جہلم سے “داڑھی والا” کے دولت خانے تک
حسنین جمال صاحب سے فون پر بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ اس اتوار بک کارنر (جہلم) آنا تقریبا ناممکن ہے کیوں کہ کام ڈھیر سارے ہیں اور یہ کلی جان۔ مگر ہماری دلی خواہش تھی کہ ویب سائٹ کا افتتاح حسنین جمال صاحب کے ہی ہاتھوں ہو۔ اس سلسلے میں ناصر اور زلفی بھائی سے بات کی کہ ہمیں ہی اسلام آباد جانا پڑے گا تو اس پر دونوں نے لبیک کہا اور اتوار کی صبح جادہ چوک میں پہنچ گئے۔
ابھی کچھ وقت گزرا تھا کہ ایک ڈیوو بس سٹاپ پر آہستہ ہوئی اور ہم نے ادھر سے فیض آباد کا نعرہ بلند کیا تو مونچھوں والے بھائی نے “دل والے دلہنیا لے جائیں گے” فلم میں ثمرن کی طرح ہمارا ہاتھ تھام کر اوپر کھینچ لیا۔ ابھی کرایہ پر بحث ہونی تھی کہ بحث تبدیلی سرکار پر ہوگئی۔ حسب معمول میری بات مہنگائی سے شروع ہوئی کیوں کہ میرا ماننا ہے کہ میں بھی مڈل کلاس سے ہوں اور میرا شمار بھی پاکستان کے اُن چند شرفاء میں سے ہوتا یے جو مزدور طبقے کے لیے بولتے ہیں۔ مگر کسی کم بخت نے دو تین دن پہلے ہی ” پاکستان میں رہنا سستا ترین ” والا آرٹیکل لکھ میرے سارے موقف پر پانی پھیر دیا۔ ناصر جب قابو نہ آیا تو بات کو فلم انڈسٹری کی طرف گھما کر اپنا بچ بچاو کیا۔
اس دوران ناصر کو پتا بھی نہیں چلا کہ کنڈکٹر کب آیا اور کب ناصر سے کرایہ لے گیا۔ ناصر کو آپ تبدیلی سرکار پر چھیڑ کر کچھ بھی نکلوا سکتے ہیں سوائے ایک دو چیزوں کے۔ پھر بات ہالی ووڈ سے ہوتی ہوئی عورت کے حسن پر پہنچی تو فیض آباد آ گیا۔ نوجوان آدمی گفتگو کہیں سے بھی شروع کرے، ختم ہمیشہ عورت پر ہی کرتا ہے۔
فیض آباد اُترے تو کوئی چیز فیض والی نظر نہیں آئی۔ وہی روکھاپن اور بھاگم بھاگ جو اکثر شہروں میں ہوا کرتی ہے ماسوائے ایک فقیر کے جو حد سے زیادہ ہی خوش دکھائی دے رہا تھا۔ ہم سے چند روپے لینے کے بعد جب ہم نے اس سے وجہ معلوم کی تو پتا چلا کہ بیوی تین سال پہلے چھوڑ کر چلی گئی۔ تب سے بھائی خوشی سے پاگل ہے۔
پھر کیک خریدنے کے لیے جو افتتاحی رسم پر کاٹا جا سکے رخ کیا تو جیسے تمام فیض آباد کے بیکریاں والے سامان سمیٹ کر کہیں اور شفٹ ہو گئے ہو۔ بھئی ادھر دیکھ اُدھر دیکھ ہمیں کہیں بیکری نظر نہ آئی۔ پھر اگلے سٹاپ پر کیک خریدنے کی ٹھانی اور میٹرو میں سوار ہو گئے۔ میٹرو اور اوپر سے اسلام آباد کا ایریا ہو تو بھئی ایک لمحے کے لیے تو لگتا ہے کہ بندہ کہیں پاکستان سے باہر تو نہیں چلا گیا۔ ہر جگہ اتنی حسین کہ بندہ کیا کہے۔
پھر میٹرو نے ہمارا ساتھ صرف ابن سینا روڈ تک نبھایا۔ ہمیں اپنی منزل مقصود یعنی کہ ” داڑھی والا ” کے پاس پہنچے کے لیے اور اڈے کا رخ کرنا پڑا۔ جہاں پر جاوید بیکرز سے کیک خرید لیا گیا اور اُس پر ” سب کی اُردو ” کے الفاظ کنندہ کروا دیے گئے۔ پھر ایک شریف سا ڈرائیور دیکھ کر G-11 کا پوچھ کر سوار تو ہو گئے مگر ڈرائیور صاحب سواریاں پوری ہونے کی ضد پکڑ کر بیٹھ گئے۔ آدھا پونا گھنٹہ تو یوں ہی گزر گیا۔ پھر گاڑی آہستہ آہستہ سرکی تو ساتھ میں نے گوگل میپ کھول لیا کہ ہمیں کہیں اور ہی نہ لے جائے۔ اتنے میں زلفی بھائی نے ایک حسینہ کو سگریٹ سلگائے دیکھ لیا۔پھر کیا تھا کہ زلفی بھائی نے چلتی گاڑی میں سے چلا چلا کر کہا کہ وہ دیکھو لڑکی سگریٹ پی رہی ہے۔ مشکل سے زلفی بھائی کو سمجھایا کہ یہ اسلام آباد ہے۔ یہاں یہ چلتا یے۔ ابھی دس پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ ہم حسنین جمال صاحب کے گھر کے قریبا 1 کلومیٹر کی دوری پر تھے۔ مگر تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ہم G-11 سے دور جا رہے ہیں۔ اب ناصر کا پہلے بھی اسلام آباد آنا جانا لگا رہتا تھا تو اس لیے یہ ناصر کو بتایا کہ بھئی ہم اپنی منزل مقصود سے پرے ہٹ گئے ہیں یعنی کہ دور جا رہے ہیں تو آگے سے کہتا ہے کہ ” تم چپ بیٹھو گاڑی آگے سے یو ٹرن لے گی۔ ”
مگر اسے کون بتاتا کہ بھئی یہ اسلام آباد کی گاڑی ہے، خان صاحب تھوڑی ہے کہ جو یو ٹرن لے لیں گے۔
پھر کیا تھا کہ پانچ چھ کلومیٹر کے بعد جب کوئی سٹاپ آیا اور ڈرائیور نے چند سواریاں اُتاری تو میں نے درخواست کی کہ جناب ہمیں G-11 پر اُتار دیجیے گا۔
” جناب G-11 تو کافی پیچھے رہ گیا ہے۔ میں نے ڈبل روڈ کی آواز بھی لگائی تھی-” ابے احمق، بندہ تم سے پوچھے کہ نئے بندے کو کیا معلوم کہ G -11 کو ہی ڈبل روڈ بھی کہتے ہیں۔ ہم نے تو کہا کہ اگر کوئی تیسرا نام ہے تو وہ بھی بتا دو۔ یہ نہ ہو کہ پھر آگے نکل جائیں۔ پھر اُس سے خاصی بحث ہو گئی کہ سواریوں سے کرایہ بھی لیتے ہوں اور سواریوں کو غلط جگہ اُتارتے ہوں۔ معاملے ذرا تلخ ہونے ہی والا تھا کہ ڈرائیور صاحب نے معذرت طلب کر کے ہمارا سارا پلان چوپٹ کر دیا۔ ہم یہ تو سکھایا گیا یے کہ اگلا بحث کرے تو اُس سے کیسے نمٹنا ہے مگر کوئی معذرت طلب کر لے تو پھر کیا کریں یہ ہمیں نہیں سیکھایا گیا۔
پھر اُس گاڑی سے اُترے اور اور دوسری گاڑی پر سوار ہوئے جو G-11 کی طرف جاتی ہوں۔ پھر لاہوریوں کو دعا دی کہ جن کے صرف لوگ غلط راستہ بتاتے ہیں۔ یہاں کے تو بھئی ڈرائیور غلط راستہ بتاتے ہیں ۔ پھر ڈرائیورز کے متعلق دو تین اور جگتیں کیں تا کہ یہ والا ڈرائیور یہ ساری باتیں سن لیں اور ہمیں ایگزیکٹ جگہ پر اُتارے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ہمیں ایگزیکٹ جگہ پر اُتار دیا گیا۔ اب G-11/3 ہمارے سامنے تھا۔ جیسے ہی گیٹ کے پاس پہنچے تو گارڈ صاحب نے ہمیں ہماری اوقات یاد دلوائی۔ حسنین جمال صاحب سے بات کروائی تو پھر کہیں جا کر اُس نے ہم پر قدرے اعتماد کا اظہار کیا اور ہمیں اندر جانے کا اجازت نامہ دیا گیا ۔ فلیٹ ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ اتنے میں یاد آیا کہ جس ڈرائیور کو غلط سٹاپ پر اُتارنے پر سنائی تھیں، کرایہ تو ہم نے اُسے دیا ہی نہیں۔ لگا تار قہقہے بلند ہوتے رہیں اور فلیٹ نمبر 8 کی تختی سامنے نظر آئی۔ بیل بجائی تو حسنین جمال صاحب نے ہمیشہ کی طرح پوری انرجی کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا۔
جب تھکے ہوئے حسنین جمال صاحب کے پاس پہنچے تو حسنین جمال صاحب کی مہمان نوازی نے دل خوش کر دیا۔پھر رسم_ کیک کٹائی ہوئی۔ باقی ساری چیزیں زبردست تھیں سوائے قہوے کے۔ وہ بھی شاندار تھا مگر ہم جیسے چینی قہوے میں ڈالنے لگے تو حسنین جمال صاحب نے روک دیا کہ بھئی چینی زیادہ ہو جائے گی۔ بس کیا تھا کہ اس چکر میں پھیکا قہوہ پیتے رہیں کہ حسنین جمال صاحب کے سامنے بھرم بنا رہیں کہ ہم بھی پینڈو لوگ نہیں ہیں بھئی۔
- فِٹ رہنے کی ادھوری خواہش - 25/07/2023
- ہائے! ہاسٹل کی سردیاں اور چائنا کا ہیٹر - 19/04/2023
- آج کا نوجوان مذہب بیزار کیوں ہے؟ - 04/02/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).