتی ہے ورنہ طالبان پھر پہاڑوں میں واپس چلے جائیں گے اور اس بار واپسی شاید نہ ہو اور افغان عوام بھی کبھی ان پر اعتبار نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments