فواد چوہدری کی مایوسی اور تضاد بیانی کا پس منظر کیا ہے؟


وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ حکومت اور ریاست ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ واضح رہے گزشتہ روز ہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے دیگر ملکوں کے علاوہ پاکستان کو نگرانی کی اس فہرست میں شامل کیا تھا جہاں مذہبی اقلیتوں کے بارے میں شدید خدشات موجود ہیں اور ریاست ان کی حفاظت میں ناکام ہورہی ہے۔ وزارت خارجہ نے اس اقدام کو باہمی مکالمہ اور دو طرفہ تعاون کے ماحول سے متصادم قرار دیا تھا۔

اب ملک کا ایک وفاقی وزیر جو اطلاعات و نشریات کا نگران ہونے کی حیثیت میں حکومت کے ترجمان کی حیثیت رکھتا ہے ، خود ہی یہ اعتراف کررہا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور ریاست ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے بلکہ ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ خود ریاستی اداروں نے ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے لئے کام کیا تھا۔ 80 اور 90کی دہائی میں منصوبے کے تحت اسکولوں و کالجوں میں ایسے اساتذہ بھرتی کئے گئے جو انتہاپسندی کی تعلیم دیتے تھے۔ ملک میں دہشت گردی کے تمام بڑے واقعات مدارس کے طلبہ نے نہیں بلکہ عام اسکولوں سے پڑھے ہوئے لوگوں نے کئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ ایسا معاشرہ تشکیل دیں گے جس میں دوسرا نقطہ نظر کفر قرار دے دیا جائے، جہنم کی بشارت دی جائے تو اختلاف رائے برداشت کرنے کا ماحول ختم ہوجاتا ہے۔ ایسے میں انتہا پسند گروہ پنپنے لگتے ہیں‘۔

فواد چوہدری نے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کے لئے حال ہی میں تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنے کا حوالہ دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ حکومت کو اس دباؤ کے سامنے پسپا ہونا پڑا اور وہ اس انتہا پسند گروہ کو قابو نہیں کرسکی کیوں کہ معاشرے میں انتہا پسندی کا زہر سرایت کرچکا ہے اور ذہنی تبدیلی کے لئے کام نہیں ہورہا۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی تقریب سے خطاب میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے یہ باتیں اسی روز کی ہیں جب ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کو کوٹ لکھپت جیل سے رہا کیا گیا تھا اور لاہور میں اس تنظیم کے تحت اس کے بانی سربراہ علامہ خادم رضوی کا سالانہ عرس منعقد ہورہاہے جسے سرکاری سطح پر تحفظ اور سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔

سعد رضوی کی رہائی کے ساتھ ہی اس خفیہ معاہدے کی تقریباً تمام شرائط پر عمل ہوچکاہے جس کا اعلان گزشتہ ماہ کے آخر میں رویت ہلال کمیٹی کے سابق چئیرمین مفتی منیب نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے ساتھ مل کر کیاتھا۔ اس معاہدہ کے لئے خاص طور سے شاہ محمود قریشی اور اسد قیصر کو مصالحتی کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا کیوں کہ تحریک لبیک کے لیڈر وزیر داخلہ شیخ رشید یا وزیر اطلاعات فواد چوہدری پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ اس معاہدہ کو خفیہ رکھا گیا ہے گو کہ حکومت کے ذرائع یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ایک دو ہفتوں میں اس معاہدہ کی تمام تفصیلات سامنے آجائیں گی۔ البتہ جو تفصیلات عملی اقدامات کی صورت میں عوام کے سامنے پیش کی گئی ہیں ان میں تحریک لبیک پاکستان پر سے پابندی اٹھانے کا اعلان اور اس کے تمام منجمد اکاؤنٹ کھول دینے کا حکم شامل ہے۔ اس کے علاوہ ٹی ایل پی کے تمام لیڈروں و کارکنوں کو یا تو رہا کردیا گیا ہے یا ان کی ضمانتیں منظور کرلی گئی ہیں۔ اس گروہ کے تمام لیڈروں کو شیڈول فور سے بھی نکال دیا گیا ہے ۔ مفتی منیب نے وزیر خارجہ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی معیت میں واضح طور سے کہا تھا کہ ٹی ایل پی عام سیاسی پارٹی کے طور پر کام کرے گی اور تشدد سے گریز کرے گی۔

اب وزیر اطلاعات اس گروہ کی سماج دشمن سرگرمیوں اور ٹی ایل پی اور اس جیسے گروہوں کی طرف سے معاشرے میں پھیلائی گئی منافرت کو ملک و قوم کے لئے ہلاکت خیز قرار دے رہے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’جب ریاست رٹ ہی قائم نہ کرسکے اور سب شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے تو معتدل مزاج والے مذہبی لیڈر یا تو قتل کردیے جاتے ہیں یا جاوید غامدی کی طرح دھمکیوں کی وجہ سے انہیں ملک چھوڑ نا پڑتا ہے‘۔ فواد چوہدری کی اس انقلابی گفتگو پر غور کرنے اور اس پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے سے پہلے البتہ یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ انہوں نے خود ہی دو ہفتے پہلے بہت فخر سے ملک میں گزشتہ دو دہائیوں تک دہشت گردی میں ملوث گروہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ کسی بھی تنازعہ کو مسلسل جنگ سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے تحریک انصاف کی حکومت ٹی ٹی پی کے کارکنوں کو ہتھیار پھینکنے کے بدلے میں عام معافی دینے پر تیار ہے۔ فواد چوہدری کا یہ اعلان وزیر اعظم عمران خان کے ان خیالات کے عین مطابق تھا جن کا اظہارانہوں نے گزشتہ ماہ کے شروع میں ایک ترک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔

فواد چوہدری کی اس تضاد بیانی کا جواز تلاش کرنے سے پہلے ان کی تقریر پر سوشل میڈیا کے تبصروں کے بعد وزارت اطلاعات کی وضاحت پر نظر ڈال لینا بھی ضروری ہے۔ اس وضاحت میں بتایا گیا ہے کہ وزیر اطلاعات نے درحقیقت یہ پیغام دیا تھا کہ ’ کسی ملک میں انتہاپسندی کا مؤثر مقابلہ کئے بغیر اور قانون و آئین کی عمل داری قائم کئے بغیر ریاست کی رٹ قائم نہیں کی جاسکتی‘۔ فواد چوہدری کی تقریر اور اس وضاحت پر مزید غور سے پہلے البتہ یہ نوٹ کرنا بھی اہم ہوگا کہ بدھ کو حکومت نے اتحادی پارٹیوں کی منت سماجت کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا تھا اور اپوزیشن کے احتجاج اور اعتراضات کے باوجود عجلت میں 33 بل منظور کروائے تھے۔ ان میں سے ایک ترمیم کے تحت ریپ میں ملوث ہونے والے عادی مجرموں کو کیمیائی طریقے سے جنسی عمل کا نااہل بنانے کی شق بھی شامل تھی۔ اس شق پر دیگر لوگوں کے علاوہ جماعت اسلامی کے ارکان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے اسے اسلامی شریعت کے خلاف قرار دیا تھا۔ آج قانون وانصاف کی پارلیمانی سیکرٹری ملیکہ بخاری نے وزیر قانون فروغ نسیم کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ اس شق کو درحقیقت منظور شدہ ترمیم سے نکال دیا گیا تھا کیوں کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے غیر اسلامی قرار دیا تھا۔

پارلیمانی سیکرٹری اور وزیر قانون کی اس وضاحت سے بھی درحقیقت فواد چوہدری کے ان خیالات کی تصدیق ہوتی ہے کہ حکومت ملک میں پھیلائی گئی مذہبی انتہا پسندی کے سامنے بے بس ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک منظور شدہ قانون میں ’ترمیم‘ کے لئے عذر تراشی کی جاتی ہے اور امن و امان کو ہاتھ میں لینے اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے والوں کو معاف کرنے بلکہ سیاسی طور سے ان کا خیر مقدم کرنے کا اقدام کیا جاتا ہے۔ ان نکات پر فواد چوہدری کے خیالات سے اختلاف ممکن نہیں ہے۔ تاہم ان سے یہ استفسار تو کیا جاسکتا ہے کہ اگر وہ عمران خان کی حکومت کو اتنا ہی بے بس اور کمزور سمجھتے ہیں تو وہ کیوں اس حکومت کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنے سیاسی نظریہ کے مطابق ملک میں انتہاپسندی کے خلاف کسی مثبت تبدیلی کے لئے کوئی اقدام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور اگر وہ اپنے لیڈر کو یہ باور کروانے میں ناکام ہیں کہ وہ خود ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ کا سبب نہ بنیں اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ معاہدے نہ کئے جائیں تو ان کا بدستور حکومت میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔

وزیر اطلاعات کے بیان کے اس حصے میں بھی ابہام ہے کہ جب وہ حکومت اور ریاست کا نام ایک ہی سانس میں استعمال کرتے ہیں تو ان کی مراد کیا ہے۔ کیا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت اور ریاست کے ادارے جن میں پولیس کے علاووہ فوج سمیت دیگر سیکورٹی ادارے شامل ہیں، انتہا پسند گروہوں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں؟ یا وہ یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ ریاستی اداروں کی مفاہمانہ پالیسی کی وجہ سے عمران خان کی حکومت دیوار سے لگا دی گئی ہے۔ یہ دونوں بالکل مختلف صورتیں ہیں جو مختلف رد عمل کا تقاضہ کرتی ہیں۔ اگر ریاستی اداروں کے پاس مسلح مذہبی گروہوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو حکومت اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے کیا قدام کررہی ہے۔ بظاہر تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ حکومت کو ملک کی سیاسی اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے سوا کوئی کام یاد نہیں ہے۔

اگر تحریک انصاف کی حکومت، فواد چوہدری جس کے ترجمان ہیں، ریاستی اداروں کی حکمت عملی کے سامنے بے بس ہے تو کیاوجہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت کے طور پر عمران خان اور تحریک انصاف اس صورت حال کو قبول کررہے ہیں۔ کیا یہ وہی حالات نہیں ہیں جن کے بارے میں بہت پہلے سے نشاندہی کی جارہی تھی اور کیا اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک کے منتخب ادارے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے اور سیاسی قوتوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی؟ کیا وجہ ہے کہ حکومت یہ بنیادی جمہوری اقدامات کرنے کی بجائے ، پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹیمپ بنانے اور اپوزیشن کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لئے مان لیا جائے کہ عمران خان اپنے اعلیٰ اصولوں کی وجہ کرپٹ اپوزیشن لیڈروں سے تعاون پر راضی نہیں ہو سکتے تو پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر وہ ان عوامل کا ذکر تو کرسکتے تھے جن کی وجہ سے فواد چوہدری کے بقول ان کی حکومت ناکام اور مذہبی انتہاپسندی کےسامنے بے بس ہوچکی ہے؟

فواد چوہدری اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوصف کوئی انقلابی سیاست دان نہیں ہیں۔ وہ ایک موقع پرست سیاست دان ہیں۔ ان کے زیر بحث بیان کو بھی انتہاپسندی کے بارے میں حکومت یا اس کے ترجمان کی حقیقی پریشانی سمجھنے کی بجائے، ان کی یا تحریک انصاف کی سیاسی مجبوریوں اور ضرورتوں کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔ وہ جن ریاستی اداروں پر حرف زنی کررہے ہیں ، وہ خود ان کے پروردہ ہیں اور ان کی وجہ سے ہی اس وقت اقتدار میں ہیں۔ ان کی حکومت ان اداروں کی کسٹوڈین ہے۔ جب ایک اہم وفاقی وزیر پبلک پلیٹ فارم پر ریاستی اداروں کی کمزوری اور کوتاہی کی نشاندہی کرتا ہے تو اس کی دو ہی وجوہ ہو سکتی ہیں:

 1)ناسمجھی میں اسی شاخ کو کاٹاجارہا ہے جس پر آشیانہ ہے۔

 2) فواد چوہدری یا ان کے لیڈر سیاسی مایوسی کے عالم میں مستقبل میں ممکنہ نعرے بازی کے لئے نئی بنیاد استوار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

یہ دونوں صورتیں ملک میں مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی طاقت کی بجائے جمہوری نظام کی کمزوری اورعدم پائیداری کی علامت ہیں۔ کسی بھی ملک میں انتہاپسندی کے خاتمہ کے لئے عوام کو فیصلوں میں شریک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ انتظام میں اس اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ فواد چوہدری کی باتیں اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments