مقتول جوڑے کی تلاش


 \"\"دنیا محبت اور محبت کرنے والوں کے لیے کس انداز میں سوچتی ہے اس کا قطعی اندازہ  تو یوں نہیں لگایا جاسکتا کیوں کہ مختلف خطوں میں لوگوں کی سوچ اور رہن سہن کا انداز مختلف ہےتاہم جنوب ایشیائی ممالک جن میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہیں میں بدلتی ہوئی قدروں کے باوجود اب بھی خواتین کے لیے پسند یا محبت کی شادی کو ناپسندیدہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہیں یہ ناپسندیدگی انتہائی نفرت میں ڈھل جاتی ہے اور کشت و خون کا بازار گرم کر دیتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اب شہروں میں لوگوں کی سوچ کا انداز کسی حد تک تبدیل ہوا ہے لیکن ایسا  زیادہ تر صرف سوچ کی حد تک ہے۔ فلموں ڈراموں، موسیقی، کہانیوں اور اب سوشل میڈیا پر محبت اور پسندیدگی کی تائید کرنے والے حقیقی زندگیوں میں اپنے گھر کی خواتین کے ایسے کسی عمل کو پسندیدہ خیال نہیں کرتے۔

ایک روشن خیال طبقہ ایسا بھی ہے جو شخصی آزادی کا قائل ہے اور انسانی حق انتخاب کی تائید کرتا نظر آتا ہے لیکن وہ خواتین کو آزادی دے کر ان سے بالواسطہ طور پر یہ توقع  ضرور کرتا ہے کہ وہ اپنے \”پائے استقامت\” میں لغزش نہ آنے دیں گی۔ وہ یہ توقع ایک ذمہ داری کی طرح ان کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں کہ ہم نے تم پر اعتماد کیا ہے اور اب تم اسے قائم رکھنے کے لیے ہر ترغیب اور راہ میں آنے والی ہر پسندیدگی بھری نظر کو نظرانداز کردو گی۔ بالخصوص شادی کے موقع پر ٹٹولتی نظروں سے کچھ  کھوجتے سوالات کیے جاتے ہیں کہ \”کوئی\” ہے تو بتا دو، اور جب خاتون کہہ دے کہ کوئی نہیں ہے تو سکون کا سانس لیا جاتا ہے۔ اور اگر \”کوئی\” ہےاور اس کا اظہار بھی کردیا جائے تو شادی کی اجازت دے بھی دیں تو بھی کہا یہی جاتا ہے کہ ہمارے اعتماد کو توڑ دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکی کے لیے پورے خاندان کے دل سے ہمدردی رخصت ہو جاتی ہے۔ کہیں روشن خیالی کے حامل افراد کو یہ طعنے بھی دیے جاتے ہیں کہ تمھاری اپنی بہن ایسا کرے تو۔۔۔ ویسا کرے تو۔۔۔ کہیں یہ کہنا کہ ویلنٹائن منانے کا پروگرام بنانے والی کی بہن دوسرے کمرے میں کسی اور کے ساتھ ویلنٹائن کا منانے کی پلاننگ میں مصروف۔ کہیں ویلنٹائن ڈے یا محبت کے دن کو منانے کا سوچنے والے جوڑے کے اگلے نو ماہ کا  \”ذلت پروگرام\” تشکیل دے کر بزعم خود گالیوں سے بھی نوازا جاتا ہے۔\"\"

میڈیا کی آزادی، رومانوی خبروں  فلموں ڈراموں میں دل چسپی رکھنے اور پورن ویب سائٹس کی کثیر ویور شپ کے باوجود اکثریت اب بھی پسند اور محبت کی شادی کو گناہ عظیم سے تعبیر کرتی اور اس کی عبرت ناک سزا تجویز کرتی ہے۔ یہ عبرت ناک سزا سرعام قتل، سنگساری، جلا کر مار دینا، زہر دے دینا، ہاتھ پیر توڑ ڈالنا وغیرہ ہوا کرتی ہیں۔ گوگل پر لفظ \”جوڑا قتل\” لکھتے ہی قتل کی ایسی کئی وارداتیں آنکھوں کے آگے آ جاتی ہیں۔ یہ تصویر ملاحظہ ہو:

یہ خبریں صرف ایک صفحے کا عکس ہے جو ہمیں ان تمام عبرت ناک طریقہ ہائے قتل سے آگاہ کرتا ہے جو محبت کی صورت میں کسی انسان کا مقدر بننے والی ہیں۔ یہاں تک کہ گزشتہ دنوں ایک ماں نے خود اپنی بیٹی کو زندہ جلا دیا بیرون ملک سے آنے والی سمیعہ شاہد اپنوں کے ہاتھوں قتل ہوئی۔

لیکن، ذرا سوچیے! کیا محبت سے روکنا ایسا ہی آسان ہے۔ کیا ایسے دردناک حربوں سے محبت رک سکتی ہے؟ کیا فطرت پر بند باندھے جا سکتے ہیں؟ محبت کرنا انسانی فطرت ہے اور محبت سے روکنے والے ایک خلاف فطرت جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کیا فطرت کے خلاف جانے والے کبھی کامیاب ہو سکتے ہیں؟  کیا دل کی دھڑکن کو کوئی روک سکا ہے؟ کیا جذبات پر پہرے بٹھائے جا سکتے ہیں؟ کیا سانس لینا چھوڑا جاسکتا ہے؟  ازل سے لوگ دنیا میں آتے اور جاتے ہیں کیا بنا محبت کوئی اس دنیا میں رہ پایا ہے؟

آج ہمیں اس ادراک کی ازحد ضرورت ہے کہ بھوک پیاس اور دیگر حوائج ضروریہ کی طرح محبت بھی ایک ایسی ہی ناگزیر ضرورت ہے اور اسے چور دروازوں کی بجائے کھلے دل سے خوش آمدید کہنا چاہیے تا کہ اس کے مضر اثرات سے بچا جا سکے اور چور دروازوں سے آنے والی کسی محبت کے ہاتھوں ہم یا ہمارے پیارے کوئی نقصان نہ اٹھا لیں۔ ہمیں اپنی زندگیوں میں محبت کو جگہ دینی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments