کرپشن کو لطیفہ بنانے کے بعد نعرہ نہیں بنایا جاسکتا


کورونا منصوبوں میں چالیس ارب روپے کی بے قاعدگیوں کے بارے میں آڈیٹر جنرل کی رپورٹ مسترد کرنے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اب یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت کرپشن کے خاتمہ کے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے دو ارکان کے ساتھ ملاقات میں وزیر اعظم نے انہیں سرکاری وسائل کی درست نگرانی کرنے اور کسی بھی بے قاعدگی کو برداشت نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ خبر کے مطابق عمران خان نے اپنی پارٹی کے ارکان کو ہدایت کی کہ اگر کوئی کرپشن کے معاملات دبانے کی کوشش کرے تو انہیں مطلع کیا جائے۔

وزیر اعظم کرپشن کے بارے میں اپنی اس نام نہاد پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے اگر یہ بھی بتا دیتے کہ ان کے علم میں آنے کے بعد کیا تبدیلی رونما ہوگی؟ ان کی اپنی حکومت میں شامل متعدد افراد کی کرپشن کے بارے میں اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں لیکن وزیر اعظم نے زبانی جمع خرچ کے سوا کوئی اقدام کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہ معاملہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے لیڈروں پر نیب کے مقدمات سے لے کر چینی اور گیہوں کی سپلائی کے معاملہ میں منافع خوری سے ہوتا ہوا پنڈورا بکس میں متعدد اعلیٰ عہدیداروں کی آف شور کمپنیوں کے انکشاف تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن دعوؤں اور بیان بازی سے زیادہ ان میں سے کسی بھی معاملہ میں کوئی سرکاری کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔

نیب نے ملک کے بڑے میڈیا ہاؤس کے سربراہ میر شکیل الرحمان سے لے کر نواز شریف اور دیگر اہم ترین لیڈروں کو ضرور طویل مدت تک قید میں رکھا لیکن ان میں سے کسی کے بھی خلاف کسی ایک مقدمہ کو حتمی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ اس کے برعکس وزیر اعظم کے قابل اعتماد افراد اور قریبی دوستوں کے خلاف تو نیب یا ایف آئی اے کوئی کارروائی بھی نہیں کر سکی۔ اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں تحریک انصاف کے ارکان نے وزیر اعظم کو مطلع کیا ہے کہ پی اے سی تو صرف آڈٹ پیپرز دیکھتی ہے، کرپشن کے معاملات ایف آئی اے اور نیب جیسے اداروں کی کمزوری کے باعث منطقی انجام کو نہیں پہنچتے۔ ان میں سے ایف آئی اے براہ راست وفاقی حکومت کے زیر نگرانی کام کرتا ہے اور حکومت اسی ادارے کے ذریعے سیاسی مخالفین اور ناپسندیدہ افراد کو ہراساں کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔ اور نیب کے موجودہ چیئرمین کی نگرانی میں اس ادارے کی اعلیٰ کارکردگی سے وزیر اعظم اس حد مطمئن و خوش ہیں کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے عہدے کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی انہیں تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ نیب آرڈی ننس کے تحت کوئی شخص چئیر مین کے عہدے پر ایک مدت سے زیادہ فائز نہیں رہ سکتا لیکن عمران خان کو جاوید اقبال کی اپوزیشن دشمنی پر اس قدر یقین ہے کہ وہ کسی قیمت پر انہیں ’خود‘ سے علیحدہ کرنا نہیں چاہتے۔ اور ایک نئے آرڈی ننس کے تحت انہیں نئے چئیر مین کا تقرر ہونے تک اس عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

نیب کی کارکردگی اور صلاحیت کے بارے میں جاننا ہو تو متعدد نیب ریفرنسز میں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے فاضل جج حضرات کی آبزرویشنز کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے جن میں نیب کی تحقیقات اور اس کے افسران کی نالائقی کا ذکر تفصیل سے کیا جاتا رہا ہے۔ نیب کے چئیر مین خود قانون دان ہیں اور سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس تک کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں لیکن ان کی نگرانی میں کام کرنے والے قومی احتساب بیورو کے تیار کردہ مقدمات نیب عدالتوں میں ہی ناکارہ اور بے بنیاد ثابت ہو جاتے ہیں یا پھر ہائی کورٹ تک پہنچتے ہی ان کے دلائل کا انبار گھاس پھونس کا ڈھیر ثابت ہوتا ہے۔ چئیر مین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی نگرانی میں نیب کسی قابل ذکر سیاسی لیڈر کو کسی مقدمے میں حتمی سزا دلوانے میں کامیاب نہیں ہوسکا البتہ اس نے کسی ثبوت اور ٹھوس شواہد کے بغیر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز اور متعدد دیگر لیڈروں کو طویل مدت تک تحقیقات کے نام پر حراست میں ضرور رکھا ہے۔ اس دوران البتہ جاوید اقبال کرپشن کے بارے میں عمران خان کے ’بیانیہ‘ کو تقویت دینے کے لئے باقاعدگی سے بیانات، پریس ٹاک یا سیمینار میں خطابات کے ذریعے قومی دولت لوٹنے والوں کو معاف نہ کرنے کا اعلان ضرور کرتے رہے ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کی اپنی ذاتی دیانت کا یہ عالم ہے کہ جب ایک خاتون نے چئیر مین کے دفتر میں نازیبا حرکات کی شکایت کی تو نیب کی مشینری کو اس خاتون اور اس کے شوہر کو ہراساں کرنے پر مامور کر دیا گیا۔ اس معاملہ میں معمولی تردید کے علاوہ جسٹس جاوید اقبال نے خود کو کسی قسم کی جوابدہی کے لئے پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ملک کو بدعنوانی سے پاک بنانے اور اخلاقیات پر طول طویل تقریریں کرنے والے وزیر اعظم کو بھی چیئرمین نیب کے اس عیب یا کمزوری کی تحقیقات کروانے یا ان کی سرزنش کے لئے معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ تو جاوید اقبال کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اتنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ اب وہ شاید آئندہ انتخاب تک انہیں اس عہدہ پر برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ چئیر مین نیب صرف اخلاقی لحاظ سے ہی مشکوک کردار کے حامل نہیں ہیں بلکہ ان کا ادارہ کسی جواز، ثبوت یا شواہد کے بغیر کسی کو بھی طویل مدت تک قید کرنے کی صلاحیت و اختیار رکھتا ہے کیوں کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ نیب کے علاوہ عمران خان کے ایجنڈے کا پہلا نکتہ ہے۔ اب یہ ادارہ خود اپنے ہی بیان کے مطابق وصول شدہ رقم کو سرکاری خزانے میں جمع کروانے میں ناکام رہا ہے۔

اسی ماہ کے شروع میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ گزشتہ سال کے دوران نیب نے 821 ارب روپے وصول کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن وزارت خزانہ کے اکاؤنٹ میں صرف 6 ارب روپے جمع کروائے گئے۔ اس پر پی اے سی کی رکن اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شیری رحمان نے سوال کیا تھا کہ ’کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ رقم کہاں گئی‘ ؟ نیب نے اس کا کوئی باقاعدہ جواب نہیں دیا البتہ جاوید اقبال نے کسی صحافی کے سوال پر یہ وضاحت ضرور کی کہ نیب جن لوگوں سے کرپشن کے معاملات میں معاہدے کرتا ہے، ان سے نقد رقم وصول نہیں کی جاتی۔ ایسے میں کم از کم از کم پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ان املاک اور نوادرات کی تفصیل ہی فراہم کردی جاتی جو قومی احتساب بیورو نے اس کثیر رقم کے عوض وصول کیے تھے اور یہ کہ یہ اثاثے کہاں جمع کروائے گئے ہیں؟ یا ان کے بارے میں بھی یہی اعلان کیا جائے گا کہ وزیر اعظم کو ملنے والے غیر ملکی تحائف کی طرح ان کی تفصیل بتانے سے وسیع تر قومی مفاد کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جو حکومتیں ایسے اندیشوں کی آڑ میں پناہ لیتی ہیں، ان کا سربراہ بھی کبھی ملک میں ہونے والی کسی بے قاعدگی یا کرپشن کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز جب احساس پروگرام اور کورونا اخراجات میں 40 ارب روپے خرد برد کا معاملہ کابینہ میں زیر غور آیا تو اس کی آڈٹ رپورٹ مسترد کر کے کام چلانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ اگر آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ ناقص اور ناقابل قبول تھی تو وزارت خزانہ اور حکومت نے اسے وصول کرتے ہی اس کے نقائص کی نشاندہی کیوں نہیں کی۔ آخر اسے کس بنیاد پر عوام سے چھپایا گیا تھا۔ پھر آئی ایم ایف کے شرط عائد کرنے پر مجبوراً اسے شائع کیا گیا لیکن حکومت اب اس کے مندرجات کو ماننے سے انکار کر رہی ہے۔ کیا عمران خان اور ان کی کابینہ کے رویہ سے یہ مان لیا جائے کہ اگر کوئی کرپشن کا انکار کردے تو اس پر کسی قسم کی انگشت نمائی کرنا درست نہیں ہوتا؟ پھر عمران خان کی اپنی سیاست کا کیا بنے گا۔ وہ تو صرف دوسروں پر انگلیاں اٹھانے اور عیب گنوانے پر ہی انحصار کرتی ہے۔ قسمت نے عمران خان کو اپنی باتوں کو درست کرنے کا نایاب موقع عطا کیا تھا لیکن وہ ایک بار پھر اقتدار لینے کے لئے پرانے نعروں کو نیا لبادہ پہنانے کی تگ و دو میں ہیں۔ کارکردگی کے نام پر ان کی جیب خالی ہے۔

پاکستانی عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں کریش اور ڈالر کی قیمت میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ملکی معیشت کی ابتری کا حال بیان کر رہا ہے۔ لیکن وزیر اعظم کو ان معاملات پر توجہ دینے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ عمران خان اینڈ کمپنی نظام حکومت یا معاشی اقدامات سے قطعی طور سے نابلد ہے۔ سیاست میں ان کے اناڑی پن کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ملک کو گوناگوں مسائل درپیش ہیں۔ عوام شدید پریشان، معیشت بیمار، خزانہ خالی اور عالمی سطح پر پاکستان کا اعتبار صفر ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان کو صرف یہ فکر ہے کہ کس طرح اپوزیشن پر الزام تراشی کے ذریعے وہ اپنا قد اونچا کرتے رہیں۔

وزیر اعظم نے اگر فوری طور سے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی نہ کی تو اس حکمت عملی سے نہ تو وہ ملک چلا سکیں گے اور نہ ہی انتخاب جیت سکیں گے۔ نہ عوام ایک ناکارہ حکمران پر اعتبار کریں گے اور نہ ہی بادشاہ گر کھوٹا سکہ دوبارہ چلانے کی کوشش کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments