کیا عدلیہ اپنے دامن کے داغ دھو سکے گی؟


حکومت کی تمام تر کوششوں اور عدلیہ کی روایتی خاموشی کے باوجود سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر لگائے جانے والے الزامات کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ثاقب نثار نے تردیدی بیان جاری کرنے کے سوا کوئی قانونی چارہ جوئی کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضرور گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے ثاقب نثار کے خلاف الزامات سے بھرپور بیان حلفی کا نوٹس لیا تھا لیکن معاملہ کی تہ تک پہنچنے کی بجائے اسے توہین عدالت کے معاملہ میں تبدیل کردیا۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ کی آبزرویشنز سے یہ تاثر قوی ہؤا کہ عدالت ابھی خود احتسابی کے لئے تیار نہیں ہے۔

حیرت انگیز طور پر جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ ویک اینڈ پر لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ماضی میں عدلیہ کی غلطیوں کا اعتراف کیا اور کہا کہ ماضی کے غلط فیصلوں کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ ہمیں ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ ’کوئی بھی خود مختار جج یہ عذر تراشی نہیں کرسکتا کہ اس پر دباؤ ڈالا گیا تھا یا اثر و رسوخ استعمال ہؤا تھا۔ اس قسم کا کوئی بھی اقدام ججوں کے حلف کی خلاف ورزی کے مترادف ہے‘۔ جسٹس من اللہ کی یہ بات درست تو ہے لیکن عملی طور سے اس پر عمل درآمد دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے اپنے غلط فیصلوں کو ری وزٹ کرنے اور ماضی کی ناانصافی کا اعتراف کرکے حقائق درست تناظر میں پیش کرنے کا اہتمام کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ حالانکہ پاکستانی عدلیہ نے یہ ناجائز فیصلے شواہد کی غلط تفہیم کی بنیاد پر نہیں کئے تھے بلکہ جان بوجھ کر قانونی اور آئینی تقاضوں کو نظر انداز کرکے ایسی عدالتی روایت قائم کی گئی جس نے آنے والی کئی دہائیوں تک ملک میں آئینی جمہوریت کا راستہ مسدود کئے رکھا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ ہفتہ کو لاہور کے سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے مولوی تمیزالدین کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ اگر اس فیصلہ کو نظریہ ضرورت کے تحت تبدیل نہ کیا جاتا تو شاید اب ملک کی تقدیر مختلف ہوتی۔ ایک کانفرنس میں تو جج ایسی خوشگوار باتیں کرتے ہیں لیکن عملی طور سے کوئی ایسا قدم اٹھانے سے قاصر رہتے ہیں جس سے ان سہانے خوابوں کی تعبیر دکھائی دے سکے۔ پاکستان اس وقت ایسی ہی مشکل اور پریشان کن صورت حال سے دوچار ہے۔ ثاقب نثار کے خلاف رانا شمیم کے بیان حلفی اور اس کے بعد ایک آڈیو لیک میں سامنے آنے والی گفتگو سے جو صورت پیدا ہوئی ہے، وہ عدالتوں اور ججوں پر اعتماد بحال کرنے کا باعث نہیں بن سکتی۔ اسی لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالتیں اس سنگین صورت حال کا نوٹس لے کر ’توہین عدالت‘ کی آڑ میں معاملہ ٹالنے کی بجائے یہ طے کرسکیں گی کہ ماضی میں کہاں غلطیاں ہوئیں اور مستقبل میں ان سے سبق سیکھنے اور نئی عدالتی روایات استوار کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ اگر اس موقع پر ملک کی اعلیٰ عدالت خاموش رہتی ہے اور اس قسم کی خبر کو سامنے لانے والوں کے خلاف کارروائی کرکے آگے بڑھنا چاہتی ہیں ۔ یا چیف جسٹس گلزار احمد کے لفظوں میں یہ مشورہ دے کر معاملہ ختم کرنا چاہتی ہیں کہ ’ملک میں انتشار پیدا کرنے اور عدالتوں پر عوام کے اعتماد کو کمزور کرنے کی کوشش نہ کی جائے‘ تو اس سے صورت حال میں کوئی قابل ذکر تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔

 کسی بھی ناانصافی کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ اگر یہ ناانصافی کسی عدالتی فورم سے سرزد ہوئی ہے تو موجودہ وقت کی عدالتیں اس معاملہ پر دوبارہ غور کرکے یہ واضح کریں کہ ماضی میں کہاں ٹھوکر کھائی گئی تھی۔ اگر ملک کی سپریم کورٹ ایسی کوئی روایت قائم کرنے کی سعی کرے گی تو یقیناً اسے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی اور عدالتوں پر اعتبار میں بھی اضافہ ہوگا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ ایسے بھیانک فیصلوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے ملک میں آئینی عملداری اور جمہوری راستہ کو مسدود کیا ہے۔ ایسے فیصلے کرنے والے جج بعد میں نجی گفتگو میں یا تو غلطی کا اعتراف کرکے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرتے رہے ہیں یا پھر جسٹس ارشاد حسن خان کی طرح کتاب لکھ کر اپنے غیر آئینی فیصلوں کے حق میں دلیل دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کے فیصلہ کو ملک کی قومی اسمبلی عدالتی قتل قرار چکی ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کی طرف اس معاملہ پر نظر ثانی کی اپیل کو ایک دہائی بیت چکی ہے لیکن کوئی عدالتی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

حالانکہ اگر پاکستانی عدلیہ اپنے دامن پر لگے دھبوں کو مٹانا چاہتی ہے تو صرف بھٹو کی پھانسی کا مقدمہ کھولنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ مولوی تمیزالدین کیس میں جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت سے لے کر جنرل پرویز مشرف کو آئینی شکنی کے الزام میں موت کی سزا دینے والی خصوصی عدالت کے پر اسرار خاتمہ تک کے معاملات پر غور کرنا پڑے گا اور ان معاملات کے بارے میں موجود شبہات کا خاتمہ ضروری ہوگا۔ ایسی صورت میں اسٹیل مل اور ریکوڈک کیسز جیسے انتظامی ، سیاسی اور مالی معاملات میں سپریم کورٹ کی مداخلت اور ایسے فیصلوں کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوگا جن کی وجہ سے پاکستانی خزانے کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا لیکن ایسے فیصلے کرنے والے ججوں کے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ہے۔

مغربی ممالک میں یہ عام طریقہ ہے کہ دستیاب ثبوتوں اور شہادتوں کی وجہ سے کسی شخص کو کسی جرم کی سزا مل جاتی ہے لیکن اگر کئی دہائی بعد بھی متعلقہ شخص یا کوئی ادارہ اس جرم کے بارے میں ایسی معلومات سامنے لے آئے جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ اس نے وہ جرم نہیں کیا تھا تو اس مقدمہ پر از سر نو غور ہوتا ہے اور ماضی میں دی جانے والی سزا کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ ایسے معاملات تاریخ کا حصہ ہیں جن میں عدالتوں نے طویل مدت کے بعد غلط فیصلوں کو تبدیل کیا اور حکومت کو کسی شخص کو ناجائز طور سے جیل میں بند رکھنے کی پاداش میں کثیر معاوضہ بھی ادا کرنا پڑا۔ یہ مشکل اور پیچیدہ قانونی کاوش ہوتی ہے لیکن مہذب جمہوری ممالک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لئے ایسی کاوش دیکھنے میں آتی رہتی ہے۔ ماضی کی کسی ناانصافی سے صرف یہ کہہ کر درگزر نہیں کیا جاسکتا کہ مستقبل میں سبق سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا رویہ درحقیقت کبھی بھی اصلاح احوال کا سبب نہیں بن سکتا۔ ججوں کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے فیصلے غلط ثابت ہونے کے باوجود کبھی چیلنج نہیں ہوں گے اور نہ ہی کبھی ان پر کوئی آنچ آئے گی۔ یہ طریقہ کسی بھی ملک میں عدالتی نظام کو بااعتبار بنانے کا باعث نہیں بن سکتا۔ اس حوالے سے وکیل رہنما علی احمد کرد کا یہ شکوہ جائز ہے کہ ان عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کی وجہ سے پاکستانی عدلیہ اور نظام انصاف اس وقت دنیا کے انڈیکس پر کم تر درجے پر ہے۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں علی احمد کرد کے اعتراضات اور عدلیہ کی خود مختاری کے بارے میں شکایات کا چیف جسٹس گلزار احمد نے دو ٹوک جواب دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی ڈکٹیشن نہیں لی اور نہ ہی کسی میں انہیں ہدایت دینے کی جرات ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تمام فیصلے قانونی میرٹ پر لکھتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ان کے باقی ساتھی جج بھی خود مختاری سے ہی فیصلے کرتے ہیں۔ ملکی عدلیہ کی تاریخ اس شہادت کی تائید نہیں کرتی ، اسی لئے جسٹس اطہر من اللہ نے ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا ۔ اور اسی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ’ ہمیں اپنے اعمال پر غور کرنا ہوگا۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ معافی مانگتے ہوئے آئیندہ کبھی آئین شکنی کا مرتکب نہ ہونے کا وعدہ کرنا پڑے گا۔ تب ہی عوام ہمیں معاف کریں گے‘۔ اعلیٰ عدالتیں ماضی کی غلطیوں پر اسی وقت اظہار پشیمانی کرسکتی ہیں اگر وہ عدالتی ذمہ داری کے دائرے کو ذات کے حصار تک محدود نہ کریں۔ اس طریقہ سے عدالتوں کے عمومی کردار کا تعین نہیں ہوسکتا کہ کوئی ایک جج اپنے حلف کے عین مطابق پوری دیانت داری سے فیصلے کرتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ عدالتی فیصلوں کے عمومی مضمرات کیا ہیں ، ان کے بارے میں پیدا ہونے والا تاثر کیسے اور کیوں ترتیب پاتا ہے اور بعد از وقت سامنے آنے والی معلومات کی روشنی میں پاکستانی عدلیہ کی کون سی تصویر سامنے آتی ہے۔ اس تصویر کے عیب کو ماضی کی غلطی قرار دے کر آگے بڑھنے کی بجائے عدالت کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ ماضی کی کج روی کا راستہ بند کرنے کے لئے پرانے مقدمات کو ری وزٹ کرکے، تاریخ، قانون اور حقائق کو درست تناظرمیں سامنے لاسکے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی کا معاملہ اس حوالے سے ایک بہترین مثال ہے۔ انہیں ایک تقریر کے جرم میں سپریم جوڈیشل کونسل میں عجلت میں کی گئی کارروائی کے بعد عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ میں اس اقدام کے خلاف اپیل گزشتہ تین سال سے التوا کا شکار ہے۔ اسی اپیل کے حوالے سے شوکت صدیقی نے عدالت عظمی میں ایک بیان حلفی جمع کروایا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید نے ان سے ملاقات کرکے فیصلے تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی۔ البتہ سپریم کورٹ میں اس بیان حلفی کو قبول کرنے سے انکار کردیا گیا۔ لاہور میں چیف جسٹس کی طرف سے آئین کی بالادستی کے عزم اور عدلیہ کی خود مختاری کے اعلان کے بعد شوکت صدیقی نے ایک نئی درخواست میں استدعا کی ہے کہ چیف جسٹس کی باتیں حوصلہ افزا ہیں ۔ اس حوالے سے وہ ان کی زیر سماعت اپیل پر پیش رفت سے اہم آئینی امور پر ریکارڈ درست کرسکتے ہیں۔ شوکت صدیقی کی اطلاع کے مطابق سپریم کورٹ کے بنچ نے 12 اکتوبر، 3 نومبراور 25 نومبر کو اپیل کی سماعت مقرر کرکے اسے اچانک ملتوی کردیا۔ اب شوکت صدیقی نے عدلیہ کی خود مختاری کے نام پر اپنے معاملہ کی سماعت اور فیصلہ کی استدعا کی ہے۔

شوکت صدیقی کیس میں فیصلہ سے سپریم کورٹ یہ واضح کرسکتی ہے کہ کیا ملک کی خفیہ ایجنسیاں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں سے مرضی کے فیصلے لینے کی کوشش کرتی رہی ہیں ۔ اگر یہ الزام غلط ثابت ہوجائے تو عدلیہ اور ایجنسیاں دونوں ہی سرخرو ہوجائیں گی تاہم اگر عدالتیں معاملات کو ملتوی کرکے انصاف کا پھریرا لہراتی رہیں گی تو شبہات ختم ہونا ممکن نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments