کلیسا کے سیاسی نظریات اور موجودہ دور کے فلسفی.


یہ کلیسا ہی تھا جو بادشاہوں کی تاج پوشی کیا کرتا تھا. اس بارے میں کلیسا کا موقف تھا کہ اگرچہ بادشاہ دنیاوی طور پر حاکم تھا مگر اسے بنانے اور اتارنے میں فقط کلیسا کی خوشنودی درکار ہوتی تھی. چنانچہ جب کبھی بادشاہ اور کلیسا کے درمیان کوئی اختلاف ہوتا تو بادشاہ صرف نام کا رہ جاتا تھا. کلیسا بعض اوقات سرکشی پر اتر آتا. نوبت یہاں تک پہنچی ہوئی تھی کہ ایک بار پوپ اور برطانیہ کے بادشاہ ہوحنا کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہوگیا. پوپ نے بادشاہ اور اس کی قوم کو محروم قرار دے دیا. ان کے کلیسا عبادت سے معطل قرار دیے گئے, شادی کے انعقاد روک دیے گئے. گویا بادشاہ ایک خارش زدہ مریض بن کر رہ گیا. مطلب یہ ایک ریاست کے اندر ریاست والا نظام تھا. آخر کار یوحنا نے دو زانو ہو کر معافی مانگی تب جاکر بادشاہ اپنے تخت پر بیھٹا. فشر کے بقول کوئی بھی بادشاہ اپنے اقتدار کی طوالت کی خاطر اپنا تعلق کسی مقدس ہستی سے جوڑ دیتا تو پھر اس کو پوچھنے والا کوئی نہ ہوتا تھا. کچھ اسی طرح کا واقعہ جرمن شہنشاہ ہنری چہارم اور پوپ گریگوری کے درمیان پیش آیا. بادشاہ کو برفباری کے موسم میں پہاڑوں کو عبور کر کے تین دن تک پوپ کی منت سماجت کرنا پڑی.
‌کلیسا کا نظریہ اپنی تشریح کے مطابق ان خیالی نظریات کےمطابق تھا جو فرضی شہروں پر مشتمل تھا. آگسٹن ایک مسیحی دینی بزرگ تھا جس نے ایک دنیا میں خیالی جنت کی تصویر پیش کی. اس شہر کا نام یوٹوپیا تھا. جہاں صرف نیکیاں ہوتی تھی. گناہوں کا تصور تک نہیں تھا. سب مل جل کر رہتے تھے. آگسٹن کے مطابق دنیا میں دو ہی شہر ہوتے ہیں ایک خدا کا شہر اور دوسرا شیطان کا شہر. خدا کا شہر وہ ہے جسے فادر چلاتے ہیں اور شیطان کا شہر دنیاوی لوگ چلاتے ہیں. پھر کلیسا کا یہ کہنا کہ جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو. ایسے میں بادشاہ اپنے آپکو فقط مسیحت کا ایک سپاہی سمجھتے.
‌بنیادی طور پر مسیحی سلطنت دو طرح سے کام کرتی تھی. ایک دینی پیشوا جو کلیسا میں دینی امور سر انجام دیتے تھے اور دوسرا گروہ کلیسا کے ماتحت دنیاوی امور انجام دیتے تھے. مطلب تب بھی علمی طور پر ریاست کے امور کسی حد تک مذہب سے جداتھے.
‌کلیسا کے سیاسی نظریات سے آگے چلیں تو ہم موجودہ دور کے لادین سیاسی نظریات تک پہنچنے میں تین طرح کے نظریات دیکھتے ہیں. پہلا. خیالی نظریہ. اس نظریے کی بنیاد یونان میں دیکھی جاسکتی ہے. جیسا کہ افلاطون کی جمہوریہ, تھامس مور کی یوٹوپیا اور ازکامبانیلا کی مدینہ الشمس. جہاں یہ تصور دیا گیا کہ ایک ریاست ہے جس میں سب لوگ خوشحال ہیں اور دین کی کوئی ضرورت نہی. دوسرا طبقہ تھا عقد اجتماعی والا یا عمرانی معاہدہ والا. ارسطو کے مطابق انسان معاشرتی حیوان ہے اور وہ صدیوں سے اس معاشرے میں رہتا آیا ہے. ہوبز کے مطابق انسان ہمیشہ سےحالت جنگ میں ہے لہذا اس پر لازم ہے کہ اس کے اوپر قانون اور ریاست کی اجارہ داری ہو. اور وہ ریاست اس خاص معاشرے کے ساتھ عمرانی معاہدہ کرے. اسی طرح جان لاک نے بھی کچھ ایسے ہی نظریات پیش کیے. اس کے بعد روسو  نے کہا کہ انسان اپنے مفادات اور اپنے مذاہب کی وجہ سے انارکی میں مبتلا ہوا. لہزا یہ ضروری ہے کہ دین سے ہٹ کر انسان اور معاشرے کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ کیا جائے. روسو کے مطابق پہلے عوام اپنے بادشاہ کی عبادت کرتے تھے. اسی لیے ان کے درمیان مسائل نہیں تھے. مگر مسیحت کی وجہ سے مسائل بنے. اس لئے دین اور ریاست کو الگ ہونا چاہیے. تیسرا نظریہ حق کا تصور تھا. جو کہ عالم اسلام سے مستعار لیا گیا. جس میں حاکم اپنی مرضی سے نہیں بلکہ شریعت کے تحت چلتا تھا.
‌ایسے میں انیسویں صدی میں جدید ریاست کا بانی سامنے آیا. جس کا نام میکیاولی تھا. اس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب دی پرنس لکھی. بنیادی طور پر اس کی کتاب تین باتوں پر مرکوز ہے. پہلی کہ انسان فطری طور پر شریر یے لہذا اس کو صرف قانون کےدائرے میں لایا جائے, دوسرا سیاست کو اخلاقیات سے بالکل جدا قرار دیتا ہے اور تیسرا ریاست خود سیاستدانوں کے ذریعے اپنے کام چلائے. اگرچہ یونانی فلاسفر کہتے تھے کہ چونکہ ریاست چلانا ایک زیرک پسندی اور عقل فہمی کا ناام ہے اس لیے ریاست کا سربراہ کسی فلسفی کو ہونا چاہیے. میکیاولی بنیادی طور پر ڈارون کے فلسفے کا قائل تھا. کہ جو موزوں ہوگا وہی قائم رہے گا. جیسا کہ جاگیرداری کا نظام دیکھتے دہکھتے ہی ختم ہو گیا اور اسکی جگہ سرمایہ دارانہ نظام آگیا.
(جاری ہے)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments