سقوط کابل میں حقانی گروپ کا کردار


طالبان کا افغانستان پر آناً فاناً قبضہ ابھی تک امریکا اور دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔ امریکا اور اس کے شکست خوردہ اتحادی شرمندہ شرمندہ سے ہیں۔ اشرف غنی اور ان کی تین لاکھ فوج ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ طالبان کی اس غیر معمولی فتح میں حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں اور افغان حکومت کی صفوں میں شامل ان کے خفیہ اہلکاروں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ حقانی نیٹ ورک طالبان کا حصہ ہے لیکن امریکا اس کو ایک الگ گروپ قرار دیتا ہے۔

حقانی نیٹ ورک کا بدری 313 یونٹ خودکش بمباروں، خصوصی تربیت یافتہ جنگجوؤں اور خفیہ افراد پر مشتمل ہے۔ سراج الدین حقانی کے بھائی حافظ بدر الدین حقانی نے یہ گروپ قائم کیا تھا۔ یاد رہے کہ طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کا صاحبزادہ عبدالرحمن جو خود ایک خودکش بمبار تھا، اس نے بھی اسی یونٹ سے خودکش حملے کی تربیت لی تھی۔ بدری یونٹ کے یہ سینکڑوں خفیہ افراد افغان حکومت کے خودمختار اداروں، وزارتوں، فوج، ہسپتالوں، این جی اوز میں کئی سال پہلے سے شامل ہو چکے تھے۔ یہ خفیہ افراد داڑھی کے بغیر یعنی کلین شیو تھے اور جینز پہنتے تھے۔ ان لوگوں نے خفیہ رہ کر اپنے ہم خیال افراد کے گروپ تشکیل دیے۔ وقتاً فوقتاً افغان فوج میں شامل طالبان کے یہ حامی اپنے ہی ساتھیوں پر حملہ بھی کرتے رہتے تھے، جسے انسائیڈر اٹیک یا فرینڈلی فائرنگ کا نام دیا جاتا تھا۔

جیسے جیسے امریکا کا انخلا تیز ہوا تو طالبان کی جنگ میں بھی شدت آنے لگی۔ اس بار طالبان نے اپنی جنگ کا آغاز شمالی افغانستان سے کیا جہاں انہیں شمالی اتحاد کے گروپوں سے شدید مزاحمت کی امید تھی۔ حقانی گروپ افغانستان کے 6 سے 8 مشرقی صوبوں اور کابل کے نواح میں خاصا سرگرم ہے۔ ان صوبوں میں پکتیکا، پکتیا، کنڑ، ننگرہار، ہلمند، غزنی، قندھار، پروان شامل ہیں۔ اس گروپ نے مشرقی افغانستان کے اہم شہر غزنی، اسد آباد، جلال آباد بغیر ایک گولی چلائے فتح کیے۔

مزار شریف میں عبدالرشید دوستم اور عطا محمد نور طالبان کے خلاف سرگرم تھے تاہم انہیں اس وقت بھاگنا پڑا جب ان کا ایک کمانڈر لڑائی کے دوران طالبان سے جا ملا۔ جس پر انہیں مزار شریف چھوڑ کر ازبکستان کی جانب بھاگنا پڑا۔ ایسا ہی کچھ ہرات میں اسماعیل خان کے ساتھ بھی ہوا۔

مشرقی اور شمالی افغانستان پر 14 اگست کو طالبان کے مکمل قبضے کے بعد کابل اب ہاتھ سے جا رہا تھا، حالات کو بھانپتے ہوئے امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے 14 اگست کی رات دوحہ میں طالبان سے مفاہمت کی کہ وہ 11 ستمبر تک شہر پر قابض نہیں ہوں گے، کابل میں 15 اگست کی صبح ہلچل اور افراتفری سے بھرپور تھی، شہر میں بغاوت کا آغاز مرکزی جیل سے ہو چکا تھا۔ اس صبح کابل پر اشرف غنی کا نہیں پریشانی اور بے چینی کا راج تھا۔

لوگ بینکوں سے پیسہ نکلوانے کے لئے بھاگ رہے تھے۔ کچھ لوگ راشن کی خریداری میں مصروف تھے۔ شہر میں بیشتر افراد ائر پورٹ کی طرف بھاگ رہے تھے۔ اسی روز سہ پہر کو اشرف غنی کے ساتھیوں سمیت فرار ہو جانے سے صورتحال یکسر بدل گئی۔ غنی کے فرار ہوتے ہی طالبان اپنے خفیہ افراد کو کام میں لائے۔ امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق طالبان فورسز کے دارالحکومت پہنچنے سے پہلے ہی ان خفیہ افراد نے کابل پر قبضہ کر لیا تھا، عبدالرحیم عمری نامی ایک شخص کابل میں تاجر تھا لیکن حقیقت میں وہ بدری 313 کا کمانڈر تھا، عمری نے اسی وقت اپنے 12 ساتھیوں کے ہمراہ این ڈی ایس کی عمارت پر قبضہ کیا، انہوں نے حساس فائلز اور کمپیوٹرز کو اپنے قبضے میں لیا۔ ملا رحیم نامی بدری یونٹ کے ایک اور خفیہ شخص نے کابل میں ادارہ برائے آثار قدیمہ پر قبضہ کیا اور قیمتی نوادرات کو چوری ہونے سے بچایا۔ اسی طرح کئی خفیہ افراد نے کابل میں اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ سقوط کابل میں اس یونٹ کی کامیابیوں نے طالبان کی صفوں میں حقانی گروپ کے اثر رسوخ کو اور بڑھا دیا۔

اب سقوط کابل کے بعد کی صورتحال اور طالبان حکومت میں حقانی نیٹ ورک کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ سقوط کابل کے بعد کابل ائر پورٹ، ایوان صدر اور اہم ترین عمارتوں کی سکیورٹی حقانی گروپ کے اسی بدری 313 یونٹ کے حوالے کی گئی۔ بدری 313 یونٹ کا ہیڈکوارٹر بھی کابل کے ایک نرسری سکول کی عمارت میں قائم کیا گیا۔ 7 ستمبر 2021 کو طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابینہ کا پہلا اعلان کیا، جس میں حقانی گروپ کو 5 اہم ترین وزارتیں ملیں، ان وزارتوں سے ان کی اہمیت کا اندازہ جا سکتا ہے۔

گروپ کے سربراہ اور طالبان کے نائب سربراہ سراج الدین حقانی کو وزارت داخلہ کا قلمدان ملا۔ ان کے چچا خلیل الرحمن کو مہاجرین و آبادکاری کی اہم وزارت ملی جبکہ انٹیلی چیف ملا عبدالحق واثق کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے، انٹیلی جنس کا نائب سربراہ تاج میر جواد کو بنایا گیا جو حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر رہے، سابق افغان حکومت کابل اور دیگر علاقوں میں ہونے والے تباہ کن ٹرک بم حملوں کی منصوبہ بندی کا الزام میر جواد پر عائد کرتی رہی ہے۔ وزیر برائے ہائر ایجوکیشن عبدالباقی حقانی کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے، وہ حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی کے بہت قریب رہے۔ وزیر کمیونیکیشن نجیب اللہ حقانی کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے۔ پاسپورٹ ٖڈپارٹمنٹ کے سربراہ کا تعلق بھی اسی گروپ سے بتایا جاتا ہے ۔

مشرقی افغانستان کے چند صوبوں کے گورنرز بھی حقانی گروپ کے ہی افراد ہیں۔ ابھی حال ہی میں حقانی گروپ کے ملا داؤد مزمل کو ننگرہار کا گورنر مقرر کیا گیا، چند ہفتے قبل کنڑ صوبے کا گورنر بھی تبدیل کیا گیا، جہاں پہلے بھی حقانی گروپ کا گورنر تھا نئے کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے۔ 7 نومبر کو طالبان نے کئی صوبوں کے گورنر اور پولیس چیف بدل دیے، حقانی گروپ کے اہم ترین کمانڈر اور سراج الدین حقانی کے دست رات حاجی مالی خان کو لوگر صوبے کا گورنر مقرر کیا گیا۔ حاجی مالی خان متعدد خوفناک ترین ٹرک بم خودکش حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا، سی آئی اے اور این ڈی ایس نے اسے 2011 میں خوست سے گرفتار کیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حقانی گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات میں بھی بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments