پی ایس ایل۔۔ چیمپئن کا سفر



\"\"پی ایس ایل 2017 ء کون جیتے گا؟ پانامہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا؟ آج کل گلی کوچوں، چوک چوراہوں، یونیورسٹی کے کیفے ٹیریاز اور چائے کے ڈھابوں پر بس یہ دو سوال ہی گردش کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسرے سوال کا جواب دے کر توہین عدالت لگوانے سے بہتر ہے کہ بات کو پی ایس ایل تک ہی محدود رکھا جائے۔ اگر فینز سے پوچھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پشاور زلمی بس تھوڑی دیر تک ہی ٹرافی لہرانے والی ہے۔ تاریخ دیکھی جائے تو اسلام آباد یونائٹیڈ ٹائٹل کا دفاع کرتی نظر آتی ہے۔ پیسے کے بے دریغ استعمال اور تیاریوں کے لحاظ سے تو کراچی کنگز اور لاہور قلندر فیورٹس ہیں۔ اور اگر سرپرائز فیکٹر دیکھا جائے تو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو مت بھولیے۔مگر ان سب باتوں سے کوئی چیمپئن نہیں بنتا۔
پی ایس ایل کا ڈرافٹنگ سسٹم اس لحاظ سے قابل تعریف ہے کہ اس کے ذریعے ٹیموں کو اچھے کھلاڑی چننے کا مساوی موقع ملتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ایس ایل کی تمام ٹیمیں کم و بیش ایک جیسی ہیں۔ تو چیمپین کا فیصلہ کیسے ہو گا؟ ظاہر ہے ٹاس پھینک کر تو ہونے سے رہا۔ہاں البتہ اگر ڈیو فیکٹر نے اپنا رنگ جمایا تو ٹاس میچ میں اہم کردار ضرور ادا کر سکتا ہے۔ کسی بھی ایسے ٹورنامنٹ میں جس میں تمام ٹیمیں پی ایس ایل کی طرح برابر وسائل کے ساتھ میدان میں اتریں چیمپئن بننے کے سفر میں تین عوامل اہم ہوتے ہیں۔ پہلا کھلاڑیوں کی موجودہ فارم، دوسرا ٹیم کا تھنک ٹینک اور تیسرا کنڈیشنز کے لحاظ سے ٹیم کمبی نیشن۔
دفاعی چیمپئن اسلام آباد یونائٹیڈ سے تمام ٹیموں کا آپریشن شروع کرتے ہیں۔ یونائٹیڈز کے پاس وسیم اکرم، ڈین جونز اور مصباح کی صورت میں بہترین دماغ موجود ہیں جو شاید پی ایس ایل کی کسی دوسری ٹیم کو میسر نہیں۔ بیٹنگ میں شرجیل خان، شین واٹسن، مصباح الحق اور خالد لطیف جیسے بڑے نام ضرور ہیں مگر مصباح اور واٹسن کی فارم یونائیٹڈز کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو گی۔ آل راﺅنڈرز میں آندرے رسل پر ڈوپنگ کی وجہ سے لگنے والی پابندی یونائٹیڈز کے لیے کسی آفت سے کم نہیں۔ ٹاپ آرڈر میں آﺅٹ آف فارم بلے باز فارم میں واپسی کے لیے اگر تھوڑا وقت لیتے ہیں تو یونائٹیڈز کے پاس اس کمی کو پورا کرنے کے لیے رسل جیسے پاور ہٹر کی موجودگی بہت ضروری تھی۔ بولنگ میں یونائٹیڈز ابھی بھی کافی مضبوط نظر آتے ہیں۔ سعید اجمل اور سیمویل بدری اچھی فارم میں ہیں اور وکٹیں بھی ان دونوں باﺅلرز کو بہت سوٹ کرتی ہیں۔ رومان رئیس بھی ٹی ٹونٹی کا اچھا بولر ہے کیونکہ اسے لائن اور لینتھ پر مکمل کنٹرول تو ہے ہی ساتھ میں اس کی سلو کٹر گیند ٹی ٹونٹی کرکٹ میں کافی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ محمد عرفان بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں بھرپور ردھم میں نظر آئے ہیں۔ مجموعی طور پر یونائٹیڈز کی اصل پریشانی بیٹنگ ہی رہے گی۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پچھلے سال حیران کن طور پر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ وہ ٹورنامنٹ تو نہیں جیت سکے مگر انہوں نے شائقین کے دل ضرور جیت لیے۔ گلیڈی ایٹرز کا سب سے بڑا ہتھیار سر ویون رچرڈز کی ڈریسنگ روم میں بھرپور موجودگی ہے۔ ان جیسا عظیم کھلاڑی اگر کسی اوسط کھلاڑی کو صرف حوصلہ دے دے تو وہ بھی اس دن ڈیوڈ وارنر ثابت ہو سکتا ہے۔ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمدہیں جن کو پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم کے تینوں فارمیٹس کا کپتان بنانے کی باتیں زیر گردش ہیں۔ پچھلے ایڈیشن میں بطور خاص سرفراز احمد کی کپتانی کو بہت سراہا گیا تھا اور تب سے ہی سرفراز احمد سر ویون رچرڈز کا فیورٹ بن چکا ہے۔ گلیڈی ایٹرز کو ٹاپ آرڈر میں احمد شہزاد، کیون پیٹرسن، ریل روسو اور لیوک رائٹ کی خدمات حاصل ہوں گی۔ یہ تمام کھلاڑی کافی عرصے سے انٹرنیشنل کرکٹ سے دور ہیں۔ ان کی فارم اور فٹنس پر ہی گلیڈی ایٹرز کی قسمت کا انحصار ہو گا۔ مڈل آرڈر سرفراز احمد اور محمد نواز کی شکل میں کافی بہتر دکھائی دیتا ہے۔ تشارا پریرا اور انور علی کی موجودگی میں پاور ہٹنگ کے لیے گلیڈی ایٹرز کو پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ باﺅلنگ ڈیپارٹمنٹ میں ذوالفقار بابر، عمر گل اور محمد نواز کی موجودگی بظاہر ایک مضبوط باﺅلنگ اٹیک کو ظاہر کرتی ہے مگر ان تینوں باﺅلرز کی موجودہ فارم زیادہ متاثر کن نہیں ہے۔
فینز کی جان پشاور زلمی کے کپتان شاہد آفریدی نے ڈیرن سمی کو بطور عزت کپتانی ٹرانسفر کر کے اچھی مثال قائم کی ہے۔ ویسے بھی آفریدی کا بطور کپتان ریکارڈ کافی خراب رہا ہے۔ پچھلے ایڈیشن میں بھی اہم مواقعوں پر غلط فیصلوں کی وجہ سے ان فارم زلمی ٹورنامنٹ سے باہر ہوئی تھی۔ اس بار ٹی ٹونٹی کنگ ڈیرن سمی کی بطور کپتان موجودگی زلمی کو چیمپئن کے سفر میں بہت تقویت پہنچائے گی۔ زلمی کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ میں سوائے مورگن کے باقی تمام کھلاڑی دلشان، حفیظ، صہیب مقصود اور سیمولز آﺅٹ آف فارم دکھائی دیتے ہیں۔ مگر کامران اکمل، شاہد آفریدی اور ڈیرن سمی کی شکل میں زلمی کو آخری اوورز میں بڑے پاور ہٹرز کا ساتھ ضرور حاصل رہے گا۔ باﺅلنگ میں پچھلے سال کے سرپرائز پیکیج محمد اصغر اور شاہد آفریدی کے ساتھ جنید خان کی موجودگی زلمی کی باﺅلنگ کو کافی خطرناک دکھا رہی ہے مگر وہاب ریاض کی موجودہ فارم زلمی کے لیے باعث تشویش ضرور ہے۔
لاہور قلندر نے ایک ہی جھٹکے میں اپنا فین کلب بڑھا لیا ہے اور اس کی وجہ برینڈن مکیلم کی بطور کپتان انٹری ہے۔ برینڈن مکیلم ماڈرن ڈے کرکٹ کی ایک بڑی مثال ہے۔ اس نے بطور کپتان اپنی جارحانہ اپروچ سے درمیانے لیول کی نیوزی لینڈ ٹیم کو ناقابل تسخیر ٹیموں میں لا کھڑا کیا تھا۔ قلندرز کا ٹاپ آرڈر بہت مضبوط ہے۔ برینڈن مکیلم، جیسن رائے، عمر اکمل اور کیمرون ڈیلپرٹ ماڈرن ڈے ٹی ٹونٹی کرکٹ کے بہترین بلے باز ہیں اور سب ہی فارم میں ہیں۔ لیکن قلندرز کو لوئر مڈل آرڈر میں پاور ہٹنگ میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سہیل تنویر، عامر یامین اور محمد رضوان محدود ہٹنگ ہی کر سکتے ہیں۔ باﺅلنگ میں سہیل تنویر اور سنیل نارائن کی شکل میں ٹی ٹونٹی سپیشلسٹ کی موجودگی قلندرز کے چیمپئن کے سفر کو آسان بنا سکتی ہے مگر یاسر شاہ اور ظفر گوہر کو ابھی محدود طرز کی کرکٹ میں کافی کچھ ثابت کرنا ہے۔
کراچی نے شعیب ملک کی جگہ اپنا کنگ جنٹل مین کمار سنگاکارا کو بنایا ہے۔ ملک بطور کھلاڑی ہی کھیلے گا۔سنگاکارا اور شعیب ملک کے ساتھ ان فارم بابر اعظم اور دیو ہیکل کرس گیل کی ٹاپ آرڈر میں موجودگی مخالف ٹیموں کے لیے بڑا چیلنج ہو گی۔ مڈل آرڈر میں روی بوپارہ اور کیرن پولارڈ کے ساتھ عماد وسیم اور سہیل خان کسی بھی باﺅلنگ اٹیک کو لمحوں میں کچلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ باﺅلنگ کا زیادہ بوجھ محمد عامر، سہیل خان اور عماد وسیم کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ با صلاحیت لیگ سپنر اسامہ میر اور شعیب ملک بھی امارات کی وکٹوں پر کافی موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔ روی بوپارہ کی میڈیم پیس باﺅلنگ بھی گولڈن آرم بن سکتی ہے۔ مجموعی طور پر کراچی کنگز سب سے زیادہ متوازن اور ان فارم ٹیم نظر آتی ہے مگر کرکٹ ہی اگر گرگٹ بن جائے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments