ایک ماحولیاتی جائزہ : 2021


2021 کے دوران کووڈ 19 کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کا موضوع بھی عالمی سطح پر تواتر کے ساتھ زیر بحث آتا رہا خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے چلائی جانی والی ماحولیاتی تحریک کو عالمی میڈیا میں مسلسل نمایاں جگہ ملتی رہی۔ اسی طرح اس سال سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی حوالے سے عوامی شعور اور تشویش میں اضافہ ہوا ہے اور اب دنیا کی ایک بڑی آبادی ماحولیاتی تبدیلیوں کو اس دور کے سب سے بڑے مسئلوں میں شمار کرنے لگی ہے۔

خاص طور پر نوجوانوں میں اپنے اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کے مستقبل کے حوالے سے کافی تشویش پائی جاتی ہے۔ حال ہی میں شایع ہونے والے ایک سروے کے مطابق 16 سے 25 سال کی عمر کے لوگوں کی اکثریت ماحولیاتی تبدیلیوں کی بنا پر اپنے مستقبل سے خوفزدہ ہے۔ ماحولیاتی بحران کے بارے میں تیزی سے پھلتی اس عوامی تشویش کی وجہ سے کلائیمیٹ ڈپریشن اور ایکو اینگزائٹی کی اصطلاحات عام ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اب میڈیا سے لے کر عالمی اداروں تک یہ تاثر بھی زور پکڑتا جا رہا ہے کہ ہمارے پاس ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے سلسلے میں عملی اقدامات لینے کا وقت بہت کم ہے۔

سال 2021 میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائیمیٹ چینج (آئی پی سی سی) کی طرف سے اپنی چھٹی تجزیاتی رپورٹ کا اجرا تھا جس میں سائنسی شواہد کی مدد سے ماحولیاتی بحران کے فوری خطرات کی نشاندہی کی گئی اور اس رپورٹ کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری کے جانب سے ؛کوڈ ریڈ فار ہیومینٹی؛ قرار دیا گیا۔

اس سال ماحولیاتی انصاف کے لیے افریقہ اور ایشیا کی غریب ملکوں سے اٹھنے والی اوازوں میں غیر معمولی شدت آئی ہے اور دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوانوں نے کلائیمیٹ ایکٹوازم کے ہیروز کے طور پر اپنی شناخت بنالی ہے۔ اس سال منعقد ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عالمی کانفرنس سی او پی 26 کو عالمی میڈیا اور سیاست میں بے انتہا اہمیت حاصل رہی۔ اس کانفرنس میں عالمی رہنماؤں کی طرف سے کافی جذباتی تقریریں کی گئیں لیکن کانفرنس کے فیصلوں سے ماحولیاتی کارکنوں کی امیدیں پوری نہ ہو سکیں۔

سفارتی محاذ پراس سال ایک اہم اہم پیش رفت اقوام متحدہ کی ہیومن رائیٹس کونسل کی وہ قرارداد بھی تھی جس کے ذریعے صاف اور صحتمند ماحول کو ہر انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔ البتہ ماحولیاتی تبدیلیوں کو عالمی امن، سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دینے کے لیے سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد کو روس کی جانب سے ویٹو کر دیا گیا۔

سال 2021 کے دوران دنیا کے مختلف ممالک قدرتی آفات سے نبرد آزما رہے جن کو عالمی میڈیا کی جانب سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ تواتر کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ جوڑا گیا۔ نیویارک ٹائمز نے سال کے آخر میں 193 ملکوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اہم خبروں پر مشتمل ایک تفصیلی ضمیمہ شایع کیا جس میں پاکستان کے شہر جیکب آباد گرمی کے غیر معمولی درجہ حرارت سے متعلق بھی ایک خبر شامل تھی۔

اس کے علاوہ پورا سال سیلاب، قحط، دنیا بھر کے جنگلات میں لگنے والی آگ اور دیگر شدید موسمی حالات کی خبریں ہمیں یہ با آ ور کرواتی رہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں آ نہیں رہیں بلکہ آ چکی ہیں۔ مثال کے طور پر نیشنل جیوگرافک میں شایع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق اس سال کے موسمی حالات بالخصوص شمالی امریکہ میں شدید گرمی کی لہروں، یورپ اور ایشیا کے مختلف ملکوں میں آنے والی سیلاب کی شدت سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم پچھلی صدی کے مقابلے میں ایک بدلی ہوئی دنیا میں رہ رہے ہیں۔

شمال مغربی پیسیفک اور جنوب مغربی کینیڈا کے علاقے معتدل اور برساتی موسم کی وجہ سے جانے جاتے ہیں لیکن اس سال یہ علاقے بھی شدید گرمی سے متاثر ہوئے۔ اس حوالے سے ہونے والی تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ ان علاقوں آنے والی گرمی کی شدید لہریں موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ تھیں۔ اسی طرح کیلیفورنیا، ترکی، یونان اور دنیا کے دیگر ملکوں میں خوفناک جنگلی آگ کے واقعات رونما ہوئے۔ لیکن سب سے حیران کن بات پچھلے سال روسی سائبیریا کے جنگلات میں لگنے والی آگ تھی۔ ان علاقوں کو دنیا کے سب سے ٹھنڈے خطوں کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن اس سال روسی سائبیریا سمیت ماسکو اور ایس ٹی پیٹسبرگ کے لوگوں نے غیر معمولی گرمی کا سامنا کیا۔ اس سب کا انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں برپا ہونے والی موسمی تبدیلیوں کے بنا تصور کرنا بھی مشکل تھا۔

اسی طرح کینیا اور مشرقی افریقہ کے کئی علاقوں میں ٹڈی دل کے بڑے بڑے جھنڈ کسانوں کا جینا دوبھر کرتے رہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے ٹڈی دل کی افزائش کے لیے سازگار حالات پیدا کر دیے ہیں۔ جنوبی امریکہ کے کئی ممالک کو شدید قحط کا سامنا رہا اور دریائے پارانا اپنی کم ترین سطح پر بہتا رہا۔ قحط کے حوالے سے سب سے زیادہ خراب صورتحال مڈغاسکر میں رہی جہاں گزشتہ چند سالوں سے مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔

ویسے تو یہ تمام قدرتی آفات دنیا کے لیے نئی نہیں ہیں اور کسی بھی دور کی انسانی تاریخ قدرتی آفات کے ذکر سے خالی نظر نہیں آتی لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان قدرتی آفات میں آنے والی شدت اور تواتر میں اضافے کا تعلق ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہے۔ اور اس حوالے سے موسمیات کے عالمی ادارے ڈبلیو ایم او نے 2021 کو فیصلہ کن سال ( میک اور بریک ییئر ) قرار دیا ہے۔ ادارے کی طرف سے سال 2021 کے ماحولیاتی جائزے پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سائنسی شواہد ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہمارا سیارہ ہمارے سامنے بدل رہا ہے سمندروں کی گہرائیوں سے لے کر پہاڑوں کی اونچائیوں تک، پگھلتے گلیشیئرز سے لے کر شدید موسمی حالات تک، ماحولیاتی نظاموں سے لے کر انسانی آبادیوں تک ہر جگہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے آثار نمایاں ہوتے نظر آرہے ہیں۔

اسی تناظر میں دسمبر میں کینٹکی سمیت امریکہ کی کئی ریاستیں ٹورنیڈو کہلانے والے طوفانی بگولوں کی زد میں رہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاست کینٹکی کے گورنر کا کہنا ہے کہ ریاست کے متعدد شہروں اور قصبوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور طوفان اور تیز ہواؤں کی زد میں آ کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 سے بڑھ سکتی ہے۔ گو کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ان طوفانی بگولوں کے برپا ہونے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے کردار کے بارے میں تحقیق کروانے کا اعلان کیا ہے لیکن معروف ماحولیاتی سائنسدان مائیکل ای مین پہلے ہی اس رائے کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان طوفانی بگولوں کی شدت اور تواتر میں اضافے کا سیدھا تعلق موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے۔ وہ ان طوفانی بگولوں کو صرف قدرتی آفت ماننے سے انکاری ہیں ان کے خیال میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت فطری عوامل سے مل کر اس طرح کے تباہ کن موسمی حالات کا سبب بن رہا ہے۔

لیکن اس ساری مشکل صورتحال میں ایک امید افزا بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عوامی شعور میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر سطح پر روایتی سوچ بدل رہی ہے۔ اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ انسانی سوچ میں یہ تبدیلی مستقبل میں انفرادی، ملکی، اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے بہتر عملی اقدامات کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments